March 26, 2020

دوران قرینطینہ گھر کے کام برائے جماعت نہم تا دہم


گھر کا کام دوران قرینطینہ ( اے کے یو- ای بی کے تمام طلبہ کےلئے )
مضمون : اُردو
جماعت: نہم و دہم
عزیز طلبہ جب آپ چھٹیوں سے واپس آئیں گے تو ہم  درج ذیل کاموں کا آپ سے تقاضا کریں گے
·          ریڈیو سن کر  کام کرنا :  ہمیں اُمید ہے کہ آپ سب کے گھروں میں ریڈیو موجود ہوں گے اگر نہیں ہیں تو آپ کسی رشتہ دار سے مستعار لے سکتے ہیں ۔   یاد رہے کہ  ریڈیو وائس اف امریکہ کا ریڈیو پروگرام" ریڈیو آپ کی دنیا "  ہر روز شام سات(7) بجے سے لیکر  صبح سات(7) بجے تک نشر ہوتا ہے ۔ ہر اتور کو  اس ریڈیو سے رات 10 بجے سے لیکر 11 بجے تک " صدا رنگ " کے نام سے ایک اُردو ادبی پروگرام نشر کیا جاتاہے ۔ جس میں مختلف شعرا و ادبا کی سوانح کے ساتھ ساتھ  اُردو کا کوئی ایک مشہور افسانہ خالد حمید کی زبانی سنایا جاتا ہے ۔ آپ یہ پروگرام میڈیم ویوزپر  972 کلو ہرٹز پر سن سکتے ہیں ۔  ضرور سنیے اور سننے کے بعد اس انداز سے کام  کیجئے  ۔
1.       افسانہ غور سے سنیے اور سننے کے بعد اُس افسانے کو اپنے انداز سے لکھئے جو  1000  الفاظ سے کم نہ ہو  ۔ یاد رہے کہ اپ کی کاپی کی ایک لائن میں 10  الفاظ آسکتے ہیں لہذا  آپ کو ہر روز 142 الفاظ لکھنے ہوں گے یوں آُ پ کو ایک دن میں ایک ورق لکھنا ہوگا ۔  لیکن اس سے پہلے افسانے کی تفصیل کا آپ کے پاس موجود ہونا لازمی ہے ۔
2.       افسانہ سننے کے بعد  آپ افسانے کا  خلاصہ لکھ سکتے ہیں ، افسانے کو سننے کے بعد اُسی طرح کی کوئی اور  کہانی لکھیے ۔
جماعت  نہم ، دہم ، یازدہ  اور دوازدہ
·           ہم نے آپ کے لئے اُردو  کا ایک  بلاگ  بنایا ہوا ہے آپ درج ذیل اڈریس پر جایئے اور  اپنی ضرورت کے مطابق معلومات  آٹھایئے ۔


جماعت نہم :
·          درج ذیل اسباق کا خلاصہ لکھ کے لائیں ۔ ہر خلاصہ  کم از کم دو اوراق  پر مشتمل ہو۔
o       صبح خیزی اور پڑھنے کے فوائد ۔ مصنف ڈپٹی نذیر احمد
o       تحریک ۔ مصنف  منشی پریم چند
o       نام دیو مالی ۔ مصنف۔ مولوی عبد الحق
جماعت دہم :
·         درج ذیل غزلیات کی اپنے انداز سے تشریح کیجئے ۔ تشریح لکھتے ہوئے آپ اپنے بھائی ، بہن یا والدین سے مدد لے سکتے ہیں ۔  لیکن کوشش یہ ہو کہ اپنے گھر سے باہر کسی سے مدد نہ لیں کیونکہ  ( COVID-19)   لگنے کا خطرہ ہو سکتا ہے
·         یاد رہے کہ  تشریح پہلے سے کسی کتاب میں موجود نہ ہو ۔ ایک تشریح کم از کم سات سطور یعنی 50 سے 60 الفاظ پر مشتمل ہو  
·         ہر تشریح میں  کم از کم ایک شعر حوالے کے طور پر موجود ہو ۔
غزلیات کی تفصیل
1.       فقیررانہ آئے صدا کر چلے  از میر تقی میر ؔ
2.       تصور سے کسی کے میں نے کی ہے گفتگو برسوں  از  خواجہ آتش علی آتش ؔ
3.       نگاہ یار جسے آشنائے راز کرے  از حسرت موہانی
4.       ہونٹوں پہ کبھی اُن کا میرا نام ہی آئے  از ادا جعفری
یاد رہے کہ درج بالا کام  میں کوتاہی آپ کے تعلیمی سفر میں رکاوٹ کی باعث بن سکتی ہے


March 18, 2020

( تالیف: شمس الحق قمر AKESP, ) مشہور افسانہ نگار سجا د حیدر یلدرم کی ادبی اور افسانوی زندگی

سجاد حیدر یلد رم
حالات زندگی ، ادبی زندگی ، افسانہ نگاری

سجاد حیدر کا افسانہ " مجھے میرے دوستوں سے بچاؤ" جماعت نہم کے کورس میں شامل ہے  یہ افسانہ اس صفحے کے آخر میں تحریر ہے 

سجاد حیدر یلدرم 1880ء میں بنارس میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد سید جلال الدین سرکاری ملازم تھے۔ یلدرم نے ایم۔ اے۔ او کالج علی گڑھ سے 1901ء میں بی اے کیا۔ کالج کے زمانے میں اچھے مقرر بھی تھے اور شاعری کا شستہ مذاق بھی رکھتے تھے۔

یلدرم کو ترکی زبان اور ترکوں سے بڑی محبت تھی۔ جب بغداد کے برطانوی قونصل خانہ میں ترکی ترجمان کی ضرورت ہوئی تو آپ وہاں چلے گئے۔ اب یلدرم کو ترکی ادبیات کے مطالعہ کا موقع ملا چنانچہ انہوں نے بہت سی ترکی کہانیوں کو اردو میں منتقل کیا اور اس طرح اردو نثر میں ایک نئے اسلوب کا اضافہ کیا۔ کچھ عرصہ بعد یلدرم بغداد سے تبدیل ہو کر قسطنطنیہ کے برطانوی سفارت خانے میں چلے گئے پہلی جنگ عظیم چھڑنے سے پہلے وہ امیر کابل کے نائب سیاسی ایجنٹ ہو کر ہندوستان واپس چلے آئے۔ یوپی میں کچھ عرصہ ملازمت کی۔ 1920ء میں علی گڑھ یونیورسٹی کے رجسٹرار مقرر ہوئے ڈپٹی کلکٹر کی حیثیت سے بھی کام کیا
1943ء میں لکھنؤ میں وفات پائی اور قبرستان عیش باغ میں دفن ہوئے۔ مشہور ادیب اور ناول نگار قراۃ العین حیدر آپ کی صاحبزادی ہیں۔
سجاد حیدر یلدرم کے افسانوں اور انشائیوں کا مجموعہ خیالستان اردو ادب میں بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ یوں تو انہوں نے شاعری بھی کی، مضمون بھی لکھے لیکن ان کا نام ایک رومانوی افسانہ نگار کی حیثیت سے ہمیشہ یاد رہے گا۔ وہ اردو کے پہلے افسانہ نگار تسلیم کیے جائے ہیں۔


افسانہ نگاری
اردو افسانے کی باقاعدہ ابتدا کا سہرا یلدرم کے سر ہے۔ ”خیالستان “ یلدرم کی رومانیت اور تخیل کا بہترین عکس ہے۔ خیالستان میں انشائیے، انشائے لطیف اور مختصر افسانے شامل ہیں۔ گویا صنف نثر کی تین اصناف کے مجموعہ کا نام ”خیالستان “ ہے ان شہ پاروں میں کچھ ترکی ادب سے اخذ و ترجمہ ہیں اور بعض طبع زاد ہیں۔ ان میں سجاد حیدر یلدرم کا رومانی انداز فکرو بیان جادو جگا رہا ہے۔ یلدرم کا شمار ارد و کے ابتدائی افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے اُن کے انداز تحریر اور رومانوی انداز نے اپنی آنے والے ادبیوں کی کئی نسلوں کو متاثر کیا
تاریخ ادب اردو“ میں رام بابو سکسینہ لکھتے ہیں:
سید سجاد حیدر نثر افسانہ نما خوب لکھتے ہیں۔ عبارت بہت دلفریب اور ا س میں ایک خاص طرح کی نشتریت ہوتی ہے۔
بقول قاضی عبدالغفار:
سجاد اردو زبان میں ایک نئے اور ترقی پسند اور بہت ہی دلنواز اسلوبِ بیان کے موجد تھے اور اس لیے وہ خراجِ تحسین کے حقدار ہیں۔
اردو افسانے کی باقاعدہ ابتداءکا سہرا یلدرم کے سر ہے ”خیالستان “ یلدرم کی رومانیت اور تخیل کا بہترین عکس ہے۔ خیالستان میں انشائیے ، انشائے لطیف اور مختصر افسانے شامل ہیں گویا صنف نثر کی تین اصناف کے مجموعہ کا نام ”خیالستان “ ہے ان شہ پاروں میں کچھ ترکی ادب سے اخذ و ترجمہ ہیں اور بعض طبع ذاد ہیں۔ ان میں سجاد حیدر یلدرم کا رومانی انداز فکرو بیان جادو جگا رہا ہے۔

رومانیت:۔

رومانیت کے بنیادی اصولوں میں تخیل کی فراوانی ، ماضی پرستی ، روایت سے بغاوت ، جوش و جذبہ اور محبت شامل ہیں لیکن سجاد حیدر یلدرم کی رومانیت کا جو تصورنظر آتا ہے اس کی ایک جداگانہ حیثیت ہے۔جو دوسرے رومان نگار ادیبوں سے مختلف ہے۔ ان کے ہاں رومان ہمیشہ اضطراب اور ہیجان کا باعث ہے جب کہ سجاد کا رومان ، سکون کا باعث ہے۔ جذبات کی مصوری میں یلدرم کو ملکہ حاصل ہے ۔ ان کے افسانوں میں جذبہ محبت ، رومانیت کا پرتو لیے ہوئے ہے۔ وہ عشق اور اس کے جذبات کی تحریک کے لیے ہمیشہ رومانی پس منظر کا ہونا ضروری سمجھتے ہیں اور عموماً یہ کام چاند اور اس کی رومان پرور فضاءسے لیتے ہیں۔ ان کے رومان کی روح رواں عورت ہے ان کے نزدیک عورت مرکز محبت ہے وہ عورت کو محبت سے الگ کرکے دیکھتے ہی نہیں۔

اولیت:۔

یہ بات امر مسلمہ ہے کہ یلدرم کو اردو افسانے میں اولیت کا شرف حاصل ہے وہ رومانی دبستان کے سرخیل ہیں اور ان کی بنائی ہوئی راہ پر چل کر معروف و نامور ادیبوں نے اردو افسانے میں اپنے شاہکار پیش کیے۔اردو افسانوی ادب میں ان ادیبوں کے بیش بہا فن پاروں کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ اگرچہ فن اور اسلوب کے لحاظ سے ان کے افسانے رومانی طرز فکر کی نمائندگی کرتے ہیں مگر اردو افسانے کی ترقی و فروغ میں ان کا بڑا حصہ ہے۔ ابتداً اردوافسانے کی دلچسپی انہی (یلدرم کے مقلد افسانہ نگاروں ) کی مرہون احسان ہے۔ رومانوی افسانہ نگاروں نے ایک تو افسانے کو مقبو ل عام بنانے میں بڑی خدمت انجام دیں اور دوسرے انہوں نے تخیل کی فسوں کاریو ں سے جذبات محبت کو اتنے رنگین انداز میں افسانے کا موضوع بنایا کہ نئی نسل دل و جان سے افسانے میں دلچسپی لینے لگی۔ اس طرح جہاں افسانہ مقبول ہوا وہاں نئے افسانہ نگار میدان میں اترے ۔دبستان یلدرم کے افسانہ نگاروں نے اردو میں مختصر افسانے کے امکانات کو وسعت اور وقعت دی۔ منظر نگاری ، مکالمہ نویسی اور وحدت تاثر افسانے کی فنی خصوصیات ہیں اور یلدرم نے اردو افسانہ کے ان عناصر پر بہت توجہ دی اور یلدرم کے دبستان سے متعلق لکھنے والے رومانوی افسانہ نگاروں نے ان ابتدائی نقوش کی روشنی میں بڑے خوبصورت اور جاذب نظر افسانے لکھے بقول ایک نقاد:
یلدرم کو بجا طور پر فخر حاصل ہے کہ انہوں نے افسانے کے ابتدائی خدوخا ل راست کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ ان کے افسانے سو سال گزر جانے کے بعد آج بھی پڑھے جائیں تو تاثیر کے اعتبار سے و ہ قاری کی توجہ جذب کرنے میں قاصر نہیں رہتے۔

