November 15, 2019

میر ببر علی انیس کا تعارف اور شامل نصاب نظم کی تشریح( تالیف: شمس الحق قمر AKESP,GB)

ببر علی انیس کا تعارف  ،  مرثیہ گوئی کی خصوصیات اور  شامل نصاب  مرثیہ( صبح کا منظر)  کی تشریح
ببر علی انیس۔ اردو مرثیہ گو۔ میر مستحسن خلیق کے صاحبزادے تھے اور معروف مثنوی سحر البیان کے خالق میر غلام حسین حسن ان کے دادا تھے۔ فیض آباد میں پیدا ہوئے۔ خاندانِ سادات سے تعلق تھا۔
تعلیم
مولوی حیدر علی اور مفتی حیدر عباس سے عربی، فارسی پڑھی۔ فنونِ سپہ گری کی تعلیم بھی حاصل کی۔ فنِ شہسواری سے بخوبی واقف تھے۔
شاعری و مرثیہ گوئی
شعر میں اپنے والد سے اصلاح لیتے تھے۔ پہلے حزیں تخلص تھا۔ شیخ امام بخش ناسخ کے کہنے پر انیسؔ اختیار کیا۔ ابتدا میں غزل کہتے تھے۔ مگر والد کی نصیحت پر مرثیہ کہنے لگے اور پھر کبھی غزل کی طرف توجہ نہیں کی۔ اس خاندان میں شاعری کئی پشتوں سے چلی آتی تھی۔ آپ کے مورثِ اعلیٰ میر امامی شاہ جہاں کے عہد میں ایران سے ہند میں آئے تھے اور اپنے علم و فضل کی بنا پر اعلیٰ منصب پر متمکن تھے۔ ان کی زبان فارسی تھی لیکن ہندوستانی اثرات کے سبب دو نسلوں کے بعد ان کی اولاد فصیح اردو زبان بولنے لگی۔ میر انیس کے پردادا اور میر حسن کے والد میر غلام حسین ضاحک اردو کے صاحبِ دیوان اور غزل گوشاعر تھے۔ گویا میر انیس کے گھر انے کی اردو شاعری کا معیار تین نسلوں سے متقاضی تھا کہ وہاں میر انیس جیسا صاحب سخن پروان چڑھے اور تا قیامت اہلِ ادب اُسے خدائے سخن کے نام سے پکارتے رہیں۔
غزل سے مرثیے تک
میر انیس ابتدا میں غزل کہتے تھے مگر والد کی نصیحت پر صرف سلام اور مرثیہ کہنے لگے اور پھر ایسے منہمک ہوئے کہ کبھی غزل کہنے پر توجہ ہی نہیں دی۔ محمد حسین آزاد نے کیا خوبصورت تبصرہ فرمایا ہے کہ
والد کی فرماں برداری میں غزل کو ایسا چھوڑا کہ بس غزل کو سلام کر دیا۔
ناصر لکھنوی نے خوش معرکہء زیبا (مرتّبہ مشفق خواجہ کراچی ) میں لکھا ہے کہ غزلیں انہوں نے دانستہ ضاِئع کر دی تھیں مگر پندرہ سولہ غزلیں جو محققین کو دستیاب ہوئی ہیں وہ انیس کی غزل گوئی پر فنی قدرت کی واضح ترین دلیل ہیں۔ چند شعر دیکھیے
شہیدِ عشق ہوئے قیسِ نامور کی طرح
جہاں میں عیب بھی ہم نے کیے ہنر کی طرح
کچھ آج شام سے چہرہ ہے فق سحر کی طرح
ڈھلا ہی جاتا ہوں فرقت میں دوپہر کی طرح
انیس یوں ہوا حالِ جوانی و پیری
بڑھے تھے نخل کی صورت گِرے ثمر کی طرح
یہ اشعار بھی دیکھیے
نزع میں ہوں مری مشکل کرو آساں یارو
کھولو تعویذِ شفا جلد مِرے بازو سے
………
انیس دم کا بھروسا نہیں ٹھہر جاؤ
چراغ لے کے کہاں سامنے ہوا کے چلے
