نظیر اکبر آبادی کا مختصر تعارف اور شامل نصاب نظم
" برسات کا تماشا" کی تشریح
نظیر
اکبر آبادی کا نام شیخ ولی محمد تھا۔ نظیر
تخلص رکھ کر شاعری کی۔ (1746 میں دلی میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کا نام محمد فاروق
تھاجو اپنے والدکی بارہ اولادوں میں سے صرف ایک ہی بچے تھے۔ ابھی چھوٹے ہی تھے کہ
والدہ کے ساتھ آگرہ منتقل ہو گئے اور محلّہ تاجج گنج میں مقیم ہوئے۔ ایک مکتب سے عربی اور فارسی کی تعلیم حاصل کی۔ طبیعت میں موزونیت
فطرت سے ملی تھی اس لیے شاعری شروع کی۔ نظیر ایک سادہ اور صوفی منش آدمی تھے، ان کی
ساری عمر معلمی میں بسر ہوئی۔ وہ قناعت پسند تھے، بھرت پور کے حکمرانوں نے دعوت
نامے بھیجے پر انہوں نے قبول نہ کیے۔ وہ کسی دربار سے وابستہ نہیں ہوئے، آخری عمر
میں فالج کی حالت میں مبتلا ہوئے اور 1830ء میں انتقال کرگئے۔ آپکا مزار دہلی میں ہے۔ اردو کی نئ کتاب ہائ
اسکول(اترپردیش)نصاب میں شامل کتاب میں نظیر صاحب کی تاریخ پیدائش کے بارے ميں
اختلاف کے ساتھ 1732/1735 لکھا گیا ہے۔ملاحظہ ہو۔
شاعری
نظیر
اکبر آبادی کی شاعری اپنی علاحدہ دنیا رکھتی تھی۔ انہوں نے میر وسودا کی بہارسخن بھی دیکھی اور دبستان لکھنؤ کی جوانی کا نکھار بھی لیکن ان کی
آزاد منشی اور منفرد رنگ طبیعت نے انہیں کسی دبستان کا پابند نہیں ہونے دیا۔ آپکو
آٹھ زبانوں پر عبور تھا۔ عربی فارسی اردو پنجابی بھاشا مارواڑی پوربی اور ہندی۔..
عوامی شاعر
نظیر
اکبر آبادی کو بجا طور پر اردو کاپہلا عوامی شاعر تسلیم کیا جاسکتا ہے وہ زندگی کے
ہر پہلو پر گہری دلچسپی سے غور کرتے، شدت سے محسوس کرتے اور پھر اسے شاعری کا جامہ
پہنا دیتے۔ وہ عوام کے شاعر تھے اور انھیں کے مسائل کو اپنی شاعری کا موضوع بناتے۔
عوامی رنگ رلیوں، چہل پہل، تفریح وغیرہ میں شوق و ذوق سے شریک ہوتے۔ اردو کے دوسرے
شعرا کے یہاں فلسفہ ہے، تغزل ہے۔ لفظی و معنوی صنائع ہیں۔ جن سے اہل علم لطف اندوز
ہوتے ہیں لیکن ان پڑھ انہیں سمجھ نہیں پاتے کیونکہ ان میں عوام کے دلوں کی دھڑکنیں
نہیں ہوتیں۔ نظیر عوام کے شاعر تھے نیز وہ خالص ہندوستانی شاعر تھے۔ وہ ہندو مسلمان سب کے غم و ماتم میں شریک ہوتے۔ عید، شب برات، ہولی، دیوالی، دسہرہ غرض ہر تہوار پر نظمیں لکھتے تھے۔ ایک
طرف خواجہ معین الدین چشتی کی تعریف کرتے تو دوسری طرف گرونانک کو بھی نذرعقیدت پیش کرتے ہیں۔ آپکو
لسان العصر عوامی شاعر
اردو
شاعری کا چاسر اور اردو کا شکیسپیر بھی کہا گیا۔.