افسانوں کا بنیادی موضوع:۔

یلدرم علی گڑھ یونیورسٹی کے فار غ التحصیل اور تہذیب یافتہ تھے ۔ ان کی ادبی زندگی علی گڑھ سے پیدا ہوئی۔ انہیں سرسید اور علی گڑھ سے بے حد عقیدتاور غایت درجہ انس تھا۔ مگر اس سب کے باوجود یلدرم نے اپنی افسانوی تحریروں میں اس تحریک کی خشک حقیقت پسند ی اور بے نمکی کے خلاف ردعمل کا اظہار کیا۔ اس مقصد کے لیے یلدرم کے سامنے سب سے اہم مسئلہ یہ تھا کہ وہ اپنے افسانے کے لیے کوئی ایسا موضوع تلاش کریں جو دلچسپ بھی ہو اور زندگی کے ساتھ اس کا گہرا واسطہ بھی ہو۔ محض خیالی اور خوب کی دنیا نہ ہو بلکہ اس میں اپنے عہد کی جھلک نظرآئے ۔ اس مقصد کے پیش نظر اور اپنے مزاج کی مناسبت کو دیکھتے ہوئے ، یلدرم نے بطور خاص محبت اور عورت کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا۔

عورت:۔

یلدرم نے اپنے افسانوں میں عورت کے مسائل کو موضوع بنایا ۔ اور اس کا یہ پہلو کہ عورت ، مرد کی بہترین رفیق ہے اس لیے یلدرم کے نزدیک اس کے ساتھ وہی سلوک ہونا چاہیے ¿ جو بہترین رفیق کے لیے موزوں اور مناسب ہے۔ یلدرم اس بات کے بھی قائل تھے کہ عورت کے بغیر مرد کی زندگی ادھوری اور نامکمل ہے۔عورت یلدر م کے ہاں عیاشی اور گناہ کا مظہر نہیں ،لطافت اور زندگی کے صحت مند تصور کی علامت ہے۔یلدرم کے ا س نقطہ نگاہ سے تین باتیں پیدا ہوتی ہیں:

١۔ عورت اور مرد کاباہمی تعلق فطرت کا تقاضہ ہے۔
٢۔ مرد اورعورت کے باہمی تعلق میں سچی محبت کا ہونا ضروری ہے۔
٣۔ اور یہ کہ عورت اورمرد کی سچی محبت میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کی کوشش کی جائے۔

جب ہم یلدرم کے افسانوں کا گہری نظر سے مطالعہ کرتے ہیں یہ تینوں چیزیں واضح طور پر ابھر کر سامنے آتی ہیں۔ سجاد حیدر یلدرم کے پہلے افسانے ”خارستان و گلستان “میں فطرت کے جذبوں اور مرد اورعورت کے درمیان تعلق کی بہترین عکاسی ملتی ہے۔
عورت! عورت! ایک بیل ہے جو خشک درخت کے گرد لپیٹ کر اسے تازگی ، اسے زینت بخش دیتی ہے۔ وہ ایک دھونی ہے کہ محبت کی لپیٹ سے مرد کو گھیر لیتی ہے۔ بغیر عورت کے مرد سخت دل ہو جاتا ۔اکھل کھرا بن جاتا۔
اسی طرح محبت کے راستے میں حائل رکاوٹوں اور مشکلات کو دور کرنے کی کوشش ”صحبت ناجنس “ میں نظر آتی ہے۔

حجاب اور وضع داری:۔

جیسا کی معلوم ہے یلدرم انشاءپردازی میں رومانوی نقطہ نظر رکھتے ہیں مگر روایتی رومان نگاروں کی طرح سستی جذباتیت کا شکار نہیں ہوتے بلکہ وہ معاشرتی دبائو اور پابندیوں کو عموماً پیش نظر رکھ کر لکھتے ہیں اور عشق اور رومان سے مملو کہانی لکھتے وقت وہ زندگی کے ”واقعی “ پس منظر کو نظر انداز نہیں کرتے ۔یلدرم نے عورت اور مردکو اس کا فطر ی حق دلانے کے لیے ایسے فنی حربوں سے کام لیا ہے کہ نہ ان کے مقصد ہی پر حرف آئے اور نہ خود ان پر معاشرتی اقدار اور اخلاقی پابندیوں اور قواعد کو توڑنے کا الزام آئے ۔ یہی فنی وسیلہ اور تجربے کا امتیاز اردو افسانے کو ان کی دین اور عطا ہےں۔ ہمارا معاشرہ مشرقی ہے اور ہم یہ جانتے ہیں ہوئے بھی کہ مرداور عورت کے جنسی تعلقات کی کیا نوعیت ہے ان کے بیان اور اظہار میں ایک حجاب اور وضع داری پر قائم ہیں۔ یلدرم نے ان کا احترام کرتے ہوئے بھی ”ان کہی “ کہنے کے لیے جو ایک سے زیادہ راستے نکالے ہیں،اپنے افسانوں میں ترکی پس منظر کا استعمال اور تخیل سے ماضی کا سفر اور داستانوی اسلوب انہیں عریانیت سے دور لے جانے میں مدد دیتا ہے۔

مقصدیت:۔

معاشرتی اصلاح اور فلاح و بہبود میں عورت کے کردار کا یلدرم پورا شعور رکھتے تھے۔ ڈپٹی نذیراحمد کے ہاں بھی یہی جذبہ کام کرتا ہے کہ عورت کی تعلیم اور اس کی اصلاح کے بغیر قومی فلاح و بہبود کا تصور ناممکن ہے۔ مگر یلدرم کا طریق کار اپنی پیش رو ادیبوں سے مختلف ہے۔وہ لمبی لمبی تقرریں نہیں کرتے ، وہ واعظ اور خطیب بھی نہیں بنتے بلکہ و اصلاحی مقصد حاصل کرنے کے لیے ادبی طریق کار اختیار کرتے ہیں۔ عورتوں کی ترقی اور ان کی تعلیم کے سلسلے یلدرم کا حقیقت پسندانہ نقطہ نظر ان کے افسانے ”ازدواج محبت “ میں موثر طور پرموجود ہے۔ افسانے کا ہیرو نعیم تعلیم نسواں کا حامی ہے اور ان کی ترقی کا خواہاں۔ وہ اس مقصد کے لیے ہیرو ، واعظ ، ناصح یا مقرر بننےکی بجائے اس کار ِ خیر کے لیے اپنی جائیداد وقف کرتا ہے۔ نعیم کے مکالمے ملاحظہ ہوں:
عزم یہ ہے کہ کل جائیداد( مالیتی ایک لاکھ ) عورتوں کی تعلیم کے واسطے وقف کر دوں۔
جب محمڈن یونیورسٹی بنے تو ایک کالج خاص طور پر مسلمان عورتوں کے لیے تیار کیا جائے۔

ترکی زبان کا اثر:۔

ہمارے مشرقی معاشرہ میں آج بھی محبت کرنا جرم سمجھا جاتا ہے جبکہ یلدرم نے آ ج سے تقریباً سو سال پہلے ان معاشرتی اور مذہبی پابندیوں کے خلاف آواز اٹھائی اور اتنی دلیری اور دھڑلے سے لکھا کہ آ ج کے آزاد خیال معاشرے میں اتنا کھل کر لکھنا شاید اتنا آسان نہ ہو۔اس سلسلے میں ان کی ترکی زبان اور ادب کے ساتھ شناسائی بڑی کارآمد ثابت ہوئی۔ ترجمے کی اوٹ میں یلدرم وہ کچھ کہہ گئے جس کا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا۔ ان کی ترکی دانی کا اثر تھا کہ انہیں ترکی میں سفیر لگا دیا گیا۔ وہاں انہوں نے ترکی ادبیات کا گہرا مطالعہ کیا۔ برصغیر کے ادیب اگرچہ انگریزی پڑھ لکھ رہے تھے مگر وہ مغربی اسالیب اور اظہار کو اپنے ادب کا جزو نہیں بنا سکے ۔ ترکی ادب نے یہ منزل طے کر لی تھی۔ یلدرم مغربی ادب کی باریکیوں سے آگاہ تھے اور ترکی دان ہونے کی وجہ سے ترکی پر مغربی ادب کے اثرات کے زیر اثر جو اثرات مرتب ہو رہے تھے اس سے بھی آگا ہ تھے ۔ اسی لیے انھوں نے ترکی ادب کو اردو میں منتقل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔

انشائے لطیف:۔

انشائے لطیف یا ادب لطیف ، رومانی انداز فکر کی سحر کاری کا دوسرا نام ہے ۔ افکار کی بلندی ، تخیل کی رنگینی اور جذباتی تاثر کی آمیزش سے جو ادب پارہ وجود میں آتا ہے وہ ادب لطیف ہے ۔ اسے سادہ الفاظ میں نثر میں نثری شاعری کا نام بھی دے سکتے ہیں۔انشائے لطیف کے اولین ادیب سجاد حیدر یلدرم ہی ہیں۔ کیونکہ یلدرم نے اس روایت کو باقاعدہ ایک دبستان کی حیثیت عطا کی ۔ان کے افسانوں میں اسی نثر ی شاعری کے نمونے جابجا نظر آتے ہیں۔
خارا کو ایسی خوشی حاصل ہو رہی تھی جو اس نے تمام عمر میں اب تک محسوس نہیں کی تھی او راس نشے سے اُس کی آنکھوں کی پتلیاں پھیل رہی تھیں۔ آغوش کھلی ہوئی تھی ، سینہ سانس کی وجہ سے ابھر رہا تھا اور دل ایک ننھی سی چڑیا کی طرح پھڑپھڑا رہا تھا۔

جذبے کی متانت:۔

سجاد حیدر یلدرم کی نثر میں ایک بات بہت ہی واضح ہے کہ وہ جذبات کی رو ،اور،روانی میں بھی اپنے ادبی وزن اور وقار کو بہنے نہیں دیتے ۔ یلدرم کے جذبات کچھ زیادہ تیز اور تند نہ تھے۔ یہ ایک قدرتی امر ہے کہ جس کے ہاں خیالات کی رعنائی ہو اس کے ہاں جذبات کا ہیجان اور شدت ویسے بھی کم ہو تی ہے۔ پھر بھی جہاں کہیں ایسی صورت حال پیدا ہوئی ، سجاد کی معمولی کوشش نے ان کو معتدل کر دیا۔ اس طرح مطلب بھی ادا ہو گیا اور شرم و حیا اور شرافت کا دامن نہ چھوٹا۔ یلدرم نے اپنی تحریروں کو خیال کی رنگینی و نزاکت کے ساتھ جذبے کی متانت و عفت کو جس طرح متوازن رکھا ہے کسی اور سے نہ ہو سکا۔

اسلوب:۔

یلدرم کومشرقی تہذیب اور تمدن سے گہرا لگائو ہے اور اس کا اظہار بھی ان کی تحریروں میں قدم قدم پر ملتا ہے۔ زبان دلکش اور لطیف ہے۔ اس کے باوجود ان کا وضع کردہ تراکیب غیر مانوس اور ناہموار ہیں۔مگر ان کا ذمہ دار یلدرم کو نہیں ٹھہرا سکتے کیونکہ انہیں جو اسلوب تحریر اختیار کیا وہ رومانی تھا اور رومانی انداز تحریر کی روایت ہمارے ادب میں موجود نہ تھی۔ لیکن اس کے باوجود یلدرم نے اردو نثر کو ایک نیا کیف دیا۔ نیا ترنم ، نیا آہنگ اور وزن بخشا جس نے خوابیدہ جملوں کو جگایا اور ایک مجہولی کیفیت جو مقصدیت کے زیر اثر چھائی ہوئی تھی ، دور ہو گئی ۔الفاظ کی دریافت ، مرکبات کی تعمیر میں یلدرم نے عربی، فارسی سے بھی استفادہ کیا۔ مرکبات بنانے کا شعور انہوں نے ترکی زبان سے حاصل کیا جو اردو کی طرح ایک امتزاج زبان ہے۔
یلدرم کے ہاں ہلکا مزاح اور دھیما اور خوشگوار طنز ہے۔ اس کے علاوہ تنقید بھی ہے اور اصلاح بھی ۔ تنقید خوشگوار لہجے میں ہوتی ہے اور اصلاح بار نہیں ہوتی ۔”مجھے میرے دوستوں سے بچائو“ اور ”صحبت ناجنس“ جیسے افسانوں میں ان کے اسلوب بیان کی داد دینی پڑتی ہے ۔

اسلوب کی انفرادیت:۔

سجاد کی ادبیات میں ان کا مخصوص انداز نگارش بہت نمایاں ہے ۔ ترجموں میں بھی اور ان کے طبع زاد افسانوں میں بھی ۔ غالب کی طرح انہوں نے بھی الفاظ کی نئی نئی تراکیبیں ایجاد کیں اور ایک نیااسلوب بیان ایجاد کیا اور دو دو چار چار لفظوں کے طبعزادمرکبات میں قوت بیان کی تما م شدت کو مرکوز کر دینے کا ایک نیا انداز اختیار کیا۔ ان کے اس ایجاد پسندی کو ترکی ادب سے خاصی مدد ملی ۔مگر اردو زبان میں بیان پر عبور ہونے کی وجہ سے بظاہر مشکل مرکبات کو اس طرح گھپایا کہ وہ موسیقی سے ہم آہنگ ہو گئے ۔ گویا ان سے ترنم کا کام لیا گیا ۔ یہی ان کامخصوص انفرادیت تھی۔مثال کے طور پر
میں نے اپنی زندگی ، اپنی عصمت ،اپنی تمام دنیائے امید ، تمہارے قدموں پر نثار کر دی، تم نے انہیں کیا کیا ؟ ان میں سے ہر ایک ایک بڑی مکافات ، ایک بڑی بڑی قیمتوں کی ارزش رکھتی تھی۔ کہاں ہے ان کی مکافات؟

