امیر مینائی کا مختصر تعارف اور
شامل نصاب نعت شریف " جو کوثر سے دھوؤں زبان قلم " کی تشریح
امیر مینائی پیدائش: 21 فروری 1829ء- وفات: 13 اکتوبر 1900ء) اردو مشہور و معروف شاعر و ادیب تھے۔ وہ 1829ء
میں شاہ نصیر الدین شاہ حیدر نواب اودھ کے عہد میں لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ امیر احمد نام مولوی کرم محمد
کے بیٹے اور مخدوم شاہ مینا کے خاندان سے تھے۔ لکھنؤ میں پیداہوئے درسی کتب مفتی
سعد اللہ اور ان کے ہمعصر علمائے فرنگی محل سے پڑھیں۔ خاندان صابریہ چشتیہ کے سجادہ نشین حضرت امیر شاہ
سے بیعت تھی۔ شاعری میں اسیر لکھنوی کے شاگرد ہوئے۔ 1852ء میں نواب واجد علی شاہ
کے دربار میں رسائی ہوئی اور حسب الحکم دو کتابیں شاد سلطان اور ہدایت السلطان
تصنیف کیں۔ 1857ء کے بعد نواب یوسف علی
خاں کی دعوت پر رامپور گئے۔ ان کے فرزند نواب کلب علی خاں نے اُن کو اپنا استاد
بنایا۔ نواب صاحب کے انتقال کے بعد رامپور چھوڑنا پڑا۔ 1900 میں حیدرآباد گئے وہاں
کچھ دن قیام کیا تھا۔ کہ بیمار ہو گئے۔ اور وہیں انتقال کیا۔
تصنیفات
متعدد کتابوں کے مصنف تھے۔ ایک دیوان غیرت بہارستان، 1857ء
کے ہنگامے میں ضائع ہوا۔ موجودہ تصانیف میں دو عاشقانہ دیوان مراۃ الغیب، صنم خانہ عشق اور ایک نعتیہ دیوان محمد خاتم النبین ہے۔ دو مثنویاں نور تجلی اور ابرکرم ہیں۔
ذکرشاہ انبیا بصورت مسدس مولود شریف ہے۔ صبح ازل آنحضرت کی ولادت اور شام ابد وفات
کے بیان میں ہے۔ چھ واسوختوں کاایک مجموعہ بھی ہے۔ نثری تصانیف میں انتخاب یادگار
شعرائے رامپور کا تذکرہ ہے، جو نواب کلب علی خان کے ایما پر 1890ء میں لکھا گیا۔
لغات کی تین کتابیں ہیں۔ سرمہ بصیرت ان فارسی عربی الفاظ کی فرہنگ ہے جو اردو میں
غلط مستعمل ہیں۔ بہار ہند ایک مختصر نعت ہے۔ سب سے بڑا کارنامہ امیر اللغات ہے جس کی دو جلدیں الف ممدودہ و الف مقصورہ تک تیار ہو کر
طبع ہوئی تھیں کہ انتقال ہو گیا۔[1]
نعت شریف (صنفِ نظم: قصیدہ)
شاعر: امیر مینائی
شاعر امیر مینائی کے اندازِ کلام کی چند خصوصیات:
1: روانی اور سلاست: امیر مینائی کا کلام روانی اور سلاست کیلیے مشہور ہے۔ الفاظ کا توازن رکھنے اور تشبیہات کے استعمال میں ان کو کمال حاصل تھا۔
2: فصاحت و بلاغت: امیر مینائی کے کلام میں اعلیٰ تخیل ، فصاحت و بلاغت اور جوشِ اعتقاد پایا جاتا ہے۔
3:شگفتگی : ان کی شاعری میں شگفتگی ، نزاکتِ خیال، شیرینی اور تصوف کی چاشنی نمایاں دکھائی دیتی ہے۔
نظم نعت کا مرکزی خیال:
شاعر امیر مینائی آنحضرت ﷺ کی شان میں نعت لکھنے کیلیے استعمال ہونے والی ہر شے ایسی چاہتا ہے جو پاکیزگی میں اعلیٰ معیار کی ہو۔ تاکہ وہ ایسے اعلیٰ و ارفع اشعار لکھے جو بارگاہِ رسالتﷺ میں شرفِ قبولیت حاصل کریں۔ آنحضرت ﷺ ہی وہ بابرکت وجود ہیں جن کے دنیا میں تشریف لانے سے شرک اور کفر کی تاریکی ختم ہو گئی اور ہر طرف اسلامی تعلیمات کا نور پھیل گیا۔
نظم نعت کی تشریح:
شعر نمبر :1
جو کوثر سے دھوؤں زبانِ قلم
تو نعتِ محمد کروں میں رقم
شعر نمبر :2
ورق پردہ دیدہ حور ہو
قلم شاخِ نخلِ سرِ طور ہو
شعر نمبر :3
سیاہی جو درکار ہو، سب ملک
مجھے اپنی آنکھوں کی دیں مردمک
شعر نمبر :4
یہ ساماں مہیا ہوں جس دن تمام
لکھوں شوق میں نعتِ خیرالانام
اُسی نور سے دفع ظلمت ہوئی
سرافراز ایماں سے خلقت ہوئی
جو کوثر سے دھوؤں زبانِ قلم