اپنے بیٹے میر نفیس کی ولادت کے بعد پہلے 1859ء میں مرثیہ پڑھنے عظیم آباد گئے۔ اور پھر 1871ء میں نواب تہور جنگ کے اصرار پر حیدر آباد دکن کا سفر کیا۔
لکھنوی ماحول اور انیس
مرثیہ کی میراث انیس کو اجداد سے منتقل ہوئی تھی مگر ان کی طبعِ رواں ذاتی لیاقت کربلا سے ایمانی وابستگی اور شاہانِ اودھ کے عہد حکومت میں لکھنؤ کے اندرعزاداری کے لیے مثالی ماحول کی دستیابی نے انیس کو مرثیہ نویسی اور مرثیہ خوانی کے فن میں طاقِ روزگار بنا دیا اور کچھ ہی عرصہ میں انیس نے سلاستِ زبان، ادائیگی اور حسنِ بیان میں اپنے عہد کے راسخ البیان مرثیہ گو استادجناب میرزا سلامت علی دبیر اور دیگر اساتذہ ٔفن کو بھی مقبولیت میں قدرے پیچھے چھوڑ دیا۔ انیس کا معمول تھا کہ شب بھر جاگتے اور مطالعہ و تصنیف میں مصروف رہتے تھے۔ ان کے پاس دوہزار سے زائد قیمتی اور نایاب کتب کا ذخیرہ موجود تھا۔ نمازِ صبح پڑھ کر کچھ گھنٹے آرام کرتے تھے۔ بعدِ دوپہر بیٹوں اور شاگردوں کے کلام کی اصلاح کرتے تھے۔ محفلِ احباب میں عقائد اور علوم وعرفانیات پر گفتگو کرتے تھے۔
مراثیِ انیس کی تعداد
میر ببر علی انیس کو دشت کربلا کا عظیم ترین سیّاح قرار دیا گیا ہے۔ اُن کے مرثیوں کی تعدا د بارہ سو (1200) کے لگ بھگ بیان کی جاتی ہے۔ مجلّہ نقوش انیس نمبر میں بہ تحقیقِ عمیق میر انیس کے 26 نایاب اور غیر مطبوعہ مراثی طبع کیے گئے ہیں۔ محققین کے مطابق ان کے کئی مرثیے ابھی تک غیر مطبوعہ حالت میں مختلف بیاضوں کے اندر موجود ہیں۔ میر انیس نے روایتی مرثیہ کے علاوہ سلام، قصائد، نوحہ اور رباعیات کا بھی کثیر ذخیرہ چھوڑا ہے۔ رباعیاتِ انیس کی تعداد محققین کے مطابق چھ سو(600) کے برابر ہے۔ میر انیس کے کئی مراثی میں معجزاتی کرشمہ کاری کا عنصر ملتا ہے۔ آپ کے ایک نواسے میر عارف کی تحریری یادداشت سے پتہ چلتا ہے کہ 1857ء کے اواخر میں میر انیس نے ایک سو ستاون (157) بند یعنی ایک ہزار ایک سو بیاسی (1182) مصرعوں کا یہ شاہکار مرثیہ جب قطع کی مسافتِ شب آفتاب نے ایک ہی شب میں لکھا اوراپنے خاندان کے عشرۂ مجالس میں پڑھا۔ میر انیس کے تین فرزندان تھے میر نفیس، میر جلیس اور میر سلیس اور یہ تینوں منجھے ہوئے شاعر و مرثیہ نگار تھے۔ والد کے بعد میر نفیس کا مرثیہ اعلٰی پائے کی مرثیہ نگاری میں شمار ہوا ہے۔
مرثیے کی ترقی
انیس نے مرثیے کو ترقی کے اعلیٰ درجے پر پہنچایا۔ اردو میں رزمیہ شاعری کی کمی پوری کی۔ انسانی جذبات و مناظر قدرت کی مصوری کے ذریعے زبان میں وسعت نکالی۔ سلام اور رباعیوں کا شمار نہیں۔ مرثیوں کی پانچ جلدیں طبع ہوچکی ہیں۔
میر انیس کے مرثیوں کا مختصر فنّی جائزہ