مجموعی جائزہ:۔

یلدرم کا شمار ارد و کے ابتدائی افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے اُن کے انداز تحریر اور رومانوی انداز نے اپنی آنے والے ادبیوں کی کئی نسلوں کو متاثر کیا ۔ اور دبستان یلدرم کا سلسلہ آج بھی کسی نہ کسی حوالے سے ہمارے افسانے کے اندر موجود ہے ۔اُن کے بارے میں ایک نقاد کا قو ل ہے کہ:
” یلدرم کا یہ کمال دنیائے افسانہ میں ہمیشہ یادگار رہے گا کہ وہ جو بات جس ڈھنگ سے کرتے ہیں وہ اتنی پر تاثیر ہوتی ہے کہ اس سے ماسوا ، خیال جاتا ہی نہیں ۔ ان کا رومان اپنے اندر انجذابی کیفیت رکھتا ہے کہ حقیقت فراموش ہو جاتی ہے اور یہی یلدرم کے فن کی معراج ہے۔“

تاثرات
تاریخ ادب اردو“ میں رام بابو سکسینہ لکھتے ہیں:
سید سجاد حیدر نثر افسانہ نما خوب لکھتے ہیں۔ عبارت بہت دلفریب اور ا س میں ایک خاص طرح کی نشتریت ہوتی ہے۔

بقول قاضی عبد الغفار:
سجاد اردو زبان میں ایک نئے اور ترقی پسند اور بہت ہی دلنواز اسلوبِ بیان کے موجد تھے اور اس لیے وہ خراجِ تحسین کے حقدار ہیں۔


افسانہ 

" مجھے میرے دوستوں سے بچاؤ"

ور کوئی طلب ابنائے زمانہ سے نہیں

مجھ پہ احساں جو نہ کرتے تو یہ احساں ہوتا
ایک دن میں دلی کے چاندنی چوک میں سے گزر رہا تھا کہ میری نظر ایک فقیر پر پڑی جو بڑے موثر طریقے سے اپنی حالت زار لوگوں سے بیان کرتا جا رہا تھا ۔ دو تین منٹ کے وقفے کے بعد یہ درد سے بھری اسپیچ انہیں الفاظ اور اسی پیرائے میں دہرا دی جاتی تھی۔ یہ طرز کچھ مجھے ایسا خاص معلوم ہوا کہ اس شخص کو دیکھنے اور اس کے الفاظ سننے کے لئے ٹھہر گیا۔ اس فقیر کا قد لمبا اور جسم خوب موٹا تازہ تھا اور چہرہ ایک حد تک خوبصورت تھا۔ مگر بدمعاشی اور بے حیائی نے صورت مسخ کر دی تھی ۔ یہ تو اس کی شکل تھی، رہی اس کی صدا، تو میں ایسا قسی القلب نہیں ہوں کہ صرف اس کا مختصر سا خلاصہ لکھ دوں ۔ وہ اس قابل ہے کہ لفظ بہ لفظ لکھی جائے ۔ چنانچہ وہ اسپیچ یا صدا جو کچھ کہیے، یہ تھی:
"اے بھائی مسلمانو! خدا کے لئے مجھ بدنصیب کا حال سنو۔ میں آفت کا مارا سات بچوں کا باپ ہوں۔ اب روٹیوں کا محتاج ہوں اور اپنی مصیبت ایک ایک سے کہتا ہوں ۔ میں بھیک نہیں مانگتا ہوں ، میں یہ چاہتا ہوں کہ اپنے وطن چلا جاؤں۔ مگر کوئی خدا کا پیارا مجھے گھر بھی نہیں پہنچاتا ۔ بھائی مسلمانو! میں غریب الوطن ہوں ۔ میرا کوئی دوست نہیں، اے خدا کے بندو! میری سنو، میں غریب الوطن ہوں۔"
فقیر تو یہ کہتا ہوا اور جن پر ان کے قصے کا اثر ہوا ان سے خیرات لیتا ہوا آگے بڑھ گیا۔ لیکن میرے دل میں چند خیالات پیدا ہوئے اور میں نے اپنی حالت کا مقابلہ اس سے کیا اور مجھے خود تعجب ہوا کہ اکثر امور میں میں نے اس کو اپنے سے اچھا پایا۔ یہ صحیح ہے کہ میں کام کرتا ہوں ہوں اور وہ مفت خور ی سے دن گزارتا ہے ۔ نیز یہ کہ میں نے تعلیم پائی ہے، وہ جاہل ہے ۔ میں اچھے لباس میں رہتا ہوں، وہ پھٹے کپڑے پہنتا ہے ۔بس یہاں تک میں اس سے بہتر ہوں آگے بڑھ کر اس کی حالت مجھ سے بدرجہا اچھی ہے۔ اس کی صحت پر مجھے رشک کرنا چاہئے ، میں رات دن اسی فکر میں گزار تا ہوں اور وہ ایسے اطمینان سے بسر کرتا ہے کہ باوجود بسورنے اور رونے کی صورت بنانے کے اس کے چہرے سے بشاشت نمایاں تھی۔ بڑی دیر تک میں غور کرتا رہا کہ اس کی یہ قابل رشک حالت کس وجہ سے ہے اور آخر کار میں بظاہر اس عجیب نتیجے پر پہنچا کہ جسے وہ مصیبت خیال کرتا ہے وہی اس کے حق میں نعمت ہے ۔ وہ حسرت سے کہتا ہے کہ میرا کوئی دوست نہیں، میں حسرت سے کہتا ہوں"میرے اتنے دوست ہیں ، اس کا کوئی دوست نہیں۔" اگر یہ سچ ہے تو اسے مبارکباد دینی چاہئے۔



