November 15, 2019

سر سیر احمد خان کا تعارف اور تحریر کی خصوصیات ( تالیف : شمس الحق قمر AKESP GB


سر سید احمد خان ۔ حالات زندگی  اور طرز تحریر کی خصوصیات   ( تالیف  : شمس الحق قمر ؔ AKESP, GB )   

ابتدائی زندگی
سرسید احمد خان 17 اکتوبر 1817ء میں دہلی میں پیدا ہوئے۔ آباؤ اجداد شاہ جہاں کے عہد میں ہرات سے ہندوستان آئے۔ دستور زمانہ کے مطابق عربی اور فارسی کی تعلیم حاصل کی۔ آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے نانا خواجہ فرید الدین احمد خان سے حاصل کی۔ ابتدائی تعلیم میں آپ نے قرآن پاک کا مطالعہ کیا اور عربی اور فارسی ادب کا مطالعہ بھی کیا۔ اس کے علاوہ آپ نے حساب، طب اور تاریخ میں بھی مہارت حاصل کی۔ جریدے القرآن اکبر کے ساتھ ساتھ اردو زبان میں ان کے بڑے بھائی نے شہر کے سب سے پہلے پرنٹنگ پریس کی بنیاد رکھی۔ ورژن کی ضرورت سر سید نے کئی سال کے لیے ادویات کا مطالعہ کی پیروی کی لیکن اس نے کورس مکمل نہیں ہے۔
ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ نے اپنے خالو مولوی خلیل اللہ سے عدالتی کام سیکھا۔ 1837ء میں آگرہ میں کمیشنر کے دفتر میں بطور نائب منشی کے فرائض سنبھالے۔ 1841ء اور 1842ء میں مین پوری اور 1842ء اور 1846ء تک فتح پور سیکری میں سرکاری خدمات سر انجام دیں۔ محنت اور ایمانداری سے ترقی کرتے ہوئے 1846ء میں دہلی میں صدر امین مقرر ہوئے۔ دہلی میں قیام کے دوران میں آپ نے اپنی مشہور کتاب "آثارالصنادید1847ء میں لکھی۔ 1857ء میں آپ کا تبادلہ ضلع بجنور ہو گیا۔ ضلع بجنور میں قیام کے دوران میں آپ نے اپنی کتاب "سرکشی ضلع بجنور" لکھی۔ جنگ آزادی ہند 1857ء کے دوران میں آپ بجنور میں قیام پزیر تھے۔ اس کٹھن وقت میں آپ نے بہت سے انگریز مردوں، عورتوں اوربچوں کی جانیں بچائیں۔ آپ نے یہ کام انسانی ہمدردی کے لیے ادا کیا۔جنگ آزادی ہند 1857ء کے بعد آپ کو آپ کی خدمات کے عوض انعام دینے کے لیے ایک جاگیر کی پیشکش ہوئی جسے آپ نے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔
1857ء میں آپ کو ترقی دے کر صدر الصدور بنا دیا گیا اور آپ کی تعیناتی مراد آباد کر دی گئی۔ 1862ء میں آپ کا تبادلہ غازی پور ہو گیا اور 1867ء میں آپ بنارس میں تعینات ہوئے۔
1877ء میں آپ کو امپریل کونسل کارکن نامزد کیا گیا۔ 1888ء میں آپ کو سر کا خطاب دیا گیا اور 1889ء میں انگلستان کی یونیورسٹی اڈنبرا نے آپ کو ایل ایل ڈی کی اعزازی ڈگری دی۔[5] 1864ء میں غازی پور میں سائنسی سوسائٹی قائم کی۔ علی گڑھ گئے تو علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ نکالا۔ انگلستان سے واپسی پر 1870ء میں رسالہ تہذیب الاخلاق جاری کیا۔ اس میں مضامین سرسید نے مسلمانان ہند کے خیالات میں انقلاب عظیم پیدا کر دیا اورادب میں علی گڑھ تحریک کی بنیاد پڑی۔ سرسید کا کارنامہ علی گڑھ کالج ہے۔ 1887ء میں ستر سال کی عمر میں پینش لے لی اوراپنے کالج کی ترقی اور ملکی مفاد کے لیے وقف کریا۔