جنابِ انیس کے رقم کردہ مرثیے اب تک کروڑوں آنکھوں، زبانوں اور سماعتوں کو اپنے ملکوتی خصائل کا گواہ بنا چکے ہیں۔ انیس کے کہے ہوئے مرثیوں میں آیات و روایات، تاریخ، تخیئل، ماحول، سراپا، رَجَز، مظلومیت، آہ و بکا، مکالمات، اعداد و شمار، منطق و فلسفہ، علومِ جہانی اور اصول و عقائد کے مفاہیم کی ایسی متوازن آمیزش ملتی ہے کہ انیس کے علم و فضل کی وسعتیں بیکراں محسوس ہونے لگتی ہیں۔ انیس نے دبیر کے مقابلہ میں سلیس زبان استعمال کی۔ اس کے باوجود اردو ادب کے محققین کے مطابق طولِ تاریخ میں تراکیب و فرہنگ کا سب سے عظیم ذخیرۂ الفاظ میر انیس کے کلام میں ملتا ہے۔ عروض و قوافی، صرف و نحو، تراکیب، صنائع و بدائع ،محاکات، محاورات اور بندشیں ان کے یہاں دست بستہ نظر آتے ہیں۔ مرثیہ بیانیہ شاعری کا نام ہے۔ انیس نے اس میں ایک ناظر کی حیثیت سے خارجی اندازِ ملاحظہ اور مرثیے کے کرداروں کی اپنی داخلی کیفیات کو بیک وقت یک جا کر کے واقعہ نگاری کو معجزاتی انداز تک متحرّک اور بے نظیر بنا دیا ہے۔ میر انیس کا اجتماعی کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے مرثیہ نگاری کو ایک سماجی رسم کے درجہ سے اٹھا کے نفیس ترین ادبی صنف اور مرثیہ گوئی کو فنِّ لطیف میں بدل دیا ہے۔
میر انیس پر یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ ان کے مرثیے ایک خاص تاریخی واقعے سے تعلق رکھتے ہیں اور چونکہ اس تاریخی واقعے کاتعلق مذہبی جذبات سے ہے اس لیے انہوں نے اپنے مراثی میں فنکارانہ اصولوں کی پابندی سے زیادہ اپنے جذبات کو جگہ دی ہے اس طرح یہ جذباتیت ان کی واقعہ نگاری کوعمودی(Vertical) طور پر پرُاثر توضرور بنا دیتی ہے مگر افقی (Horizontal) طور پر شاعرانہ حسن کو فوت کر دیتی ہے[8]. مگرڈاکٹرفرحت نادر رضوی نے اپنی  کتاب  "میر انیس اور قصہ گوئی کا فن"  [9] میں جو ان کی اس تحقیقی کاوش کا ثمرہ ہے جو انہوں نے لکھنؤ یونیورسٹی میں اپنی ڈاکٹریٹ کی ریسرچ کے درمیان انجام دی اور جس کی اشاعت لکھنؤ ایجوکیشنل اینڈ ڈیویلپمنٹ ٹرسٹ نے کی ہے[10][11][12] یہ دعویٰ کیا ہے کہ  میر انیس کے مرثیے اپنے اندر وہ تمام صفات بدرجہ اتم رکھتے ہیں جو کسی واقعے کے بیان کو ایک کامیاب قصے کے درجے پر فایض کرنے کے لیے ضروری ہیں اور وہ اجزا ہیں: اسرار، تجسّس، خلش، تصادم اور منتہائے بیان۔  