نظم : برسات کا تماشا
(صنفِ نظم: مخمس)
شاعر: نظؔیر اکبر آبادی
شاعرنظیر اکبر آبادی کے اندازِ کلام کی چند خصوصیات:
1: فطرت کی مصوری: نظیر اکبر آبادی ایک نئے اور منفرد کلام کے موجد ہیں۔ ان کی شاعری گویا فطرت کی مصوری ہے۔ انھوں نے ایسے موضوع پر طبع آزمائی کی ہے، جن کا خیال بھی کسی کے ذہن میں نہیں آیا ۔
2: جذبات کی ترجمانی: نظیر جذبات کی صحیح ترجمانی کرتے ہیں۔ تصنع / بناوٹ اور ریا کاری کا ان کی شاعری میں کوئی سراغ نہیں ملتا۔
3:منظر نگاری : منظر نگاری اور تصویر کشی میں انہیں کمال حاصل ہے۔ موضوع کی مناسبت سے وہ اپنے کلام میں ایسے الفاظ استعمال کرتے جو مناظر کو اپنی خوبصورتی کے ساتھ اپنی آنکھوں کے سامنے لاتے ہیں۔
4: موسیقیت: ان کی شاعری میں موسیقیت پائی جاتی ہے۔ نظیر نےمٹھاس اور روانی کے حامل الفاظ کا انتخاب کیا ہے۔
4: موسیقیت: ان کی شاعری میں موسیقیت پائی جاتی ہے۔ نظیر نےمٹھاس اور روانی کے حامل الفاظ کا انتخاب کیا ہے۔
نظم برسات کا تماشا کا مرکزی خیال:
سخت گرمی سے نڈھال مخلوقِ خدا کو جب موسمِ برسات میں ابرِ رحمت نصیب ہوتی ہے، تو سب خوشی سے سرشار ہو جاتے ہیں۔ ہر طرف قدرت کا حُسن دکھائی دینے لگتا ہے۔ ہر طرف زمین سبزے سے ڈھک جاتی ہے۔ درخت اور پودے دھُل کر نکھر جاتے ہیں۔ حیوان اور چرند پرند بھی اس موسم سے خوش ہو جاتے ہیں۔ اور طرح طرح سے ناچ گا کر اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔
سوال: نظیر اکبر آبادی کو عوامی شاعر کیوں کہا جاتا ہے ، دو نکات تحریر کریں۔
جواب:
1:نظیر نےعوام کے جذبات کی صحیح ترجمانی کرتے ہوئے ان کے روز مرہ مسائل کی نشاندہی کی ہے۔ بے پردگی سے لے کر غربت تک کو موضوع بنایا ہے۔
2:نظیر نے ایک نئے اور منفرد طرزِ کلام کے ذریعےاپنے ملک کے ہر چھوٹے سے چھوٹے مسئلے پر آواز اٹھائی، جیسے آدمی نامہ۔
سوال: نظیر اکبر آبادی کو عوامی شاعر کیوں کہا جاتا ہے ، دو نکات تحریر کریں۔
جواب:
1:نظیر نےعوام کے جذبات کی صحیح ترجمانی کرتے ہوئے ان کے روز مرہ مسائل کی نشاندہی کی ہے۔ بے پردگی سے لے کر غربت تک کو موضوع بنایا ہے۔
2:نظیر نے ایک نئے اور منفرد طرزِ کلام کے ذریعےاپنے ملک کے ہر چھوٹے سے چھوٹے مسئلے پر آواز اٹھائی، جیسے آدمی نامہ۔
مشکل الفاظ کے معانی:
نظم برسات کا تماشا کی تشریح:
معانی
|
الفاظ
|
معانی
|
الفاظ
|
معانی
|
الفاظ
|
معانی
|
الفاظ
|
بہت زیادہ بارش ہونا
|
چھاجوں برسنا
|
بلند آواز
|
کُوک
|
پہاڑ
|
کوہ
|
سورج
|
خورشید
|
جنگلی جانور اور پرندے
|
وحش و طیور
|
بارش کی ہلکی آواز
|
رِم جھِم
|
ویرانہ
|
دشت
|
قیمت
|
مول
|
شور، غُل
|
غوغا
|
لگاتار بارش ہونا
|
جھڑی لگانا
|
بادل، بارش
|
میگھ
|
دولت
|
زر
|
کوئل
|
کوکِلا
|
بوندیں
|
پھُہار
|
کالے بادل
|
گھٹا
|
بستی، علاقہ
|
نگر
|
آوازیں لگائیں/ گیت گائیں
|
چنگاریں
|
پرنالہ
|
اَولتی
|
بجلی کی کڑک
|
رعد
|
ہندی کا چوتھا مہینہ
برسات کا پہلا مہینہ
|
اساڑھ
|
نظم برسات کا تماشا کی تشریح:
بند نمبر :1