میں اپنے دل میں یہ باتیں کرتا ہوا اپنے مکان پر آیا۔ کیسا خوش قسمت آدمی ہے ۔ کہتا ہے میرا کوئی دوست نہیں ۔ اے خوش نصیب شخص! یہیں تو تو مجھ سے بڑھ گیا ۔ لیکن کیا اس کا یہ قول صحیح بھی ہے؟ یعنی کیا اصل میں اس کا کوئی دوست نہیں جو میرے دوستوں کی طرح اسے دن بھر میں پانچ منٹ کی بھی فرصت نہ دے؟ میں اپنے مکان پر ایک مضمون لکھنے جا رہا ہوں۔ مگر خبر نہیں کہ مجھے ذرا سا بھی وقت ایسا ملے گا کہ میں تخلیے میں اپنے خیالات جمع کر سکوں اور انہیں اطمینان سے قلمبند کر سکوں یا جو اسپیچ مجھے کل دینی ہے اسے سوچ سکوں۔ کیا یہ فقیر دن دہاڑے اپنا روپیہ لے جا سکتا ہے ؟ اور اس کا کوئی دوست راستے میں نہ ملے گا اور یہ نہ کہے گا:
"بھائی جان دیکھو، پرانی دوستی کا واسطہ دیتا ہوں ۔ مجھے اس وقت ضرورت ہے۔ تھوڑا سا روپیہ قرض دو۔"
کیا اس کے احباب وقت بے وقت اسے دعوتوں اور جلسوں میں کھینچ کر نہیں لے جاتے؟َ کیا کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ اسے نیند کے جھونکے آ رہے ہیں۔ مگر یار دوستوں کا مجمع ہے، جو قصے پر قصہ اور لطیفے پر لطیفہ کہہ رہے ہیں اور اٹھنے کا نام نہیں لیتے ، کیا اسے دوستوں کے خطوں کا جواب دینا پڑتا ہے ؟ کیا اس کے پیارے دوست کی تصنیف کی ہوئی کوئی کتاب نہیں جو اسے خواہ مخواہ پڑھنی پڑے اور ریویو لکھنا پڑے ۔ کیا اسے احباب کی وجہ سے شور مچانا اور ہو حق کرنا نہیں پڑتا؟ کیا دوستوں کے ہاں ملاقات کو اسے جانا نہیں پڑتا اور اگر نہ جائے تو کوئی شکایت نہیں کرتا؟ ان سب باتوں سے وہ آزاد ہے تو کوئی تعجب نہیں کہ وہ ہٹا کٹا ہے اور میں نحیف و نزارہوں ۔ یا اللہ کیا اس بات پر بھی شکریہ ادا نہیں کرتا؟ خدا جانے وہ اور کون سی نعمت چاہتا ہے ۔ لوگ کہیں گے کہ اس شخص کے کیسے بیہودہ خیالات ہیں۔ بغیر دوستوں کے زندگی دوبھر ہوتی ہے اور یہ ان سے بھاگتا ہے ۔ مگر میں دوستوں کو برا نہیں کہتا۔ میں جانتا ہوں کہ وہ مجھے خوش کرنے کے لئے میرے پاس آتے ہیں۔ اور میرے خیر طلب ہیں۔ مگر عملی نتیجہ یہ ہے کہ احباب کا ارادہ ہوتا ہے مجھے فائدہ پہنچانے کا۔ اور ہوجاتا ہے مجھے نقصان۔ چاہے مجھ پر نفریں کی جائے ۔ مگر میں یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ آج تک میرے سامنے کوئی یہ نہیں ثابت کرسکا کہ احباب کا ایک جم غیر رکھنے اور شناسائی کے دائرے کو وسیع کرنے سے کیا فائدہ ہے ؟ میں تو یہاں تک کہتا ہوں کہ اگر دنیا میں کچھ کام کرنا ہے اور باتوں ہی باتوں میں عمر نہیں گزارنی ہے تو بعض نہایت عزیز دوستوں کو چھوڑنا پڑے گا ۔ چاہے اس سے میرے دل پر کتنا ہی صدمہ ہو۔"
مثلاً میرے ایک دوست احمد مرزا ہیں جنہیں میں بھڑ بھڑیا دوست کہتا ہوں۔یہ نہایت معقول آدمی ہیں اور میری ان کی دوستی نہایت پرانی اور بے تکلفی کی ہے ۔ مگر حضرت کی خلقت میں یہ داخل ہے کہ دو منٹ نچلا نہیں بیٹھا جاتا ۔ جب آئیں گے شور مچاتے ہوئے چیزوں کو الٹ پلٹ کرتے ہوئے۔ غرض کہ ان کا آنا بھونچال سے کم نہیں ہے۔ جب وہ آتے ہیں تو میں کہتا ہوں" کوئی آرہا ہے قیامت نہیں ہے۔" ان کے آنے کی مجھے دور سے خبر ہوجاتی ہے۔باوجودیکہ میرے لکھنے پڑھنے کاکمرہ چھت پر ہے۔ اگر میرا نوکر کہتا ہے کہ"میاں اس وقت کام میں مشغول ہیں" تووہ فوراً چیخنا شروع کردیتے ہیں کہ کم بخت کو اپنی صحت کا بھی تو کچھ خیال نہیں۔ نوکر کی طرف مخاطب ہوکر )خیراتی! کب سے کام کررہے ہیں؟ بڑی دیر سے! توبہ توبہ!! اچھا بس ایک منٹ ان کے پاس بیٹھوں گا ۔ مجھے خود جانا ہے ، چھت پر ہوں گے نا؟ میں پہلے ہی سمجھتاتھا۔"
یہ کہتے ہوئے اوپر آتے ہیں اور دروازے کو اس زور سے کھولتے ہیں کہ گویا کوئی گولہ آکے لگا۔(آج تک انہوں نے دروازہ کھٹکھٹایا نہیں) اور آندھی کی طرح داخل ہوتے ہیں۔
"ہا ہا ہا ! آخر تمہیں میں نے پکڑ لیا مگر دیکھو دیکھو میری وجہ سے اپنا لکھنا بند مت کرو ۔ میں ہرج کرنے نہیں آیا۔ خدا کی پناہ! کس قدر لکھ ڈالا ہے ، کہو طبیعت تو اچھی ہے ، میں تو صرف یہ پوچھنے آیا تھا ۔ واللہ مجھے کس قدر خوشی ہوتی ہے کہ میرے دوستوں میں ایک شخص ایسا ہے جو مضمون نگار کے لقب سے پکاراجاسکتا ہے ۔ لو اب جاتا ہوں میں بیٹھو ں گا نہیں۔ ایک منٹ نہیں ٹھہرنے کا۔ تمہاری خیریت دریافت کرنی تھی۔ خدا حافظ" یہ کہہ کر وہ نہایت محبت سے مصافحہ کرتے ہیں اور اپنے جوش میں میرے ہاتھ کو اس قدر دبادیتے ہیں کہ انگلیوں میں درد ہونے لگتا ہے اور میں قلم نہیں پکڑ سکتا ۔ یہ تو علیحدہ رہا، اپنے ساتھ میرے کل خیالات کو بھی لے جاتے ہیں۔ خیالات کو جمع کرنے کی کوشش کرتا ہوں ، مگر اب وہ کہاں!! اور دیکھاجائے تو میرے کمرے میں ایک منٹ سے زیادہ نہیں رہے۔ تاہم اگر وہ گھنٹوں رہتے تو اس سے زیادہ نقصان نہ کرتے ۔ کیا میں انہیں چھوڑ سکتا ہوں؟میں اس سے انکار نہیں کرتا کہ میری اور ان کی دوستی بہت پرانی ہے اور وہ مجھ سے بھائیوں کی طرح محبت کرتے ہیں۔ تاہم انہیں چھوڑ دوں گا تو اگرچہ کلیجے پر پتھر رکھنا پڑے۔
اور لیجئے ! دوسرے دوست محمد تحسین ہیں ، یہ بال بچوں والے صاحب ہیں اور رات دن انہی کی فکر میں رہتے ہیں ۔ جب کبھی ملنے آتے ہیں تو تیسرے پہر کے قریب آٹے ہیں۔ جب میں کام سے فارغ ہوچکتا ہوں لیکن اس قدر تھکا ہواہوتا ہوں کہ دل یہی چاہتا ہے کہ ایک آرام کرسی پر خاموش پڑا رہوں۔ مگر تحسین آئے ہیں اور ان سے ملنا ضروری ہے ۔ ان کے پاس باتیں کرنے کے لئے سوائے اپنی بیوی بچوں کی بیماری کے اور کوئی مضمون ہی نہیں۔ میں کتنی ہی کوشش کروں مگر وہ اس مضمون سے باہر نہیں نکلتے۔ اگر میں موسم کا ذکر کرتا ہوں تو وہ کہتے ہیں ہاں بڑا خراب موسم ہے۔ میرے چھوٹے لڑکے کو بخار آگیا۔ منجھلی لڑکی کھ انسی میں مبتلا ہے۔"اگر پالٹکس یا لٹریچر کے متعلق گفتگو کرتا ہوں تو تحسین صاحب فوراً معذرت پیش کرتے ہیں کہ"بھائی آج کل گھر بھر بیمار ہے۔ مجھے اتنی فرصت کہاں کہ اخبار پڑھوں۔" اگر کسی عام جلسے میں آتے ہیں تو اپنے لڑکوں کو ضرور ساتھ لیے ہوتے ہیں اور ہر ایک سے بار بار پوچھتے رہتے ہیں کہ"طبیعت تو نہیں گھبراتی؟ پیاس تو نہیں لگتی؟ کبھی نبض دیکھ لیتے ہیں اور وہاں بھی کسی سے ملتے ہیں تو گھر کی بیماری کا ہی ذکر کرتے ہیں۔
اسی طرح میرے مقدمہ باز دوست ہیں جنہیں سوائے اپنی ریاست کے جھگڑوں، اپنے فریق مخالف کی برائیوں اور جج صاحب کی تعریف یا مذمت کے(تعریف اس حالت میں جب کہ انہوں نے مقدمہ جیتا ہو) اور کوئی مضمون نہیں ۔ منجملہ اور بہت سے مختلف قسموں کے دوستوں کے میں شاکر صاحب کا ذکر خصوصیت سے کروں گا کیونکہ وہ مجھ پر خاص عنایت فرماتے ہیں۔ شاکر صاحب موضع سلیم پور کے رئیس اور ضلع بھر میں نہایت معزز آدمی ہیں۔ انہیں اپنی لیاقت کے مطابق لٹریچر کا بہت شوق ہے ۔ لٹریچر پڑھنے کا اتنا نہیں جتنا لٹریچر سی آدمیوں سے ملنے اور تعارف پیدا کرنے کا۔ ان کا خیال ہے کہ اہل علم کی تھوڑی سی قدر کرنا امراء کے شایان شان ہے ، ایک مرتبہ میرے ہاں تشریف لائے اور بہت اصرار سے مجھے سلیم پور لے گئے ۔ یہ کہہ کے" شہر میں رات دن شور وشغب رہتا ہے۔ دیہات میں کچھ عرصے رہنے سے تبدیل آب و ہوا بھی ہوگی اور وہاں مضمون نگاری بھی زیادہ اطمینان سے کرسکو گے ۔ میں نے ایک کمرہ خاص تمہارے واسطے آراستہ کرایا ہے جس میں پڑھنے لکھنے کا سب سامان مہیا ہے۔ تھوڑے دن رہ کر چلے آنا دیکھو، میری خوشی کرو۔"
میں ایسے محبت آمیز اصرار پر انکار کیسے کرسکتا تھا۔ مختصر سا سامان پڑھنے لکھنے کا لے کر ان کے ساتھ ہولیا۔ ایڈیٹر" معارف" سے وعدہ کرچکا تھا کہ ایک خاص عرصے میں ان کی خدمت میں ایک مضمون بھیجوں گا ۔ شاکر خاں صاحب کی کوٹھیھ پر پہنچ کر میں نے وہ کمرہ دیکھا جو میرے لئے تیار کیا گیا تھا ۔ یہ کمرہ کوٹھی کی دوسری منزل پر تھا۔ اور نہایت خوبی سے آراستہ تھا اس کی ایک کھڑکی پائیں باغ کی طرف کھلتی تھی ۔ اور ایک نہایت ہی دلفریب نیچرل منظر میری آنکھوں کے سامنے ہوتا تھا۔ صبح کو میں نیچے ناشتے کی غرض سے بلایا گیا۔ جب دوسرا پیالہ چائے کا پی چکا تو اپنے کمرے میں جانے کے لئے اٹھا ہی تھا کہ چاروں طرف سے اصرا ر ہونے لگا کہ"ہیں ہیں! کہیں ایسا غضب نہ کرنا کہ آج ہی کام شروع کردو ۔ اپنے دماغ کو کچھ تو آرام دو۔اورآج کا دن تو خاص کر اس قابل ہے کہ سینری کا لطف اٹھانے میں گزارا جائے۔ چلیے گاڑی تیار کراتے ہیں۔ دریا پر مچھلی کا شکار کھلیں گے ۔ پھر وہاں سے دومیل پر احمد نگرہے ۔ آپ کو وہاں کے رئیس راجہ طالب علی صاحب سے ملائیں گے ۔"
میرا ماتھا وہیں ٹھنکا کہ اگر یہی حال رہا تو یہاں بھی فرصت معلوم! خیر سینکڑوں حیلے حوالوں سے اس وقت تو میں بچ گیا اور میرے میزبان بھی میری وجہ سے نہ گئے۔ مگر مجھے بہت جلد معلوم ہوگیا ۔ جس عنقا یعنی یکسوئی کی تلاش میں سر گرداں تھا وہ مجھے یہاں بھی نہ ملے گی۔"
میں جلدی سے اٹھ کر کمرے میں آیا اور اس وقت ذرا غور سے اس میز کے سامان کو دیکھا جو میرے لکھنے پڑھنے کے لئے تیار کی گئی تھی۔ میز پر نہایت قیمتی کا مدار کپڑا پڑا ہوا تھا جس پر سیاہی کا ایک قطرہ گرانا گناہ کبیرہ سے کم نہ ہوگا۔ چاندی کی دوات مگر سیاہی دیکھتا ہوں تو سوکھی ہوئی۔ انگریزی قلم نہایت قیمتی اور نایاب۔ مگر اکثر میں نب ندارد، جاذب کاغذ ایک مخمل جلد کی کتاب میں۔ مگر لکھنے کے کاغذ کا پتہ نہیں ۔ اسی طرح بہت سا اعلیٰ درجے کا بیش قیمت سامان میز پر تھا ۔ مگر اکثر اس میں سے میرے کام کا نہیں اور جو چیزیں کہ ضروریات کی تھیں وہ موجود نہیں۔ آخر کار میں نے اپنا وہی پرانا استعمالی مگر مفید بکس اور اپنی معمولی دوات اور قلم(جس نے اب تک نہایت ایمانداری سے میری مدد کی تھی۔ میرے پراں خیالات کو تیزی کے ساتھ قفس کاغذ میں بند کیا تھا)نکالا اور لکھنا شروع کیا۔ یہ ضرور ہے کہ جن مرغاں خوش نوا کی تعریف میں شعراء اس قدر رطب اللسان ہیں، ان کی اس عنایت سے میں خوش نہیں ہوں کہ سب کے سب میرے کمرے کے نیچے درخت پر جمع ہوگئے اور شور مچانا شروع کردیا۔ تاہم میں نے کوشش کرکے ان کی طرف سے کان بند کرلئے اور کام میں ہمہ تن مشغول ہوگیا۔
تن، ٹن ٹن ٹنٹنا۔چھن ۔ تان، ٹن ٹن ٹن ۔ میں ایسا مصروف تھا کہ دنیا وما فیھا کی خبر نہ تھی ۔ یکایک اس تن تن نے چونکا دیا ۔ ہیں! یہ کیا ہے؟ افوہ! اب میں سمجھا میرے کمرے کے قریب شاکر خاں صاحب کے چھوٹے بھائی کا کمرہ ہے۔ انہیں موسیقی میں بہت دخل ہے۔ اس وقت ستار سے شوق فرمارہے ہیں۔ بہت خوب بجارہے ہیں۔
"اس کی گلی سے آئے کیوں؟"نکہت زلف لائے کیوں؟ مجھ کو صبا سے ہے امید۔ آہا مجھ کو صبا سے ہے امید)مجھ سے صبا کو کیا غرض؟"
واہ واہ!! سبحان اللہ! کیا غزل چھڑی ہے، اے ترک سوار نواح عرب یثرب نگری میں پہنچا دینا۔ کس رنگ میں ہے ۔ وہ حبیب مرا مجھے وا کی کھبر یا لادینا۔" بہت ہی خوب! کمال کرتے ہیں۔
کوئی آدھ گھنٹہ انہوںنے موسیقی کی مشق فرما کر مجھے میری خواہش کے خلاف محظوظ فرمایا۔ پھر کسی وجہ سے وہ اپنے کمرے سے چلے گئے اور خاموشی طاری ہوگئی ، تو مجھے پھر اپنے کام کا خیال آیا۔
"اے میرے خیالات! تمہیں میرا گنجینہ میرا خزانہ ہو ۔ خدا کے لئے رحم کرو۔ میرے دماغ میں پھر آؤ۔" یہ کہہ کے میں کاغذ کی طرف متوجہ ہوا کہ دیکھوں کہاں چھوڑا ہے ۔ میں اس فقرے تک پہنچا تھا" ہم اس وسیع اور دقیق مضمون پر جتنا غوروفکرکرتے ہیں ، اتنا ہی اس کی مشکلات کا مثل۔۔۔۔"
مثل کے آگے میں کیا لکھنے والا تھا۔"۔۔۔ ریگ دریا کے اندازہ نہیں کرسکتے؟"ہرگز نہیں، ایسا معمولی تو نہ تھا۔ مجھے یقین ہے کہ کچھ اور تھا۔ کوئی اعلی درجے کی تشبیہ تھی۔ اور فقرے کو نہایت شاندار الفاظ میں ختم کرنے والا تھا ۔ خدا ہی جانتا ہے کہ کیا تھا کیا نہ تھا۔ اب تو دماغ میں اس کا پتہ بھی نہیں۔ گانے والے صاحب تو شکایت کررہے تھے کہ:
" اس گلی سے آئے کیوں؟ نکہت زلف لائے کیوں؟ مجھ کو صبا سے ہے امید۔ مجھ سے صبا کو کیا غرض؟"
مگر میرا تو صبا کے نام نے دماغ ہی خالی کردیا ۔ اگر وہ آتی اور نکہت زلف بھی لاتی تو نہ معلوم کیا ہوتا۔ بہر حال مجھے وہ فقرہ از سر نو درست کرنا چاہئے ۔ مشکلات کے بجائے کچھ اور ہونا چاہئے ۔
ہم اس وسیع مضمون پر جتنا غوروفکر کرتے ہیں اتنا ہی ان بیش بہا علمی جواہر کو جو ہمارے ملک اور قوم کے علمی خزانے کے پر کرنے کے لئے کافی ہیں اور جن کی قدر آپ کہاں بھول پڑے۔ اتنے دنوں کہاں رہے۔" یہ کیا؟
جن کی قدر آپ کہاں بھول پڑے۔ اتنے دنوں کہاں رہے؟ یہ کیا مہمل فقرہ ہوا۔ لاحول والا قوۃ۔ میں بھی کیا گڑ بڑ کررہا ہوں ۔آپ کہاں بھول پڑے اتنے دنوں کہاں رہے ؟ یہ فقرے تو شاکر خاں صاحب نے کسی دوست سے کہے ہیں جو ابھی ان سے ملنے آیا ہے ۔ میں مصروفیت میں انہیں ہی لکھ گیا۔
ہاں تو کاٹ کے فقرہ درست کرنا چاہئے ۔ اور جن کی قدر ابھی تک ملک و قوم کو معلوم نہیں ہوتی ہے اور بظاہر۔۔۔"
کوئی دروازہ کھٹکھٹاتا ہے۔
کون ہے؟
"میں ہوںِ شبن۔ سرکار نے کہا ہے کہ اگر آپ کوتکلیف نہ ہو تو نیچے ذرا سی دیر کے لئے تشریف لائیے، کوئی صاحب آئے ہوئے ہیں اور سرکار انہیں آپ سے ملانا چاہتے ہیں۔"
بادل نخواستہ میں اٹھا اور نیچے گیا۔ شاکر خاں صاحب کے دوست راجہ طالب علی صاحب تشریف لائے تھے۔ ان سے میرا تعارف کرایا گیا ۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ تشریف لے گئے اور مجھے بھی فرصت ملی اور میں نے یکسو ہوکر لکھنا شروع کیا۔ تھوڑی دیر ہوئی تھی کہ شبن صاحب نے پھر دروازہ کھٹکھٹایا ۔ معلوم ہوا کہ میری پھر یاد آئی۔ ہمارے میزبان کے کوئی اور دوست آئے ہوئے ہیں اور میں انہیں دکھایاجاؤں گاگویا میں بھی مثل اس عربی گھوڑے کے تھا جسے میزبان نے حال ہی میں خریدا تھا اور جو ہر دوست کو اصطبل سے منگا کر دکھایاجاتا تھا۔ ان دوست سے نجات پاکر اور بھاگ کر میں پھر اپنے کمرے میں آیا۔ خیالات غائب ہوگئے تھے۔ فقرہ از سر نو پھر بنانا پڑا ۔ طبیعت اچاٹ ہوگئی۔ بہزار دقت پھر بیٹھا اور لکھنا شروع کیا۔ اب کی مرتبہ خوش قسمتی سے کوئی آدھ گھنٹہ ایسا ملا جس میں کوئی آیا گیا نہیں۔ اب میرا قلم تیزی سے چل رہا تھااور میں لکھ رہا تھا۔
" ہم کو کامل یقین ہے کہ ہمارے ملک کے قابل نوجوان جنہیں تفتیش اور تحقیقات کا شوق ہے اور جوکولمبس کی طرح۔ نئی معلومات اور نئی دنیا(گو وہ علمی دنیا ہی کیوں نہ ہو) کے دریافت کرنے کے لئے اپنے تئیں۔۔۔"
دروازے پر پھر دستک"کیا ہے؟ اچھا۔"
دریافت کرنے کے لئے اپنے تئیں خطرے میں ڈالنے سے بھی خوف نہیں کھاتے ، ضرور اس طرف متوجہ ہوں گے اور اپنی کاوشوں اور کوششوں سے موجود۔۔۔"
دروازہ پھر کھٹکھٹایاگیا۔
"ہاں"
"حضور! سرکار آپ کا انتظار کر رہے ہیں، کھانا ٹھنڈا ہواجاتا ہے ۔"
"افوہ! مجھے خیال نہیں رہا۔ سرکار سے عرض کرنا میرا انتظار نہ کریں، میں پھر کھالوں گا ۔ اس وقت مجھے کچھ ایسی بھوک نہیں۔"
"اور آئندہ نسلوں کو زیر بار احسان کریں گے ۔ یہی وہ نوجوان ہیں جو قوم کی کشتی کو خدا کی مدد پر بھروسا کر کے خطرات سے بچاتے اور ساحل مراد تک پہنچاتے ہیں۔ زندگی اور موت کا لاینحل مسئلہ۔
دستک۔۔ کیا ہے؟
سرکا رکہتے ہیں۔ اگر آپ تھوڑی دیر میں کھائیں گے تو ہم بھی اسی وقت کھائیں گے ۔ مگر کھانا ٹھنڈا ہوکے بالکل خراب ہوجائے گا۔"
اچھا بھئی، لو ابھی آیا۔"
یہ کہہ کر میں کھانے کے لئے جاتا ہوں۔ سب سے معذرت کرتا ہوں۔ میزبان نہایت اخلاق سے فرماتے ہیں۔" چہرے پر تھکن محسوس ہوتی ہے ، کیا بہت لکھ ڈالا؟ دیکھو میں تم سے کہتا تھا نا کہ شہر میں ایسی فرصت اور خاموشی کہاں؟"
سوائے اس کے کہ آمنا و صدقنا کہوں اور کیا کہہ سکتا تھا ۔ اب کھانے پر اصرار ہوتا ہے جس چیز سے مجھے رغبت نہیں وہی کھلائی جاتی ہے ۔ بعد کھانے کے میزبان صاحب فرماتے ہیں" سہ پہر کو تمہیں گاڑی میں چلنا ہوگا ۔ میں تمہیں اس واسطے یہاں نہیں لایا کہ سخت دماغی کام کرکے اپنی صحت خراب کرلو۔"
واپس کمرے میں آکر تھوڑی دیر اس غرض سے لیٹتا ہوں کہ خیالات جمع کرلوں اور پھر لکھنا شروع کردوں ۔ مگر اب خیالات کہاں؟ مضمون اٹھا کر دیکھتا ہوں۔
" زندگی اور موت کا لا ینحل مسئلہ۔"
اس کے متعلق کیا لکھنے والا تھا؟ ان الفاظ کے بعد کون سے الفاظ دماغ میں تھے ؟ اب کچھ خیال نہیں کہ اس کو پہلے فقروں سے کیونکر ربط پیدا کرنا تھا۔ یوں ہی پڑے پڑے نیند آجاتی ہے۔ تیسرے پہر اٹھتا ہوں تو دماغ نہایت صحیح پاتا ہوں۔ "زندگی اور موت کا لاینحل مسئلہ" بالکل حل ہوجاتا ہے ۔ پورا فقرہ آئینے کی طرح نظر آتا ہے ۔ میں خوشی خوشی اٹھ کر میز پر گیا اور لکھنا چاہتاتھا کہ پھر وہی دستک۔
نوکر اطلاع دیتا ہے کہ گاڑی تیار ہے ۔ سرکار کپڑے پہنے آپ کا انتظار کررہے ہیں۔ میں فوراً نیچے جاتا ہوں تو پہلا فقرہ جو میزبان صاحب فرماتے ہیں یہ ہوتا ہے" آج تو دستے کے دستے لکھ ڈالے۔" میں سچی بات کہوں گاکہ کچھ بھی نہیں لکھا۔" تو وہ ہنس کے جواب دیتے ہیں کہ آخر اس قدرکسر نفسی کی کیا ضرورت ہے؟
خدا کے واسطے جھوٹی نہ کھائیے قسمیں
مجھے یقین ہوا مجھ کو اعتبار آیا
مل ملا کر شام کو واپس آئے۔ کھانے کے بعد باتیں ہوتی رہیں۔ سونے کے وقت اپنا دن بھر کا کام اٹھا کر دیکھتا ہوں تو ایک صفحے سے زیادہ نہیں۔ وہ بھی بے ربط و بے سلسلہ۔ غصے اور رنج میں آکر اسے پھاڑ کر پھینک دیتا ہوں۔ اور دوسرے روز اپنے میزبان کو ناراض کرکے واپس چلا آتا ہوں ۔ ناشکر اور احسان فراموش کہا جاؤں گا۔ مگر میں مجبور ہوں ۔ اس عزیز اور مہربان دوست کوبھی چھوڑدوں گا۔
میں نے ذرا تفصیل سے ان کا حال بیان کیا ہے ۔ مگر یہ خیال نہ کرنا کہ میں ان احباب کی فہرست ختم ہوگئی جن سے میں رخصت طلب کرسکتا ہوں ۔ نہیں ابھی بہت سے باقی ہیں۔ مثلاً ایک صاحب ہیں جو مجھ سے کبھی نہیں ملتے۔ مگر جب آتے ہیں میں ان کا مطلب سمجھ جاتا ہوں ۔ یہ حضرت ہمیشہ قرض مانگنے کے لئے آتے ہیں۔ ایک صاحب جو ہمیشہ ایسے وقت آتے ہیں جب میں باہر جانے والا ہوتا ہوں۔ ایک صاحب ہیں جو مجھ سے ملتے ہی کہتے ہیں"میاں عرصے سے میرا دل چاہتا ہے تمہارے دعوت کروں۔" مگر کبھی اپنی خواہش کو پورا نہیں کرتے۔ ایک دوست آتے ہیں۔ وہ آتے ہی سوالات کی بوچھار شروع کردیتے ہیں۔ جب میں جواب دیتا ہوں تو متوجہ ہوکر نہیں سنتے، یا اخبار اٹھا کر پڑھنے لگتے ہیں یا گانے لگتے ہیں۔ ایک صاحب ہیں وہ جب آتے ہیں اپنی ہی کہے جاتے ہیں میری نہیں سنتے۔
یہ سب میرے عنایت فرما اور خیر طلب ہیں ، مگر اپنی طبیعت کو کیا کروں ۔صاف صاف کہتا ہوں کہ ان میں سے ہر ایک سے کہہ سکتا ہوں
"مجھ پہ احسان جو نہ کرتے تو یہ احساں ہوتا
اب چونکہ میں نے یہ حال لکھنا شروع کردیا ہے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ چند اور احباب کے متعلق اپنے دلی خیالات ظاہر کردوں۔ دروازے پر ایک گاڑی آکے رکی ہے ۔ میں سمجھ گیا کہ کون صاحب تشریف لارہے ہیں ۔ میں ان کی شکایت نہیں کرنے لگا کیونکہ کیا یہ تعجب کی بات نہیں ہے کہ تین گھنٹے سے میں یہ مضمون لکھ رہا تھا کہ کسی کرم فرما نے کرم نہیں فرمایا۔ اس لئے اس کے شکریے میں میں اس مضمون کو اسی ناتمام حالت میں چھوڑتا ہوں اور اپنے دوست کا خیر مقدم کرتا ہوں۔ یہ دوست میری صحت کا بہت خیال رکھتے ہیں۔ جب آتے ہیں مجھ پر اس وجہ سے ناراض ہوتے ہیں کہ تم اپنی صحت کا خیال نہیں رکھتے۔" میں جانتا ہوں کہ اس وقت بھی یہی کسی نئے حکیم یا ڈاکٹر کا حال سنائیں گے جو حاذق ہے یا کوئی مجرب نسخہ میرے لئے کسی سے مانگ کر لائے ہوں گے۔
"آئیے ۔ آئیے۔ مزاج عالی بہت دن بعد تشریف لائے۔"