یہ تمام اجزا نہ صرف یہ کہ انیس کے مرثیوں میں موجود ہیں بلکہ احسن طریقے پر موجود ہیں اور کہیں کہیں تو میر انیس بیانِ قصہ میں داستان اور مثنوی سے بھی بہت آگے نکل گئے ہیں درآں حالیکہ مرثیوں میں پیش کیا جانے والا قصہ ایک حقیقی تاریخی واقعہ ہے اور اس اعتبار سے میر انیس بڑی مجبوریوں کے اسیر ہیں کہ تاریخی واقعات  سے پرے وہ تخیل کی وہ دنیا آراستہ نہیں کر سکتے جس کے ذریعہ داستان گویوں اور مثنوی نگاروں نے اپنی تخلیقات کو معرکتہ الا را اثرانگیزی بخشی ہے۔ ‘‘ بقول پروفیسر شبیر حسن رضوی: "مثلاً شیکسپیئر کو تعمیر واقعات وتخلیق اشخاص میں جو آزادی تھی وہ انیس کو نہ تھی انیس کا موضوع تاریخی واقعات میں محدودتھا ۔۔۔ شیکسپیئرکا کمال یہ تھا کہ فرضی واقعات اور موہوم کرداروں کی ایسی پیچیدہ تعمیرو تخلیق کی جو واقعی صورت حال اور حقیقی شخصیتوں سے متوقع ہے ۔۔۔ انیس کا کمال یہ ہے کہ تاریخ کے متحجرواقعات اور سوانح و سیر کے سادہ خاکوں میں زندگی کا رنگ بھر کراس طرح نگاہوں کے سامنے پیش کر دیا کہ نہ صرف سامع و قاری کے توقعات بدرجۂ اتم پورے ہوں بلکہ اِنہیں اُن واقعات وشخصیات کو بچشمِ خود دیکھنے کا احساس ہونے لگے ۔۔۔ اس وقت شیکسپئر کے ڈراموں ۔۔۔ وغیرہ سے اردو مرثیوں کا موازنہ مقصود نہیں ہے بلکہ صرف اتنا کہنا چاہتاہوں کہ عالمی ادب کے ان کارناموں کے مقابل اردو میں اگر کوئی چیز ہے تو میر انیس کے مرثیے ہیں۔"[
میر انیسؔ کی مرثیہ خوانی (تحت اللفظ خوانی)[
میر انیس ایک اعلیٰ سخنور ہونے کے علاوہ نہایت خوش آواز بھی تھے۔ نقوش کے میر انیس نمبر میں روایت نقل ہے کہ لکھنؤ کے ایک بزرگ سید محمد جعفر مرثیہ خوان تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ
میں نے بچپن میں میر انیس کو با رہا مرثیہ خوانی کرتے ہوئے سنا ہے۔ انیس کی آواز میں جو دلکشی تھی وہ کسی انسان کا تو کیا ذکر، کسی خوش الحان پرند اور باجے کی آواز میں بھی نہیں ہے۔ جب کبھی وہ بے تکلّف احباب کی صحبت میں بند کمرے کے اندر اپنے دادا میر حسن کی مثنوی پڑھتے تھے تو راہ گیر کھڑے ہو کے دیر دیر تک سنا کرتے تھے۔
منبر پہ مرثیہ تحت اللفظ میں پڑھنے میں بھی میر انیس کی مثل کوئی دوسرا نہ بن سکا۔ انیس پر لکھی گِئی کتب میں اس شانِ ادائیگی کا تذکرہ کئی راویوں کی زبان سے نقل ہوا ہے۔ کتاب واقعاتِ انیس میں علی مرزا پٹنے کا بیان ہے کہ وہ انیس کے متواتر سننے والوں میں سے تھے اور انیس بہ کمالِ توجّہ منبر سے انہیں مخاطب بھی کیا کرتے تھے۔ وہ کہتے ہیں:
’’جب وہ مرثیے کا کوئی مقامِ رقّت انگیز پڑھتے تھے تو جوشِ رقت میں خود بھی بے چین ہو جایا کرتے تھے۔ ضبطِ گریہ کی غرض سے نیچے کے ہونٹ کو دانتوں سے دبا لیتے تھے جس سے داہنی جانب کا رخسار متحرّک ہو جاتا تھا۔‘‘
مولانا محمد حسین آزاد نے انیس کو لکھنؤ میں خود دیکھا تھا۔ آبِ حیات میں انہوں نے انیس کے لیے لکھا ہے:
کمال اور کلام کی کیا کیفیت بیان کروں۔ محویت کا عالم تھا وہ شخص منبر پر بیٹھا پڑھ رہا تھا اور معلوم یہ ہوتا تھا کہ جادو کر رہا ہے۔ انیس کی آواز، اُن کا قد و قامت اُن کی شکل وصورت کا انداز غرض ہر شے مرثیہ خوانی کے لیے ٹھیک اور موزوں واقع ہوئی تھی۔
مولوی عبد الحلیم شرر گزشتہء لکھنؤ میں لکھتے ہیں کہ:
میر انیس نے مرثیہ گوئی کے ساتھ مرثیہ خوانی کو بھی ایک فن بنا دیا۔
بیسویں صدی کے مرثیہ نگار شاعرجوش ملیح آبادی نے میر انیس کے لیے کہا:
تیری ہر موجِ نفَس روح الامیں کی جان ہے
تُو مِری اردو زباں کا بولتا قرآن ہے

 (صنفِ نظم: مرثیہ، مسدس)
شاعر: میر ببر علی انیس

شاعر میر ببر علی انیس کے اندازِ کلام کی چند خصوصیات:
1: مرثیہ گوئی:  میر انیس نے بھی عام مرثیہ گو شاعروں کی طرح مبالغہ آرائی سے کام لیا ہے۔ مگر ان کے مرثیوں کی خوبی یہ ہے کہ  لوگ اس کو سچ ماننے لگے۔
2: منظر کشی:    میر انیس کو واقعات کی منظر کشی پر کمال حاصل ہے۔ انکا پُر سوز انداز  مناظر کو بھی درد کی تصویر بنا دیتا ہے۔
3:تشبیہات اور استعارات: میر انیس نے  اپنے کلام میں  تشبیہات اور استعارات کا استعمال بہترین طریقے سے کیا ہے۔

نظم صبح کا منظر کا مرکزی خیال: 
 رات کے بعد صبح کے آغاز پر جو آسمان پر تبدیلیاں ظاہر ہوتی ہیں اُن کی شاعر نے نہایت دلکش انداز میں منظر کشی کرتے ہوئے  میدانِ کربلا میں مہکتی صبح کی پاکیزگی کو ہر صبح سے جُدا کر دیا ہے۔ نیز بہتریں استعارات اور تشبیہات کے ذریعے میدانِ کربلا کو چاند ، ستاروں اور کہکشاؤں کے ساتھ ملا دیا ہے۔
نظم صبح کا منظر کی تشریح: 
بند نمبر :١
یوں گلشنِ فلک سے    ستارے ہوئے رواں              چُن لے چمن سے پھولوں کو جس طرح     باغباں
آئی   بہار   میں   گلِ  ماہتاب    پُر      خزاں             مرجھا  کے     گر گئے            ثمر و شاخ ِ   کہکشاں
دکھلائے  طَور بادِ سحر  نے سموم کے
پژ مردہ ہو کے رہ گئے غنچے نجوم کے
مشکل الفاظ کے معانی:  
الفاظ
معانی
الفاظ
معانی
الفاظ
معانی
الفاظ
معانی
 گلشن
باغ
ثمر
پھل
بادِ سحر
صبح کی ہوا
غنچے
کلیاں
باغباں
مالی
کہکشاں
ستاروں کا جھرمٹ
سُموم
لُو، گرم ہوا
نجوم
ستارے
مہتاب
چاند
طَور
طریقہ، قسم
پژ مردہ
مایوس، مرجھائے ہوئے



حوالہ: یہ بند میر ببر علی انیسؔ کی نظم صبح کا منظر سے لیا گیا ہے۔ یہ نظم ایک مرثیہ ہے۔