1869ء میں وہ اپنے بیٹے سید محمود کے ساتھ انگلستان گئے تو وہاں انھیں دو مشہور رسالوں (Tatler) اور (Spectator) کے مطالعے کا موقع ملا۔ یہ دونوں رسالے اخلاق اور مزاح کے خوبصورت امتزاج سے اصلاح معاشرہ کے علم بردار تھے۔ آپ نے مسلمانوں کی تعلیم پر خاص توجہ دی۔ ظرافت اور خوش طبعی فطری طور پر شخصیت کا حصہ تھی۔

سرسید احمد خاں برصغیر میں مسلم نشاتِ ثانیہ کے بہت بڑے علمبردار تھے۔ انہوں نے مسلمانوں میں بیداری علم کی تحریک پیدا کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ وہ انیسویں صدی کے بہت بڑے مصلح اور رہبر تھے۔ انہوں نے ہندوستانی مسلمانوں کو جمود سے نکالنے اور انھیں با عزت قوم بنانے کے لیے سخت جدوجہد کی آپ ایک زبردست مفکر، بلند خیال مصنف اور جلیل القدر مصلح تھے۔ " سرسید نے مسلمانوں کی اصلاح و ترقی کا بیڑا اس وقت اٹھایا جب زمین مسلمانوں پر تنگ تھی اور انگریز اُن کے خون کے پیاسے ہو رہے تھے۔ وہ توپوں سے اڑائے جاتے تھے، سولی پر لٹکائے جاتے تھے، کالے پانی بھیجے جاتے تھے۔ اُن کے گھروں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی تھی۔ اُنکی جائدادیں ضبط کر لیں گئیں تھیں۔ نوکریوں کے دروازے اُن پر بند تھے اور معاش کی تمام راہیں مسدود تھیں۔ وہ دیکھ رہے تھے کہ اصلاح احوال کی اگر جلد کوشش نہیں کی گئی تو مسلمان " سائیس ،خانساماں، خدمتگار اور گھاس کھودنے والوں کے سوا کچھ اور نہ رہیں گے۔ … سر سید نے محسوس کر لیا تھا کہ اونچے اور درمیانہ طبقوں کے تباہ حال مسلمان جب تک باپ دادا کے کارناموں پر شیخی بگھارتے رہیں گے۔۔۔۔ اور انگریزی زبان اور مغربی علوم سے نفرت کرتے رہیں گے اُس وقت تک وہ بدستور ذلیل و خوار ہوتے رہیں گے۔ اُنکو کامل یقین تھا کہ مسلمانوں کی ان ذہنی اور سماجی بیماریوں کا واحد علاج انگریزی زبان اور مغربی علوم کی تعلیم ہے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کی خاطر وہ تمام عمر جِدوجُہد کرتے رہے۔"

سرسید احمد خان کی تحریر کی خصوصیات
ابتدائیہ:
 سر جیمس لائل رقم طراز ہیں: BRATANICA انسائیکلوپیڈیا براٹانیکا
سرسید کی نثر اردو خیال کی اشاعت کا آلہ ہے جس میں انہوں نے اس وقت کام لیا جب نثر اردو کا حقیقی وجود نہ تھا اور اس کو اس طرح بنایا اور برتا کہ اس کی نظیر ملنا مشکل ہے” ۔
سرسید کی اردو کے لئے کاوشوں کو جیمس لائل نے جن الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا یقینا ً وہ اس کے مستحق ہیں اور اردو ادب کی تاریخ میں یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ سرسید کے اثرات پورے ادبی ماحول و فضا پر چھائے ہوئے ہیں۔موضوع، مواد اور ہیبت کے اعتبار سے وہ اپنے زمانے کے “امام” ہیں۔ سرسید کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے اردو زبان کو ایک نیا اسلوب عطا کیا ۔ یہ ان ہی کی کاوشوں کا نتیجہ تھا کہ ایک صدی کے قلیل عرصے میں اردو ادب کہیں کا کہیں پہنچ گیا۔
بقول مولوی عبدالحق!