ماخوذ:
مجلہ "نقوش" (طنز و مزاح نمبر)
شمارہ 71-72 (جنوری-فروری 1959)
ناشر: ادارہ فروغ اردو ، لاہور (پاکستان)



March 17, 2020

ڈپٹی نذیر احمد : حالات زندگی و سوانح اور شامل نصاب مضمون ( تالیف: شمس الحق قمر AKESP, GB)


ڈپٹی نذیر احمد : حالات زندگی و سوانح

عزیز طلبہ ڈپٹی نذیر احمد کی زندگی اور ادبی خدمات کے حوالے سے ایک مختصر تحریر پیش خدمت ہے ۔ آپ پڑھئے اور امتحان کےلیے  تیاری کیجئے۔ اس حوالے سے اگر کوئی مشکل پیش آجائے تو کمنٹ میں ضرور لکھئے گا  

پیدائشی نام          نذیر احمد
ولادت    6 دسمبر، 1836ء ریہر
وفات      3 مئی، 1912ء دہلی
اصناف ادب         ناول
معروف تصانیف  مراۃ العروس، توبتہ النصوح، بنات النعش
شمس العلماء خان بہادر حافظ ڈپٹی مولوی نذیر احمد (ریاست حیدرآباد سے انہیں غیور جنگ کا خطاب دیا گیا تھا جسے انہوں نے قبول نہیں کیا) (پیدائش: 1836ء یا 6 دسمبر 1831ء،
[1] وفات: 3 مئی 1912ء)
[2] ضلع بجنور کی تحصیل نگینہ کے ایک گاؤں ریہر میں پیدا ہوئے۔ ایک مشہور بزرگ شاہ عبدالغفور اعظم پوری کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے، لیکن آپ کے والد مولوی سعادت علی غریب آدمی تھے اور یو پی کے ضلع بجنور کے رہنے والے تھے۔


تعلیم
شروع کی تعلیم والد صاحب سے حاصل کی۔ چودہ برس کے ہوئے تو دلی آ گئے اور یہاں اورنگ آبادی مسجد کے مدرسے میں داخل ہو گئے۔ مولوی عبدالخالق ان کے استاد تھے۔

یہ وہ زمانہ تھا کہ مسلمانوں کی حالت اچھی نہ تھی۔ دہلی کے آس پاس برائے نام مغل بادشاہت قائم تھی۔ دینی مدرسوں کے طالب علم محلوں کے گھروں سے روٹیاں لا کر پیٹ بھرتے تھے اور تعلیم حاصل کرتے تھے۔ نذ یر احمد کو بھی یہی کچھ کرنا پڑتا تھا، بلکہ ان کے لیے تو ایک پریشانی یہ تھی کہ وہ جس گھر سے روٹی لاتے تھے اس میں ایک ایسی لڑکی رہتی تھی جو پہلے ان سے ہانڈی کے لیے مصالحہ یعنی مرچیں، دھنیا اور پیاز وغیرہ پسواتی تھی اور پھر روٹی دیتی تھی اور اگر کام کرتے ہوئے سُستی کرتے تھے تو ان کی انگلیوں پر سل کا بٹہ مارتی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس لڑکی سے ان کی شادی ہوئی۔ کچھ عرصہ بعد دلی کالج میں داخل ہوئے جہاں انہوں نے عربی، فلسفہ اور ریاضی کی تعلیم حاصل کی ۔


ملازمت
مولوی نذیر احمد نے اپنی زندگی کا آغاز ایک مدرس کی حیثیت سے کیا لیکن خداداد ذہانت اور انتھک کوششوں سے جلد ہی ترقی کرکے ڈپٹی انسپکٹر مدارس مقرر ہوئے۔ مولوی صاحب نے انگریزی میں بھی خاصی استعداد پیدا کر لی اور انڈین پینل کوڈ کا ترجمہ (تعزیرات ہند) کے نام سے کیا جو سرکاری حلقوں میں بہت مقبول ہوا اور آج تک استعمال ہوتا ہے۔ اس کے صلے میں آپ کو تحصیلدار مقرر کیا گیا۔ پھر ڈپٹی کلکٹر ہو گئے۔ نظام دکن نے ان کی شہرت سن کر ان کی خدمات ریاست میں منتقل کرا لیں جہاں انہیں آٹھ سو روپے ماہوار پر افسر بندوبست مقرر کیا گیا۔

ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد مولوی صاحب نے اپنی زندگی تصنیف و تالف میں گزاری۔ اس علمی و ادبی میدان میں بھی حکومت نے انہیں 1897ء شمس العلماء کا خطاب دیا اور 1902ء میں ایڈنبرا یونیورسٹی نے ایل ایل ڈی کی اعزازی ڈگری دی۔ 1910ء میں پنجاب یونیورسٹی نے ڈی۔ او۔ ایل کی ڈگری عطا کی۔ آپ کا انتقال 3 مئی 1912ء میں ہوا۔ آپ اردو کے پہلے ناول نگار تسلیم کیے جائے ہیں۔

تصانیف
ڈپٹی نذیر احمد
ڈپٹی نذیر احمد
ناولدیکھیں
غیر افسانویدیکھیں
متعلقہدیکھیں
دگت
مراۃ العروس (1869ء)
توبتہ النصوح
بنات النعش
ابن الوقت
رویائے صادقہ
فسانہ مبتلا
محصنات
ایامی
امہات الامہ
مواعظ حسنہ
الحقوق و الفرائض
تراجم
آپ کی ترجمہ کی ہوئی کتابوں کے نام مندرجہ ذیل ہیں:

ترجمہ قرآن مجید
تعزیرات ہند (انڈین پینل کوڈ)
قانونِ انکم ٹیکس 1861ء
قانونِ شہادت 1863ء
سموات 1876ء
وفات
آخری عمر میں ڈپٹی نذیر احمد پر فالج کا حملہ ہوا اور 3 مئی 1912ء میں دلی میں وفات پا گئے۔

ڈپٹی نذیراحمد دہلوی : فن اورشخصیت ۔ ۔ محمد رضی الدین معظم
ڈپٹی نذیراحمد دہلوی : فن اورشخصیت
عہد وسطیٰ شعر کی نغمہ طرازیوں سے ایسا گونج اٹھا کہ ہم اب تک بھی میرؔ ، سوداؔ ، مومنؔ و غالبؔ پر سردھنتے ہیں لیکن دورِجدید کا تقاضہ یہ تھا کہ اردو، ادیب ، شاعری کی مسحورکن ترنم فضاؤں سے نثرکی صاف اورسلیس سرزمین پر اتریں۔ چنانچہ مولانا حالیؔ شبلی اورآزادؔ نے گو اپنی شاعرانہ تگ و دو کے شاہکار چھوڑے ہیں لیکن وہیں ان کے نثری کارنامے بھی کچھ کم شاندارنہیں ۔ اب اسے زمانے کی رفتار کہئیے یا روح العصراورپھرکچھ اور بہر کیف عہد وسطیٰ سے ادیبوں نے بجائے شاعری کے زیادہ نثر کی جانب مائل ہونے لگے۔ یوں سمجھئے کہ جدید نثر کی مثال تاریخ اورادب میں اس مصاحب کی سی ہے جو سب سے آخر دربارشاہی میں شرکت کرکے سب سے زیادہ دربار پر چھاگیا ہو۔ مولانا حالی ، علامہ اقبال اوراکبرؔ الٰہ آبادی کی اپنی طرز ادا ہے اردو شاعری میں نئی راہیں نکالی پھر بھی موضوعات کی جتنی وسعت نثر میں فروغ پائی وہ نظم نہ بن سکی۔ اورایسا ممکن بھی نہیں

ہے ۔ کیونکہ شاعری لطیف ترین جذبات کا اظہار ہوتی ہے جس میں سیاسیات ، عمرانیات تاریخ و تذکرے ، معاشیات و نفسیات اور سائینس و صحت جیسے موضوعات باربار نہیں پاسکتے۔ جدید نثر کی سب سے عظیم خوبی جذبات و خیالات کا آزادانہ اظہاررہتاہے۔ جس کے باعث تصنع اوربناوٹ کی گلکاریوں کے بجائے صفائی وسادگی ، تناسب صحت وحقائق زندگی کی سچی عکاسی ملتی ہے۔ لیکن دوہی ادیب ایسے ملتے ہیں جو باوصف ان خصوصیت کہ اپنے طرزتحریر میں یکتا و منفرد ہیں۔ وہ ہیں مولانا محمد حسین آزاد اورمولوی نذیر احمد دہلوی۔
اردو نثر نگاری میں مولوی نذیر احمد کی اہمیت دو طریقوں سے ہوتی ہے۔ ایک تو یہ کہانھوں نے سب سے پہلے اردو زبان و ادب کو ناول سے روشناس کروایااور دوسرا دہلی کی اس بامحاورہ زبان کو اپنی تخلیقات میں اس طرح محفوظ کیا کہ اس کا ریکارڈ ہمیں انکی تخلیقات کے علاوہ کہیں اور نہیں ملتا۔ طرزِ تحریر کا اندازہ کرنے کے لئے نذیر احمد کی نثری زندگی کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ (۱) تراجم (۲) مذہبی تصانیف (۳) ناول نگاری۔
مولوی نذیر احمد کی مترجمی زندگی بھی دو حصوں میں تقسیم کی جاسکتی ہے ایک تو قرآن معظم کا مشہور و مقبول عام ترجمہ اور دوسرا متفرق تراجم جو انگریزی سے اردو زبان میں کئے گئے ۔ انگریزی تصانیف کے تراجم انکم ٹیکس، تعزیرات ہند، ضابطہ فوجداری کا تعلق آپ کے ابتدائی دور ہے ۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اردو زبان میں تراجم کا آغاز اس سے کافی عرصہ قبل ہوچکا تھا۔ چنانچہ سرزمین دکن میں ۱۸۰۱ء سے ۱۸۴۰ء تک کا عرصہ تراجم کے لئے خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ پھر فورٹ ولیم کالج دہلی کا دور جدید اور اواخر میں سائنٹفک سوسائٹی علی گڈھ کا قیام بھی اردو تراجم میں خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ بجز سائنٹفک سوسائٹی علی گڈھ کے دوسری علمی و تہذیبی ادارے اردو تراجم کے جو نقوش چھوڑے ہیں وہ نہیں کے مساوی ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا اردو زبان ابھی ترجمہ کی صلا حیت نہیں رکھتی تھی۔ مولوی نذیر احمد پہلے ادیب ہیں جنھوں نے ترجمہ کے لئے زبانوں کو موزوں کیا اور انگریزی علمی و فنی اصطلاحات کو اردو سانچہ میں اس طرح ڈھالا کہ وہ اس کا ایک مستقل جزبن گئی ۔خصوصاً قانونی اصطلاحات اس قدر برجستہ ہیں کہ آج بھی قانون داں اصحاب بکثرت استعمال کرتے ہیں۔ جیسے ازالہ حیثیت عرفی ، استحصال بالجبر ، تحقیر اختیار جائز، مجرمانہ ثبوت جرم سابق، حبس دوام ، حبس بیجا، حفاظت خود اختیاری وغیرہ وغیرہ ۔ ان کے علاوہ وہ اصطلاحات بھی جو آج کل عموماً متروک الاستعمال ہیں لیکن اپنی جامعیت و معنویت کے اعتبار سے قابل ذکر ہیں ۔ بے نام کا پتہ ، مزاحمت بیجا ، شرک افعال، بیمہ ثبوت، متلزم سزا، عافیت ذاتی ، قانونی مخض المعراء وغیرہ ۔
معزز قارئین ایک ایسے دور میں جب کہ سرزمین ہند کو علوم و فنون (مغربی) کی ہوا تک نہ لگی ہو بلکہ عوام لفظ اصطلاح سے بھی واقف نہ تھے نذیر احمد کا انگریزی علمی اصطلاحات کو اردو میں ترجمہ کرنا ایک نہایت ہی کٹھن امر تھا۔ اور خوبی تو اس بات کی ہے کہ نذیر احمد کے پاس تراجم کے کوئی اولیات نہ تھے پھر بھی جس حسن و خوبی سے انجام دیا آپ ہی کی شخصیت تھی۔ اردو تراجم کے بعد ان اصطلاحات کی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ انگریزی اصطلاحات میں جو تاثیر و قوت رہتی ہے وہ ان میں بھی جوں کی توں باقی ہے۔ دراصل اس کی کامیابی کا راز آپ کی عربی زبان پر وہ دسترس ہے جو نذیر احمد کے لئے انگریزی اصطلاحات کو اردو زبان میں منتقل کرنے میں معاون ثابت ہوئی۔ یہیں اہلیت بیان آپ کے ترجمہ قرآن میں بھی پائی جاتی ہے۔ جیسا کہ حضرت شاہ عبدالقادرؒ اور حضرت شاہ رفیع الدینؒ کے تراجم منظر عام پر آچکے تھے لیکن ان کا انداز بیان کچھ اس طرح تھا کہ اس سے نہ صرف د ادائے مطلب کا ہی حق ادا ہوتا اورنہ اردو کی لسانی شان برقرار تھی۔ یوں سمجھئے کہ ان کا اسلوب نگاراس قدر اجنبی ہے کہ ان کی زبان سرے سے اردو ہی معلوم نہیں ہوتی ۔ برخلاف اس کے مولوی نذیر احمد کے تراجم میں ایک آیتہ کریمہ بھی ایسی نہیں ہے کہ جو ادائے مطلب میں کوتاہی برتے یا پھر بے ترتیبی ظاہر کرے۔ یوں بھی قرآن معظم کی جملہ صفات عالیہ میں ایک وصف یہ بھی ہے کہ اس سے نہایت ہی معمولی سے معمولی مطلب سے بھی انتہائی فلسفیانہ نکات اخذ کئے جاسکتے ہیں۔ لہٰذا ان دو انتہاؤں کو اس طرح ملا دینا کہ عبارت عام فہم بھی ہو اور باعتبار ادبیت محاوہ روزہ مرہ کی شان بھی، برقرار ہے۔ یہ صرف نذیر احمد کا ہی کارنامہ ہے ۔ ہاں بلاشبہ بعض جگہ ایسے محاورے بھی مستعمل ہوئے ہیں جو کلام الٰہی کی شایان شان نہیں ۔ لیکن اول تا آخر محاورہ روزمرہ کو فنکارانہ عبارت کے ساتھ برقرار رکھنا آپ ہی کا حصہ تھا۔ بحیثیت مجموعی آپ کا قرآنی ترجمہ نہ صرف بہ اعتبار تراجم کہ ادب و دانش میں اپنا جواب نہیں رکھتا۔ آپ کی خصوصیت جس کو بعد کے مترجمین نے بھی تقلید کی ہے وہ یہ کہ مترجم نے جابجا اپنی جانب سے عبارتوں کا اضافہ کیا ہے اور امتیاز کے لئے اپنی خصوصی عبارت کو قوسین میں رکھا ہے یہ عبارتیں کہیں توسیع مطلب تو کہیں تسلسل کلام ، تو کہیں سابق و لاحق کلام کا تعلق بتلانے یا سلیقہاور پختگی ذوق کو ظاہرکرتا ہے۔ اسی وجہ سے آپ کے ترجمہ کو بعد کے سارے مترجم ، زبردست خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔
نذیراحمد کا دراصل سرمایہ کمال آپ کی ناول نگاری ہے۔ مولوی عبدالحق کیا خوب فرماتے ہیں ’’مرحوم نذیر احمد اگرمراۃ العروس کے سوا کوئی دوسری کتاب بھی نہ لکھتے تب بھی اردو کے باکمال ادیبوں میں شمار ہوتے اور آپ کی حیات جاودانی کے لئے صرف یہی ایک کتاب کافی ہوتی۔ واقعی نذیر احمد کی ادبی انفرادیت جس نقطہ کمال پر آپ کے ناول نگاری میں ملتی ہے نہ تراجم میں ہے اور نہ مذہبی تصانیف میں آپ کے ناول صرف مخصوص طرز ادا کی بناء پر اردو زبان و ادب میں خصوصی اہمیت کے حامل ہیں بلکہ بلاشبہ ایک ایسے دور میں جبکہ اردو زبان ناول کی فضا سے روشناس ہی نہ تھی نذیر احمد کا ناول نگاری میں ید طولیٰ حاصل کرلینا اردو ادب میں ایک معرکہ عظیم ہے ۔ لیکن وہیں فنی نقطہ نظر سے نذیر احمد کے ناول خامیوں سے مبرا نہیں بلکہ بعض تو انہیں ناول ہی تسلیم کرنے سے تردید کی ہے لیکن نوزائیدہ اردو نثر کے ابتدائی دور ہی میں ایک نئے فن کی داغ بیل ڈالنا کوئی آسان کام نہیں ۔ اس دور کی زندگی کی سچی تصویر ہمیں نذیر احمد کے ناول کے بجز کہیں اور نہیں ملتی۔ اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ خود زندگی ہمارے روبرو مجسم ہوکر آگئی ہے اور چلتی پھرتی باتیں کرتی دکھائی دیتی ہے۔ زندگی کے ان گنت پہلوؤں پر نذیر احمد نے جس صداقت اور وضاحت سے روشنی ڈالی ہے اس کی نظیر اس دور کی شاعری میں اور نہ تاریخ میں ملتی ہے۔
حیات النذیر میں رقم طراز ہیں کہ بعض افراد نے دہلی میں ’’مراۃ العروس‘‘ کے کردار اصغری و اکبری کا مسکان ڈھونڈنے آ نکلتے ہیں اور کہتے ہیں کہ سچ مچ ضرور اصغری و اکبری بھی ہوگزرے ہیں۔ یہ واقعہ بجائے خود نذیر احمد کی حقیقت۱ نگاری پر ایک برجستہ اور جامع تبصرہ ہے ۔ غالباً اردو ادب کی تاریخ میں ایک ایسا کوئی بھی واقعہ موجود نہیں کہ کسی ادیب کے افسانوں کو لوگ یقینی سمجھنے لگے ہوں۔ درحقیقت یہ صرف نذیر احمد کی قوت بیانی اور طرز اداکا ہی جادو تھا کہ لوگوں نے اصغری و اکبری کو سچ مچ کے انسان سمجھ بیٹھے اگر اس کا مطالعہ کریں تو اظہر من الشمس ہوتا ہے کہ اس کے تمام کردار ہمیں بالکلیہ جانے پہچانے قریب تر محسوس ہونے لگتے ہیں بلکہ اس کے باوجود ہم سے وہ کسی قدر دوری پر بھی معلوم ہوتے ہیں یہی کسی قدر دوری ہی ہے جو ناول کی جان اور صحیح کردار کی عکاسی کی علامت ہے جس سے زندگی نیم حقیقی و ہم افسانوی معلوم ہوتی ہے۔ لہٰذا نذیر احمد کے ناولوں کو پڑھنے کے بعد قاری یوں محسوس کرنے لگتا ہے کہ انھیں متعارف انسانوں کا دھوکہ ہوتا ہے گویا انھوں نے ایسے انسانوں کو خوب دیکھا اور ان کی لطف صحبت اٹھاتے رہے ہیں۔ زندگی کی ایسی عجیب و غریب عکاسی کی نظیر ہمیں اردو ادب میں بمشکل دستیاب ہے وہ دراصل نذیر احمد کی سیرت نگاری اور ساتھ ساتھ زبان پر قدرت طرز ادا کا بانکپن ہے ۔ آپ کی عظیم ادبی شخصیت کا اندازہ آپ کے ناول کے کمالات اور واقعات ہیں جن میں آپ کا علم ایک خاص قوتِ حس لے کر اٹھتا ہے اور زندگی کی نکھری تصاویر پیش کرتا ہے۔
نذیر احمد نے اپنے ناولوں میں فنی اور جمالیاتی قدر و قیمت کو پیش نظر رکھا۔ ایک ایسے دور میں جبکہ مسلم معاشرہ روبہ زوال تھا اسلامی روایات دم توڑ رہی تھیں آپ کے ناول قوم میں ترقی اخلاقی سماجی اور سیاسی بیداری پیدا کئے۔ یہ ایک عظیم معرکہ تھا یاد رہے کہ کوئی آرٹ اس وقت تک انسانی روح کی تسکین نہیں کرسکتا جب تک وہ اخلاقی عناصر کا حامل نہ ہو۔ ٹالسٹائی اپنی ڈائری کے ۱۸۹۶ء کے اوراق میں لکھتے ہیں ’’انتہائی جمالیاتی کیف ہمیں کبھی مکمل تسکین نہیں دیتا اور نہ انسان اس کے علاوہ کچھ اور بھی چاہتا ہے اور وہ مکمل تسکین صرف اس چیز سے پاتا ہے جو اخلاقی حیثیت سے اچھی ہو ‘‘ اس طرح نذیر احمد کے ناولوں کی اہمیت بھی سب سے زیادہ اسی اخلاقی قدر و منزلت پر موقوف ہے ۔ آپ نے محض عوامی دلچسپی کے لئے ناول نہیں لکھے بلکہ آپ کا مطمع نظر قوم کی اصلاح و فلاح بہبود تھا۔ اس لئے وہ کرداروں کو اس طرح پیش کرتے ہیں کہ قوم غیر شعوری طور پر اس کی حالت سے آگاہ ہوکر اصلاح و ترقی پر آمادہ ہوجائے کیونکہ ناول نگاری کی بڑی خوبی یہ ہے کہ زندگی کے ذریعہ کردار کو نہیں بلکہ کردار کے ذریعہ زندگی کو بنائیں۔
نذیر احمد کے ناول کے کردار اس قدر سادے اور واضح ہوتے ہیں کہ قاری بہت جلد سمجھ لیتا ہے لیکن جب یہی کردار مزاحیہ یا طنزیہ رنگ اختیار کرجاتے ہیں تو اور بھی دلچسپ بن جاتے ہیں ۔ مرزا ظاہر دار بیگ اور ابن الوقت اس کی بہترین مثالیں ہیں ۔ زندگی بسر کرنے کا انداز سکھانا نذیر احمد کی تصانیف کا سب سے بڑا مقصد ہے۔اور اس کی ترقی و ترویج میں ان کی زبان نے جو کچھ کیا وہ محتاج بیان نہیں۔
البتہ محاورہ روز مرہ سے نذیراحمد نے انداز بیان کا تعلق کسی قدر تفصیل طلب ہے۔ سب سے پہلے یاد رہے کہ محاورے کے دو جز ہوتے ہیں اصلی مفہوم اورمجازی مفہوم دونوں آپس میں زنجیر کی کڑی کی طرح ایک دوسرے سے ایسے مربوط ہوتے ہیں کہ ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔ عموماً ادیب زیادہ تر محاورے کے مجازی مفہوم کو بروے کار لاتا ہے ۔ وہ زبان کی مجازی دنیا میں تب ہی رسائی حاصل کرسکتا ہے جب کہ اس میں اعلیٰ قوت تنقید موجود ہو جس کی دخل اندازی صرف زبان کے مجازی پہلو ہی سے نمایاں ہوتی ہے۔ داخلی زبان یا بامحاورہ زبان تفکر تعقل اور تنقید ہی جس کی پیداوار ہوتی ہے۔ اس کے برعکس بے محاورہ یامعروضی زبان میں ان کا فقدان ہوتا ہے۔
فرنیکائزگوون محاورہ کے تعلق سے لکھتے ہیں یہ ایک داخلی حقیقت کا بالواسطہ ارتباطی اور دانستہ تمثیلی اظہار ہے۔ اسی طرح نذیر احمد کے ناول میں بھی اسی حقیقت نگاری کے خدو قال زیادہ نمایاں ہیں یہی داخلی انفرادیت ہے جو انھیں صاحب طرز ادیب کے زمرہ میں ایک وقیع حیثیت عطا کرتی ہے۔
آخرمیں نذیراحمد کے ناولوں کا ایک مختصر جائزہ لیتے ہوئے آپ سے رخصت ہوتا ہوں۔ نذیر احمد کے دوناول لڑکیوں کے لئے ہیں ان کا موضوع تعلیم ، تہذیب اور اخلاق ہے ۔ مراۃ العروس دو سگی بہنوں کا قصہ ہے جس میں ایک سمجھ داراورمتین اوردوسری پھوہڑ اوربدمزاج ۔ قصہ تمام تر اصلاحی ہے لیکن ان کے شگفتہ طرزبیانی مزاح کے لطف کی رنگارنگی سے اس میں دلآویزی پیدا ہوگئی ہے۔ بنات النعش میں افسانوی عنصر تقریبا مفقود ہے موضوع ایک بدمزاج اور پھوہڑ امیرزادی کی اصلاح ہے۔ اس کی آئے دن کی بدعنوانیوں سے تنگ آکر اصغری کے پاس بھیجا جاتا ہے جو پہلے ناول مراۃ العروس کی ہیروئین ہے ۔ نئی زندگی سے متاثر ہوکر وہ ایک سنجیدہ اور سمجھدار بن جاتی ہے۔ توبتہ النصوح تمام تر ایک انگریزی ناول سے ماخوذ ہے ۔ ابن الوقت کا موضوع ہنگامی ہے اس لئے آج ہمیں اس سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی ۔ لیکن نذیر احمدکے زمانے میں یہ ایک نہایت ہی اہم سوال تھا ۔ نذیر احمد انگریزی تعلیم اور تہذیب کے مخالف تو نہیں تھے لیکن انہیں پسند بھی نہ تھا کہ مسلمان معاشرہ اپنی تہذیب کو چھوڑ کر انگریزیت اختیار کریں بعض کا خیال ہے کہ ابن الوقت کا اشارہ سرسید کی جانب ہے۔ اس کے پڑھنے سے یہ خیال صحیح نہیں معلوم ہوتا۔ یہ ناول دراصل ایک تاریخی واقعہ پر مبنی ہے ۔ جان نثاران کی بہترین تخلیق ہے جو خطوط رسانی کے فرائض کے بارے میں دلچسپ پیرائے میں پیش کی گئی ہے۔ فسانہ مبتلاً ایک طبع زاد ناول ہے جس میں تعدد ازدواج کے برے نتائج کو ایک قصہ کے پیرایہ میں دکھایا گیا ہے ۔ ’’ایامی‘‘ ایک اصلاحی ناول ہے جس میں بیوہ کے عقد ثانی کی ضرورت کو ایک قصہ کے پیرایہ میں سلیس زبان میں پیش کیا گیا ہے۔