بند کا مفہوم : اس بند میں شاعر نے  میدانِ کربلا میں طلوعِ صبح کی منظر کشی کی ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ صبح کے شروع ہوتے ہی آسمان پر چمکتے چاند ستاروں کی بہار بھی خزاں میں تبدیل ہونے لگی تھی۔ اور ایسا لگ رہا تھا جیسے کسی مالی نے باغ سے تمام خوش نما اور خوبصورت پھولوں کو چُن لیا  ہو۔ ستاروں کا جھرمٹ آہستہ آہستہ اس طرح غائب ہو رہا تھا جیسے باغ کے پھل اور شاخیں مُرجھا کر گِر گئی ہوں۔ زمین پر بھی صورتحال تبدیل ہو چکی تھی۔ صبح کی تازہ ہوا کی ٹھنڈک اب گرم ہو رہی تھی۔  صبح کے نور کی وجہ سے غائب ہوتے ستارے بند کلیوں کی طرح مرجھائے دکھائی دے رہے تھے۔ ہر طرف  مایوسی پھیل گئی تھی۔
حسنِ بیان:   اس بند میں شاعر نےمیدانِ کربلا کی صبح کی انتہائی دلکش انداز میں  منظر کشی کی ہے۔
بند نمبر: 2
چھپنا وہ ماہتاب کا وہ صبح کا ظہور          یادِ خدا     میں زمزمہ پردازیِ     طُیور
وہ رونق اور وہ سرد ہوا وہ فضا وہ نور              خُنکی ہو جس سے چشم کو اور قلب کو سرور
انسان زمیں پہ محو  مَلَک آسمان پر
جاری تھا ذکرِ قدرتِ حق ہر زبان پر
مشکل الفاظ کے معانی:  
الفاظ
معانی
الفاظ
معانی
الفاظ
معانی
الفاظ
معانی
مہتاب
چاند
زمزمہ پرداز
سُریلے گیت گانے والے
چشم
آنکھ
محو
مصروف
ظہور
ظاہر ہونا
طُیور
پرندے
قلب
دِل
مَلَک
فرشتے
زمزمہ
ترانہ، گیت، نغمہ
خُنکی
ٹھنڈک
سرور
خوشی



حوالہ: یہ بند میر ببر علی انیسؔ کی نظم صبح کا منظر سے لیا گیا ہے۔ یہ نظم ایک مرثیہ ہے۔
بند کا مفہوم : اس بند میں شاعر نے  میدانِ کربلا میں طلوعِ صبح کی منظر کشی کی ہے۔ شاعر کہتا ہے  کہ رات کے جاتے ہی چاند چھُپ گیا تھا اور صبح کا اُجالا پھیل رہا تھا۔ زمین پر  تمام پرندے  خُدا کی یاد میں گیت گا رہے تھے۔ صبح کی تازہ  ٹھنڈی ہوا سے فضا پُر رونق تھی۔  یہ ایسا ماحول تھا کہ جس سے آنکھوں کو ٹھنڈک اور دل کو سکون مل رہا تھا۔ زمین پر انسان  خُدا کی عبادت کررہے تھے اور آسمان پر فرشتے اللہ کا ذکر کر رہے تھے۔ الغرض ہر چیز اپنے مالکِ حقیقی کی یاد میں مصروف تھی اور اسکی عبادت کر رہی تھی۔
حسنِ بیان:   اس بند میں شاعر نےمیدانِ کربلا کی صبح کی انتہائی دلکش انداز میں  منظر کشی کی ہے۔

بند نمبر: 3
وہ سُرخی شفق  کی  اُدھر  چرخ  پر  بہار         وہ  بار وَر درخت  وہ صحرا وہ سبزہ زار
شبنم کے وہ گلوں پہ  گہر ہائے آبدار       پھولوں سے بھرا  ہوا دامانِ کوہسار
نافے کھلے ہوئے تھے  وہ گُلوں کی شمیم کے
آتے تھے سرد سرد    وہ جھونکے نسیم کے
مشکل الفاظ کے معانی: 
الفاظ
معانی
الفاظ
معانی
الفاظ
معانی
الفاظ
معانی
چرخ
آسمان
صحرا
ریگستان، ویرانہ
شفق
افق پر دکھائی دینے والی سرخی
نافے
مشک(خوشبو) کی تھیلیاں
بار ور
پھلدار
سبزہ زار
سرسبز میدان
شبنم
اَوس کے قطرے
شمیم
مہک ، خوشبو
حوالہ: یہ بند میر ببر علی انیسؔ کی نظم صبح کا منظر سے لیا گیا ہے۔ یہ نظم ایک مرثیہ ہے۔