خورشید گرم ہو کر نکلا ہے اپنے گھر سے لیتا ہے مول بادل کر کر تلاش زر سے
آئی ہوا بھی لے کر بادل کو ہر نگر سے آدھے اساڑھ تو اب دشمن کے گھر سے برسےآ یار چل کے دیکھیں ، برسات کا تماشا
حوالہ: یہ بند نظیر ؔ اکبر آبادی کی نظم "برسات کا تماشا" سے لیا گیا ہے۔ اس میں شاعر برسات کے موسم کی منظر کشی کر رہے ہیں۔
تشریح: اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ موسم برسات شروع ہو گیا ہے مگر ابھی تک بارش نہیں ہوئی ہے۔ سورج پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا ہے ۔ لوگ گرمی سے بیحال ہیں اور بارش کا انتظار کر رہے ہیں۔ اللہ کاشکر ہے کہ اب ہوا چل پڑی ہے اور مختلف علاقوں سے بادلوں کو جمع کر کے لا رہی ہے۔ برسات کا آدھا مہینہ گزر چکا ہے اور اب تک بارش پرائے دیس میں ہی ہوتی رہی ہے۔ لیکن اب بارش کے آثار دکھائی دے رہے ہیں۔ آؤ دوست ہم مل کر برسات میں ہونے والی اس رحمت کی بارش کا لطف اُٹھائیں۔
حسنِ بیان: اس بند میں شاعر نے خوبصور ت انداز میں برسات کی آمد کی منظر کشی کی ہے۔
بند نمبر :2
قاصدصبا کے دوڑے ہر طرف منہ اٹھا کر ہر کوہ و دشت کو بھی کہتے ہیں یوں سنا کر
ہاں سبز جوڑے پہنو ہر دم نہا نہا کر کوئی دم کو میگھ راجا دیکھے گا سب کو آکر
آ یار چل کے دیکھیں ، برسات کا تماشا
حوالہ: یہ بند نظیر ؔ اکبر آبادی کی نظم "برسات کا تماشا" سے لیا گیا ہے۔ اس میں شاعر برسات کے موسم کی منظر کشی کر رہے ہیں۔
تشریح: اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ موسم برسات شروع ہو گیا ہے۔ مون سون کی ہوائیں بارش کا پیغام لا رہی ہیں اور پہاڑوں اور جنگلوں کو یہ کہہ رہی ہیں کہ ابھی بادلوں کا بادشاہ آنے والا ہے یعنی بارش ہونے والی ہے۔ہر پیاسے کی پیاس بجھے گی اور خوب بارش ہوگی ۔ ہر طرف سبزہ و ہریالی ہوگی۔ آؤ دوست ہم سب مل کر برسات میں ہونے والی اس رحمت کی بارش کا لطف اُٹھائیں۔
حسنِ بیان: اس بند میں شاعر نے خوبصور ت انداز میں برسات کی آمد کی منظر کشی کی ہے۔
بند نمبر :3
ساون کے بادلوں سے پھر آ گھٹا جو چھائی بجلی نے اپنی صورت پھر آن کر دکھائی
ہو مست رعد گرجا ، کوئل کی کُوک آئی بدلی نے کیا مزے کی رم جھم جھڑی لگائی
آ یار چل کے دیکھیں ، برسات کا تماشا
حوالہ: یہ بند نظیر ؔ اکبر آبادی کی نظم "برسات کا تماشا" سے لیا گیا ہے۔ اس میں شاعر برسات کے موسم کی منظر کشی کر رہے ہیں۔
تشریح: اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ برسات کے کالے بادل ہر طرف آسمان پر چھا گئے ہیں۔ بجلی بھی چمک رہی ہے اور بادل بھی خوب گرج رہے ہیں۔ گرمی کے ستائے سب لوگ خوش ہو گئے ہیں ۔ کوئل بھی بھی اپنی سریلی آواز میں گیت گانے لگی ہے۔ ہلکی ہلکی بارش شروع ہو گئی ہے۔آؤ دوست ہم سب مل کر برسات میں ہونے والی اس رحمت کی بارش کا لطف اُٹھائیں۔
بند نمبر :٤
آکر کہیں مزے کی ننھی پُھہار برسے چیزوں کا رنگ چھٹ کر حسن و نکھار برسے
اک طرف اَولتی کی باہم قطار برسے چھاجوں اُمڈ کے پانی موسل کی دھار برسے