ڈپٹی نذیر احمد کے شامل نصاب مضمون " صبح خیزی اور پڑھنے کے فوائد "  کےلیے معروضی سوالات کا ممکنہ نقشہ

صبح خیزی اور پڑھنے کے فائدے کے معروضی سوالات
صبح خیزی اور پڑھنے کے فائدے
مکالمہ کس کو کہتے ہیں؟
1
بات چیت
(B)
مضمون
(A)
جھگڑا
(D)
کہانی
(C)

"ساجھا ملانا"  کا کیا مطلب ہے؟
2
پیسہ ملانا
(B)
حصہ ملانا
(A)
ملاقات کرنا
(D)
مشورہ کرنا
(C)

کھانا پکانے اور کھانے کا  کونسا وقت مقرر کیا گیا تھا؟
3
شام
(B)
دوپہر
(A)
صبح
(D)
رات
(C)

اس مکالمہ میں  میٹھے سموسے بنانے  والی کون  ہے؟
4
حسن آرا
(B)
محمودہ
(A)
شہر بانو
(D)
استانی
(C)

وہ کون ہے جو صبح جلدی نہیں اٹھتی؟
5
محمودہ
(B)
حسن آرا
(A)
استانی
(D)
شہر بانو
(C)

ابا جان کہا کرتے ہیں کہ زیادہ سونے سے آدمی کو کیا نقصان ہوتا ہے؟
6
چستی
(B)
چڑچڑاپن
(A)
شرمندگی
(D)
بیماری
(C)

نیند گھٹانے کا  طریقہ کس نے بتایا؟
7
محمودہ
(B)
استانی
(A)
شہر بانو
(D)
حسن آرا
(C)

جس کو  صبح دیر سے اٹھنے کی عادت ہو، اس کو سویر اٹھنے سے کتنے دنوں تک تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟
8
آٹھ دس دن
(B)
تین چار دن
(A)
ایک مہینہ
(D)
پندرہ بیس دن
(C)

کس کی  دوست لڑکیاں صبح سویرے اندھیرے منہ شرط لگا کر   مکتب پہنچ جاتی تھی۔
9
استانی  کی
(B)
محمودہ  کی
(A)
حسن آرا کی
(D)
شہر بانو کی
(C)

"چند پند" کتاب میں کس قسم کی باتیں لکھی ہوئی ہیں؟
10
اقوال زریں
(B)
بیماریوں کا علاج
(A)
صبح خیزی کے فائدے
(D)
پڑھنے کے فائدے
(C)

کوئی  خود کو سمجھے کہ وہ بڑا ہے اور جو غریب ہیں وہ حقیر ہیں اور اس کی ٹہل خدمت کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔   اس سوچ کو کیا کہا جاتا ہے؟
11
امیری
(B)
مایوسی
(A)
غریبی
(D)
غرور
(C)

پڑھنے کا ایک ادنیٰ یعنی بہت چھوٹا فائدہ کیا ہے؟
12
پڑھائی سے اچھی نوکری مل سکتی ہے
(B)
ایک پڑھنا آ جائے تو ہزاروں کہانیاں آ جائیں
(A)
آنکھوں کے سامنے سماں بندھ جاتا ہے
(D)
افسانہ خواں ہاتھ جوڑ آ موجود ہوتے ہیں
(C)

گلا غیبت، لڑائی جھگڑا، اٹواٹی کھٹواٹی  لے پڑنا کس کی نشانیاں ہیں؟
13
غریب لوگوں کی
(B)
امیر لوگوں کی
(A)
ان پڑھ لوگوں کی

(D)
بیمار لوگوں کی
(C)


صبح خیزی کتنی فائدہ مند ہے؟  ( یہ مضون حوالے کے طور پر پڑھ سکتے ہیں ) 