’’سرسید نے اُردو ادب کے قالب میں نئی روح پھونکی اور اردو ادب میں ایک انقلاب برپا کردیا۔ اس نے زبان کو پستی سے نکالا، بیان میں سادگی کی قوت پیدا کی اور سنجیدہ مضامین کا ڈول ڈالا۔‘‘
طرز تحریر کی خصوصیات
سرسید احمد خان کی نثر نگاری کی نمایاں خصوصیات درج ذیل ہیں:
انفرادیت:
سرسید احمد خان اردو ادب کی وہ منفرد شخصیت ہیں کہ جنہوں نے ہمارے روایتی ادب(جس میں نثر اور شاعری دونوں شامل ہیں) کے خلاف علم بغاوت بلند کیا اور اردو ادب کو مقصدیت سے ہمکنار کیا۔  سرسید کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے دور کے نامور ادبیوں کو اس بات پر مجبور کیا کہ وہ ایک ایسا ادب تخلیق کریں جو موجودہ دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو چنانچہ سرسید بذات خود ایک “دبستان” ہیں ۔ انہوں نے اور ان کے رفقائے کار کا جن میں حالی ، نذیر، آزاد اور شبلی شامل ہیں۔  اردو کو دنیا کی ترقی یافتہ زبانوں کی صف میں لاکھڑا کیا۔
علامہ شبلی نعمانی اپنے مضمون”سرسیدمرحوم اور اردو لٹریچر ” میں لکھتے ہیں کہ:-
سرسید کی بدولت آج اردو اس قابل ہوئی کہ اس کو عشق و عاشقی کے دائرے سے نکال کر ملکی، سیاسی، معاشرتی ، اخلاقی اور تاریخی غرض ہر طرح کے مضامین اس خوش اسلوبی ، زو داثر، وسعت ، جامعیت، سادگی اور صفائی سے بیان کرسکتی ہے کہ خود اس کے استاد یعنی فارسی زبان کو یہ بات نصیب نہ ہوئی”۔
۳ بے ساختگی و بے تکلفی:
مولانا حالی “حیات جاوید” میں لکھتے ہیں:
سرسید نے جو کچھ لکھا ہے، بے قرارانہ لکھا ہے، بے تانہ لکھا ہے، اور ایسے  ہی ہے جیسے کہ کسی کے گھر میں آگ لگی ہو اور وہ لوگوں کو مدد کے لئے پکاررہا ہو، ایسے میں الفاظ کی ترتیب کا خیال نہیں رکھا جاتا ۔ چونکہ ان کے پاس ایک دعوت تھی اور اس دعوت کے لئے انہیں جو بھی الفاظ ملے، استعمال کردیئے”۔
 سرسید کی تمام تحریریں، بے ساختگی و بے تکلفی کا حسین امتزاج ہے وہ اپنی تحریروں میں لفظوں کی خوبصورتی، فقروں کی ہم آہنگی اور لسانی قواعدکی پابندی کاکوئی خیال نہیں رکھتے، انہوں نے دوسرے لکھنے والوں کو بتایا کہ نثر میں ہر طرح کے مضامین خوش اسلوبی سے بیان کئے جاسکتے ہیں۔
۴مقصدیت:
سرسید کا کہنا ہے:
ایک اچھا ادیب وہی ہے جو کسی مقصد کے تحت لکھے۔
سرسید کے تمام “مقصدی” ہیں۔ انہوں نے شوقیہ کتاب نہیں لکھی۔ بلکہ ان کی تحریروں کا مقصداصلاح اعمال و اخلاق، اشاعت تعلیم، اور فلاح قوم و مذہب ہے ۔ ادب کے متعلق سرسید کا نظریہ “افادی” ہے۔ اسی وجہ سے حالی نے انہیں ایک “ریفارمر” کہا ہے اور حقیقت میں وہ ایک مجلس اور مذہبی “ریفارمر” تھے۔