اک طرف اَولتی کی باہم قطار برسے چھاجوں اُمڈ کے پانی موسل کی دھار برسے
آ یار چل کے دیکھیں ، برسات کا تماشا
حوالہ: یہ بند نظیر ؔ اکبر آبادی کی نظم "برسات کا تماشا" سے لیا گیا ہے۔ اس میں شاعر برسات کے موسم کی منظر کشی کر رہے ہیں۔
تشریح: اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ بارش کے قطروں نے ہر چیز پر پڑے غُبارکو دھو کر صاف شفاف کر دیا ہے، انکا اصل رنگ روپ نکل آیا ہے اور ان سب کی خوبصورتی نمایاں ہو گئی ہے۔ تیز بارش کے سبب چھتوں سے پانی پرنالوں سے گرنا شروع ہو گیا ہے۔یعنی موسلا دھار بارش ہو رہی ہے۔آؤ دوست ہم سب مل کر برسات میں ہونے والی اس رحمت کی بارش کا لطف اُٹھائیں۔
حسنِ بیان: اس بند میں شاعر نے خوبصور ت انداز میں برسات کی آمد کی منظر کشی کی ہے۔
بند نمبر :٥
ہر کوہ کی کمر تک سبزہ ہے لہلہاتا برسے ہے مینه جھڑا جھڑ، پانی بہا ہے جاتا
وحس وطیور ہر اک ، مل مل کے ہے نہاتا غوغا کریں ہیں مینڈک ، جھینگر ہے غُل مچاتا
وحس وطیور ہر اک ، مل مل کے ہے نہاتا غوغا کریں ہیں مینڈک ، جھینگر ہے غُل مچاتا
آ یار چل کے دیکھیں ، برسات کا تماشا
حوالہ: یہ بند نظیر ؔ اکبر آبادی کی نظم "برسات کا تماشا" سے لیا گیا ہے۔ اس میں شاعر برسات کے موسم کی منظر کشی کر رہے ہیں۔
تشریح: اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اللہ کی رحمت کی بارش ہو گئی ہے۔ ہر طرف سبزہ و ہریالی دکھائی دے رہی ہے۔ لگاتار بارش برس رہی ہے، ہر طرف پانی بہتا جا رہا ہے۔ تمام جانور اور پرندے جو گرمی کے ستائے ہوئے تھے اس پانی میں خوب نہا رہے ہیں اور اپنے جسم کی گرمی اور مَیل دور کر رہے ہیں۔ مینڈک بھی خوشی سے ٹرا رہے ہیں اور چھوٹے کیڑے مکوڑے بھی خوشی سے شور مچا رہے ہیں۔ آؤ دوست ہم سب مل کر برسات میں ہونے والی اس رحمت کی بارش کا لطف اُٹھائیں۔
حسنِ بیان: اس بند میں شاعر نے خوبصور ت انداز میں برسات کی آمد کی منظر کشی کی ہے۔
بند نمبر :٦
کالی گھٹا ہے ہر دم برسے ہیں مینھ کی دھاریں اور جس میں اُڑ رہی ہیں بگلوں کی سو قطاریں
کوئل پپیہے کوکیں اور کُوک کر پُکاریں اور مور مست ہو کر جوں کُو کِلا چنگاریں
کوئل پپیہے کوکیں اور کُوک کر پُکاریں اور مور مست ہو کر جوں کُو کِلا چنگاریں
آ یار چل کے دیکھیں ، برسات کا تماشا
حوالہ: یہ بند نظیر ؔ اکبر آبادی کی نظم "برسات کا تماشا" سے لیا گیا ہے۔ اس میں شاعر برسات کے موسم کی منظر کشی کر رہے ہیں۔
تشریح: اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ موسم برسات کی بارش شروع ہے۔ کالے بادل چھائے ہوئے ہیں۔ خوب زوروں کی بارش ہو رہی ہے۔ اس بارش میں خوشی سے بگلے قطاریں بنائے اُڑ رہے ہیں۔ نہ صرف کوئل بلکہ پپیہے بھی خوشی سے گیت گا رہے ہیں۔ مور بھی خوشی میں مدہوش ہو کر کوئل کی طرح گانے لگےہیں۔ آؤ دوست ہم سب مل کر برسات میں ہونے والی اس رحمت کی بارش کا لطف اُٹھائیں۔
حسنِ بیان: اس بند میں شاعر نے خوبصور ت انداز میں برسات کی آمد کی منظر کشی کی ہے۔