بند کا مفہوم : اس بند میں شاعر نے  میدانِ کربلا میں طلوعِ صبح کی منظر کشی کی ہے۔ شاعر کہتا ہے  کہ جونہی صبح ہوئی افق پر سُرخ رنگ پھیل گیا تھا۔ جس کی وجہ سے نہ صرف آسمان  بلکہ زمین پر موجود ہر درخت خواہ وہ ریگستانی ہو یا سرسبز میدانوں والا ، بہار کا منظر پیش کر رہا تھا۔اَوس کے قطرے پتوں اور پھولوں پر پڑے موتیوں کی طرح چمک رہے تھے۔ صبح کی روشنی میں پہاڑوں  وادیاں پھولوں سے بھری ہوئی دکھائی دے رہی تھیں۔ ہر طرف  پھولوں کی خوشبو اور مہک پھیلی ہوئی تھی۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے کسی نے مُشک کی تھیلیاں کھول دی ہوں۔ ہر طرف ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔
حسنِ بیان:   اس بند میں شاعر نےمیدانِ کربلا کی صبح کی انتہائی دلکش انداز میں  منظر کشی کی ہے۔
بند نمبر: 4
تھی دشتِ کربلا  کی زمین رشک آسماں          تھا  دور دور تک شبِ ماہتاب کا سماں
چھٹکے ہوئے ستاروں کا ذروں   پہ تھا گُماں      نہرِ فرات بیچ میں تھی مثلِ کہکشاں
سرسبز جو درخت تھا وہ نخل ِ طور  تھا
صحرا کے ہر نہال کا سایہ بھی نور تھا
مشکل الفاظ کے معانی:  
الفاظ
معانی
الفاظ
معانی
الفاظ
معانی
الفاظ
معانی
دشت
ویرانہ ، جنگل
سماں
منظر
نہرِ فرات
عراق کا دریائے فرات
نہال
خوشحال، کامیاب،
رشک
حسد، جلن، کسی کے برابر ہونے کی خواہش
چھٹکے ہوئے
پھیلے ہوئے
مثل
مثال، کی طرح
نہال
چھوٹا درخت، پودا
حوالہ: یہ بند میر ببر علی انیسؔ کی نظم صبح کا منظر سے لیا گیا ہے۔ یہ نظم ایک مرثیہ ہے۔
بند کا مفہوم : اس بند میں شاعر نے  میدانِ کربلا میں طلوعِ صبح کی منظر کشی کی ہے۔ شاعر کہتا ہے  کہ میدانِ کربلا کی زمین اتنی خوبصورت لگ رہی تھی کہ آسمان بھی اس پر رشک کر رہا تھا اور اس کی برابری کی خواہش کر رہا تھا۔ اس ویرانے میں صبح ہو جانے کے بعد  بھی ایسا لگتا تھا کہ جیسے  چاندنی رات کامنظر ہو۔ میدانِ کربلا کی ریت کے ذرے ستاروں کی مانند چمک رہے تھے۔  دریائے فرات کا پانی اس  طرح چمک رہا تھا جیسے ستاروں کا جھرمٹ  پانی کی سطح پر اتر آیا ہو۔ شاعر کہتا ہے کہ کربلا کا ہر درخت  طور پہاڑ پر  واقع  اُس بابرکت درخت کی مانند تھا ، جس کے نیچے حضرت موسیٰ ؑ نے خدا سے کلام کیا تھا۔   چھوٹے سے چھوٹے سے پودوں کے سایے بھی بابرکت اور پُر نور تھے۔
حسنِ بیان:   اس بند میں شاعر نےمیدانِ کربلا کی صبح کی انتہائی دلکش انداز میں  منظر کشی کی ہے۔

جماعت نہم تا جماعت دوازدہم

 یہ سوال  اے کے یو ای بی کے سالانہ امتحان  ۲۰۱۱ جماعت نہم  کے اپردو کے پرچے میں ٓآیا تھا