حامد افسر کہتے ہیں:-
اردو میں سرسید کے زمانے سے افادیت اور مقصدیت ادب کے لئے ضروری قرار دی گئی ہے۔
سادگی و سلاست:
سرسید خود رقم طراز ہیں:-
جہاں تک ہم سے ہوسکا مضمون کی ادائیگی کا ایک سیدھا اور صاف طریقہ اختیار کیا، الفاظ کی درستگی اوربول چال کی صفائی پر کوشش کی ہے اور لوگوں کو تلقین بھی کی ہے
یہ سرسید کی تحریر کی سب سے نمایاں خوبی ہے ۔زبان کی سادگی اور بیان کی سلاست نے انکی تحریروں کو عوام میں مقبول کروانے میں اہم کردار ادا کیا ، جس سے وہ اپنے مشن میں کامیاب ہوئے۔
تمثیلی انداز:
سرسید احمد خان اردو مضمون نگاری کے بانی سمجھے جاتے ہیں۔ ان یہاں تحریر پر مقصدیت حاوی ہے  ۔ چنانچہ انہوں نے اس مقصدکےحصول کے لئے تمثیلی انداز بھی اختیار کیا ہے۔ سرسید سے پہلے بھی اردو ادب میں یہ انداز تحریر رائج تھا۔     لیکن اس مقصد تفریح و طبع کے سوا اور کچھ نہیں تھا۔ 
ان کے مضمون “امید کی خوشی” سے ایک اقتباس ملاحظہ ہو۔
او! نورانی چہرے والی یقین کی اکلوتی بیٹی،امید یہ خدائی روشنی تیرے ساتھ ہے۔ تو ہی ہمارے مصیبتوں کے وقت میں ہم کو تسلی دیتی ہے، تو ہی ہمارے آڑے وقتوں میں ہماری مدد کرتی ہے۔
اختصار و جامعیت:
اختصار و جامعیت بھی سرسید کے افکار کی ایک نمایاں خوبی ہے۔ و ہ چھوٹے چھوٹے جملوں اور فقروں سے بڑے سے بڑا کام لیتے ہیں۔ انکےمضامین مختصر ہوتے ہیں لیکن اپنے اندر جہانِ معنی پوشیدہ رکھتے ہیں۔ انکے استعمال کردہ الفاظ مختصر ہونے کے باوجود ایٹم بم کی خاصیت رکھتے ہیں۔
بقول مولوی عبد الحق:-
اثر و دل نشینی کے لئے آسان اور چھوٹے الفاظ ہی کام آتے ہیں۔ بعض اوقات آسان اور چھوٹے الفاظ میں ایٹم بم کی سی قوت ہوتی ہے”۔
 جدت پسندی:
سرسید کا عقیدہ تھا کہ ادب کو جدید علوم کی روح سے ہم آہنگ ہونا چاہیے۔ سرسید کے افکار کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ قدیم کے مقابلے میں جدید اور ماضی کے مقابلے میں عہد حاضر سے زیادہ وابستہ ہیں۔ ان کا ذہن جدت پسند تھا اور اسی جدت پسندی کے زیر اثر انہوں نے عہد حاضر کے مسائل کی طرف زیادہ توجہ دی ہے۔
استدلالیت:
سرسید کے افکار میں سب سے زیادہ اہمیت “عقل پسندی” کو حاصل ہے۔ وہ اپنی بات کو قاری سے استدلال کی روشنی میں منوانا چاہتے ہیں۔ انکی تحریروں جا بجا مفکرین کی آراء دانشوروں کے مقولے، قرآن و حدیث کے حوالے اور تاریخی شواہد وغیرہ عام ملتے ہیں۔  وہ چاہتے ہیں کہ ان کی بات عقیدت کے بجائے حقیقت سمجھ کر قبول کی جائے۔ ہمارے نصاب میں شامل “رسم و رواج کی پابندی کے نقصانات”اس کی عمدہ مثال ہے۔