برائن لوفکن
بی بی سی کیپیٹل
1 اپريل 2019
اس پوسٹ کو شیئر کریں فیس بک اس پوسٹ کو شیئر کریں Messenger اس پوسٹ کو شیئر کریں ٹوئٹر اس پوسٹ کو شیئر کریں ای میل شیئر
تصویر کے کاپی رائٹALAMY
بچپن سے ہمیں یہ بتایا جاتا ہے کہ کامیاب ہونا ہے تو صبح سویرے اٹھیں۔

صبح جلدی بستر چھوڑنے سے زیادہ کام ہوتے ہیں۔ بڑی بڑی کمپنیوں کے سی ای او اور مشہور شخصیات بھی ایسا کرتی ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سحر خیزی سے صحت اچھی رہتی ہے۔ آپ خوش رہتے ہیں اور زندگی پر آپ کا کنٹرول رہتا ہے۔

اس قسم کی اچھی باتوں کے باوجود صبح سویرے اٹھنے سے کوئی جادو نہیں ہوتا نہ ہی اس سے ٹائم مینجمنٹ کا مسئلہ حل ہوتا ہے بلکہ بعض افراد پر تو اس کا الٹا اثر بھی ہوتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

اچھی نیند کے چھ نسخے

بے خوابی اور جلد موت میں کوئی تعلق نہیں

نیند کی کمی سے زیادہ بھوک کیوں لگتی ہے

کامیابی اس معمول کی تلاش میں ہے جو آپ کے موافق ہو۔ یہاں چند بروقت تجاویز دی جارہی ہیں جو آپ کے بیدار ہونے کے مناسب وقت کو طے کرنے میں آپ کی مدد کر سکتی ہیں۔

تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
سحرخیزی کے ’فوائد

اس کے کئی فوائد ہو سکتے ہیں۔ کم از کم ان لوگوں کے خیال میں جو سحر خیز ہیں۔

بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ صبح دم بھٹکانے والی چیزیں کم ہوتی ہیں۔ گھر کے بچوں یا دوسرے لوگ سو رہے ہوتے ہیں۔ اس وقت میسیجز اور ای میلز بھی کم آتے ہیں۔

ٹیکنالوجی کمپنی ایپل کے سی ای او ٹِم کُک کہتے ہیں کہ وہ صبح چار بجے اٹھتے ہیں اور کیلیفورنیا میں رہنے کے بعد بھی مشرقی ساحل پر رہنے والے اپنے ساتھی سے پہلے ای میلز دیکھتے ہیں۔

کیلیفورنیا میں جب صبح کے 3:45 بجتے ہیں تو امریکہ کے مشرقی ساحل پر 6:45 بج رہے ہوتے ہیں۔

معروف میڈیا پرسن اور اداکارہ اوپرا ونفری روزانہ صبح چھ بجکر دو منٹ پر بیدار ہوتی ہیں۔ مراقبے اور ورزش کے بعد نو بجے سے اپنا کام شروع کرتی ہیں۔

ہالی وڈ سٹار مارک والبرگ تو سحر خیز کے بجائے شب بیدار لگتے ہیں۔ وہ صبح ڈھائی بجے ہی جاگ جاتے ہیں۔ ورزش کرتے ہیں، گولف کھیلتے ہیں اور عبادت کرتے ہیں۔

چند مطالعوں میں یہ کہا گیا ہے کہ سحر خیزی اور کامیابی حاصل کرنے میں روابط ہوسکتے ہیں۔

تصویر کے کاپی رائٹBBC FUTURE
جو لوگ جلدی اٹھتے ہیں ان کا روایتی کارپوریٹ شیڈول کے ساتھ اچھا تال میل رہتا اور وہ فعال ہوتے ہیں۔

سکول کالج میں ان کے گریڈ بہتر ہوسکتے ہیں اور انھیں بڑی تنخواہ بھی مل سکتی ہے۔

لیکن اگر آپ صبح صبح جلدی نہیں اٹھ سکتے تو آپ کچھ نسخے آزما سکتے ہیں۔

صبح سویرے ورزش کرنے اور جلد از جلد سورج کی روشنی میں آنے سے میٹابولزم میں اضافہ ہوتا ہے جسم کو گرم رکھنے میں مدد ملتی ہے۔

لیکن الارم کی مدد سے بیدار ہونا سب کے لیے مناسب نہیں۔ اگر آپ سحر خیز نہیں ہیں اور زبردستی ایسا کر رہے ہیں تو اس کا نقصان ہو سکتا ہے۔

تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image caption
ہالی وڈ سٹار مارک والبرگ کہتے ہیں کہ وہ ڈھائی بجے ہی بیدار ہو جاتے ہیں
کیا سب کو جلدی اٹھنا چاہیے؟
نہیں۔ سحرخیزی سے آپ زیادہ کارگر ہوسکتے ہیں اس کا دارومدار دراصل آپ کے جین پر ہوتا ہے۔

کئی مطالعوں سے پتہ چلتا ہے کہ کچھ لوگ صبح زیادہ الرٹ رہتے ہیں جبکہ بعض رات کے وقت ہشاش بشاش رہتے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ آپ کی تیزی اور ذہنی صلاحیت دوپہر کے بعد سب سے زیادہ ہو۔

نیچر کمیونیکیشن نامی جریدے میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں یہ بات کہی گئی ہے۔

سات لاکھ سے زائد لوگوں کے اعداد و شمار کے مطالعے کے بعد محققین نے 350 جینیاتی عوامل کی نشاندہی کی ہے جو اس بات کا تعین کرتے ہیں کہ کوئی شخص صبح کو زیادہ توانا محسوس کرتا ہے یا پھر رات کو۔

نمونے کے سائز کے اعتبار سے یہ اس قسم کی سب سے بڑی تحقیق ہے۔ اگرچہ اس کے نتائج کی تصدیق کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

لہذا اگر آپ قدرتی طور پر سحر خیز نہیں ہیں اور آپ جلد اٹھنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو اس سے آپ کو نقصان ہو سکتا ہے۔

کچھ لوگوں کے جلدی بیدار ہونے کی ذاتی وجوہات ہو سکتی ہیں۔

مانچسٹر یونیورسٹی میں ورک سائیکالوجی کی پروفیسر میریلن ڈیوڈسن کہتی ہیں کہ سحرخیزی اور جلدی کام شروع کرنے کے دوسرے عوامل بھی ہوسکتے ہیں جیسے جوش و خروش اور ملازمت پر اطمینان وغیرہ۔

چھوٹے بچوں کے والدین اور غیر روایتی کام کے گھنٹوں کے تحت کام کرنے والے ملازمین کے پاس یہ چھوٹ نہیں ہوتی کہ اپنا دن کب شروع کریں۔

اہم بات یہ ہے کہ جلدی بیدار ہونے سے فوری طور پر دفتر میں کامیابی حاصل نہیں ہوتی ہے۔ بعض اوقات اس کے منفی اثرات بھی ہو سکتے ہیں۔

تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
کیا جلدی اٹھنے کے نقصانات بھی ہیں؟

جی ہاں۔ اگر آپ عام طور پر سحر خیز نہیں ہیں اور اپنی تخلیقی صلاحیت میں اضافے کے لیے ایسا کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ممکنہ طور پر اس کے نقصان ہو سکتے ہیں۔

امریکہ میں جان ہاپکنز یونیورسٹی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ریچل سلاس نیند کی بیماریوں کے ماہر ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ اگر آپ کسی کی نقل میں ہفتے کے دو دن صبح پانچ بجے اٹھنے کی کوشش کریں گے تو آپ اپنے جسم کے ساتھ مذاق کر رہے ہیں۔

رات بھر کی نیند لینا اور ایک مقررہ وقت پر جاگنا اور سونا دونوں اہمیت کے حامل ہیں۔

اس سے بھی زیادہ نقصان دہ صبح جلدی جاگنے کے لیے نیند میں کمی کرنا ہے۔ نیند میں کمی کرنے کا مطلب اس کے منفی اثرات کو مدعو کرنا ہے۔

اس سے توجہ مرکوز کرنے کی صلاحیت میں کمی ہو سکتی ہے، بیچینی ہو سکتی ہے۔ دل کی بیماری اور ہائی بلڈ پریشر کا بھی خطرہ رہتا ہے۔

لہذا اگر آپ کو سحر خیزی کے لیے نیند میں کمی کرنی پڑ رہی ہے تو اس سے پرہیز کریں۔

سلاس کے پاس بہت سے ایسے مریض آتے ہیں جنھوں نے نوجوانی کے دنوں میں نیند میں کٹوتی کی تھی۔ جب وہ بڑے ہو ئے، طرز زندگی بدلی، ان کے بچے ہوئے تو انھیں مشکلات ہونے لگيں۔

انگلینڈ کے شہر لوٹن میں بیڈفورڈ شائر یونیورسٹی کے پروفیسر گیل کن مین کہتے ہیں کہ اگر آپ صبح جلد کام شروع کرتے ہیں تو آپ کو جلد ہی کام ختم کرنا ہوگا۔ نہیں تو آپ کو صبح اٹھنے کا حقیقی فائدہ نہیں ہوگا۔

ان کا کہنا ہے کہ جو ہائی پروفائل کاروباری صبح جلد اٹھتے ہیں، دیر تک دفتر میں رہتے ہیں یا رات میں بھی ای میل پر دستیاب ہیں، وہ اپنا ہی نقصان کر رہے ہیں۔

نیو یارک ٹائمز نے حال ہی میں 'پرفارمیٹو ورکاہولزم' کی اصطلاح ایجاد کی ہے۔ یہ ان کے لیے ہے جو صبح اٹھنے اور رات دیر گئے تک کام کرنے کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں اور یہ مثبت مثال نہیں ہے۔

کِن مین نے کہا: 'سی ای اوز ملازمین کے لیے رول ماڈل ہوتے ہیں۔ ان کے اس قسم کے رویے کو ضروری سمجھنا غیر ذمہ دارانہ فعل ہے۔'

تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
آپ کیا کرنا چاہیے؟
ماہرین کا خیال ہے کہ کسی کی بات میں نہ آ جائیں بلکہ خود آزمائيں۔ معلوم کریں کہ آپ کے لیے بہترین کیا ہے۔ شاید سحر خیزی آپ کے لیے مفید نہ ہو۔

غور کریں کہ آپ کب تھکا ہوا اور کب تروتازہ محسوس کرتے ہیں۔

چھٹی ملنے پر یہ دیکھیں کہ آپ کو کب نیند آتی ہے اور کب آنکھ خود ہی کھل جاتی ہے۔ اپنے روزانہ کے معمول کو اسی کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں۔

اس طرح آپ اپنی قدرتی توانائی کا پوری طرح استعمال کرنے میں کامیاب ہوں گے۔

اگر معاملہ کسی دفتر یا ٹیم کا ہے، تو ماہرین کا مشورہ ہے سب لوگوں کی عادات کے حساب سے بہترین کارکردگی کے لیے ایڈجسٹمنٹ ہونی چاہیے۔

نیویارک یونیورسٹی میں مینجمنٹ کمیونیکیشن پروگرام کی ڈائریکٹر سوزین سٹیلک کا مشورہ ہے کہ دفاتر اور ٹیموں کو 'ایپریشی ایٹِو انکوائری' یعنی تعریفی تحقیقات کی تکنیک کا استعمال کرنا چاہیے۔

اس میں کسی منصوبے کے آغاز میں ہی تمام لوگ ساتھ بیٹھ کر اپنی ذاتی ضروریات، معمولات اور ترجیحات پر تبادلۂ خیال کرتے ہیں تاکہ ٹیم میں ربط پیدا کیا جا سکے۔

مثال کے طور پر، اگر کسی کا بچہ چھوٹا ہے، اسے صبح پانچ بجے ہی اٹھنا پڑتا ہے اور بچے کو 'ڈے کیئر' میں رکھنا ہوتا ہے تو وہ دیر تک نہیں رک سکتا۔ ٹیم میں اسے ایڈجسٹ کیا جانا چاہیے۔

اگر ٹیم کے رہنما کا رویہ لچکدار ہے تو صبح جلدی کام شروع کرنے والے کو دوپہر میں جلدی گھر بھیجا جا سکتا ہے۔

اس طرح کام کرنے والے لوگوں کو جلد اٹھانے کا فائدہ بھی ملے گا اور وہ تھکاوٹ سے بھی بچیں گے۔

تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
خود کو پہچانیے

جن کے لیے علی الصبح بیدار ہونا اچھا ہے وہ بیدار ہوں تو بہتر ہے لیکن تخلیقی صلاحیت میں اضافے کے چکر میں سب کو صبح جگانے کا فائدہ نہیں ہے۔

اپنی نیند کی عادات کو پہچاننے کی ضرورت ہے۔ سب سے اہم یہ ہے کہ آپ بھرپور نیند لیں اور اس میں کٹوتی نہ کریں۔

سورج طلوع ہونے س قبل ہی صرف اس لیے اٹھ بیٹھنا کہ آپ کے مثالی کاروباری ایسا کرتے ہیں دن کے آغاز کا سب سے سمارٹ طریقہ نہیں ہے۔

کِن مین متنبہ کرتی ہیں کہ 'اگر آپ سحر خیز نہیں تو ایسا بالکل نہ کریں۔


حوالہ 






جماعت نہم تا جماعت دوازدہم

 یہ سوال  اے کے یو ای بی کے سالانہ امتحان  ۲۰۱۱ جماعت نہم  کے اپردو کے پرچے میں ٓآیا تھا