بقول ڈاکٹر سید عبد اللہ :
ان کی تحریرں میں منطقیانہ استدلال پایا جاتا ہےجو ہر قسم کے علمی اور تعلیمی مباحثوں کےلئے موزوں ہے
انگریزی الفاظ کی پیوند کاری:
سرسید خود رقم طراز ہیں:-
دوسری زبان کے الفاظ کو اپنی زبان میں بولنا کبھی عبارت کا لطف بڑھانے کے لئے ہوتا ہے ، کبھی زبان کو وسعت دینے کے لئے اگر کسی زبان میں الفاظ کی گنجائش زیادہ نہ ہوتو وہ زبان مردہ کہلاتی ہے۔
اسی احساس نےسرسید کو اپنی تحریروں میں اردو کے ساتھ ساتھ فارسی، عربی اور انگریزی الفاظ بکثرت استعمال کرنے پر آمادہ کیا۔  ان کی تحریروں میں بہت سے انگریزی الفاظ مثلاً لٹریچر، مورل، سویلائزڈ، نیچرل، اسپرٹ، نیشن اور پارلیمنٹ وغیرہ عام ملتے ہیں۔ مثال کے طور پر وہ ایک جگہ لکھتے ہیں۔
علی گڑھ کے کالج کے اسٹوڈنٹس میں سے ون پرسنٹ بھی نہیں ہے جنہیں ہائی سروسز کے قابل سمجھا جائے۔
مضمون نگاری اور مقالہ نگاری کی ابتداء:
سرسید کے رسالے “تہذیب الاخلاق” سے فن مضمون نگاری اور مقالہ نگاری کا آغاز ہوا ۔ اس کے علاوہ ایک رسالہ ” علی گڑھ انسٹیٹیوٹ گزٹ” کے نام سے جاری کیا۔ ان رسائل نے اردو صفحات میں انقلاب برپا کردیا اور جدید صحافت کی بنیاد پڑی۔ سرسید کو “جدید  صحافت کا بانی ” اور “جدید اردو نثر کا مورث اعلیٰ” تسلیم کیا جاتا ہے۔ آج جو نثر ہمیں علمی، ادبی، سیاسی ، سماجی ، تہذیبی اور مذہبی دنیا میں نظر آتا ہے ، یہ سرسید ہی کا فیضان ہے۔
تبصرہ کچھ میری اپنی ناقص رائے میں:
مندرجہ بالا خوبیوں کے علاوہ انکی تحریروں میں خلوص و سچائی، طنز و ظرافت اور وسعت جیسی خصوصیات شامل ہیں۔ غرض یہ کہ سرسید اردو زبان کے ان محسنین میں سے ہیں جنہوں نے اردو کو بام عروج پر پہنچایا۔جہاں تک ان کے طرز تحریر کا تعلق ہے  ان کی تحریروں نے نثر نگاری کا ایک نیا باب کھولا۔حقیقت پسندی اور واقعہ نگاری کی بنیاد ان ہی کے مثبت قلم سے پڑی۔ان   کے اس اسلوب کی بناء پر ان کے رفقاء آزاد ،حالی ،نذیر احمداور شبلی اس راہ پر ان کے ساتھ چلے اور عناصرِخمسہ کہلائے۔ اس سارے بیان کا کلامِ حاصل یہ ہے کہ اردو زبان اور مسلم قوم دونوں پر ہی سر سید کے فکری اور قلمی احسا سات ہیں ۔
ڈاکٹر احسن فاروقی نے ان کے بارے میں درست کہا ہے:
اپنے عمل سے انہوں نے واضح کردیا ہے کہ نثر نگاری کے بنیادی اصول ہونے چاہییں ۔ ان کو اس میں کمال حاصل ہےاور اسی کمال کی وجہ سے وہ اردو نثر نگاری کے سرتاج رہیں گے۔



جماعت نہم تا جماعت دوازدہم

 یہ سوال  اے کے یو ای بی کے سالانہ امتحان  ۲۰۱۱ جماعت نہم  کے اپردو کے پرچے میں ٓآیا تھا