تو نعتِ محمد کروں میں رقم
حوالہ: یہ شعر امیر مینائی کی نظم نعت سے لیا گیا ہے۔ اس نعت میں شاعر رسولِ کریم ﷺ سے محبت کا اظہار کر رہا ہے۔
تشریح: اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ وہ آپﷺ کی شان میں نعت لکھنا چاہتا ہے۔ لیکن اس بابرکت کام کیلیے اسے پاکیزہ چیزیں درکار ہیں۔ کیونکہ وہ سرورِ کائنات اور محسنِ انسانیت ﷺ کے بارے اشعار لکھنا چاہتا ہے، اسلیے اس کا قلم بھی جنت کےحوض کے پانی سے دھُلا ہونا چاہیے۔ دراصل شاعر خاص احتیاط کرنا چاہتا ہے تاکہ اس کی شاعری میں پاکیزگی پیدا ہو اور کہیں نبی پاکﷺ کی شان میں گستاخی نہ ہو جائے اور اس کے قلم سے صرف وہی پاکیزہ الفاظ ہی لکھے جائیں جو آپ کے شایانِ شان ہیں۔
حسنِ بیان: اس شعر میں شاعر نے انتہائی شگفتہ انداز میں آنحضرت ﷺ سے عقیدت کا اظہار کیا ہے۔
ورق پردہ دیدہ حور ہو
قلم شاخِ نخلِ سرِ طور ہو
حوالہ: یہ شعر امیر مینائی کی نظم نعت سے لیا گیا ہے۔ اس نعت میں شاعر رسولِ کریم ﷺ سے محبت کا اظہار کر رہا ہے۔
تشریح: اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ وہ آپﷺ کی شان میں نعت لکھنا چاہتا ہے۔ لیکن اس بابرکت کام کیلیے اسے پاکیزہ چیزیں درکار ہیں۔ کیونکہ وہ سرورِ کائنات اور محسنِ انسانیت ﷺ کے بارے اشعار لکھنا چاہتا ہے، اسلیے نعت لکھنے کیلیے اسے پاک ورق چاہیے جیسا کہ جنت کی حوروں کے چہرے پر پڑا پردہ پاکیزہ ہوتا ہے۔ جس میں سے انھوں نے کبھی کسی پر غلط نظریں نہیں ڈالیں۔ اور لکھنے والا قلم کوئی عام قلم نہ ہو بلکہ اس کی خواہش ہے کہ طور پہاڑ پر واقع اس درخت کی شاخ سے قلم بنا ہوا ہو جس درخت کے نیچے حضرت موسیٰ ؑ نے خدا سے کلام کیا تھا۔
حسنِ بیان: اس شعر میں شاعر نے تشبیہات کا استعمال کرتے ہوئے آنحضرت ﷺ سے عقیدت کا اظہار کیا ہے۔
سیاہی جو درکار ہو، سب ملک
مجھے اپنی آنکھوں کی دیں مردمک
حوالہ: یہ شعر امیر مینائی کی نظم نعت سے لیا گیا ہے۔ اس نعت میں شاعر رسولِ کریم ﷺ سے محبت کا اظہار کر رہا ہے۔
تشریح: اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ وہ آپﷺ کی شان میں نعت لکھنا چاہتا ہے۔ لیکن اس بابرکت کام کیلیے اسے پاکیزہ چیزیں درکار ہیں۔ کیونکہ وہ سرورِ کائنات اور محسنِ انسانیت ﷺ کے بارے اشعار لکھنا چاہتا ہے، اسلیے نعت لکھنے کیلیے اسے جو سیاہی چاہیے وہ عام سیاہی نہ ہو بلکہ مسلمان بادشاہوں کی پتلیوں کی رنگت سے بنی ہوئی ہو۔ دراصل شاعر اپنے کلام میں مسلمان بادشاہوں کی دور اندیشی چاہتا ہے تاکہ نعت لکھتے ہوئے اس کے کلام میں شاہانہ انداز پایا جائے، کہیں کوئی کمی نہ رہ جائے اور آپ ﷺ کی شان میں گستاخی نہ ہو۔
حسنِ بیان: اس شعر میں شاعر نے تشبیہات کا استعمال کرتے ہوئے آنحضرت ﷺ سے عقیدت کا اظہار کیا ہے۔
یہ ساماں مہیا ہوں جس دن تمام
لکھوں شوق میں نعتِ خیرالانام
حوالہ: یہ شعر امیر مینائی کی نظم نعت سے لیا گیا ہے۔ اس نعت میں شاعر رسولِ کریم ﷺ سے محبت کا اظہار کر رہا ہے۔
تشریح: اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ وہ آپﷺ کی شان میں نعت لکھنا چاہتا ہے۔ لیکن اس بابرکت کام کیلیے اسے پاکیزہ چیزیں درکار ہیں۔ کیونکہ وہ سرورِ کائنات اور محسنِ انسانیت ﷺ کے بارے اشعار لکھنا چاہتا ہے۔ جب اس کی مطلوبہ پاکیزہ اشیاء میسر ہو جائیں گی تب ہی وہ انتہائی محبت اور عقیدت سے آپ ﷺ کی نعت لکھے گا اوراس نعت میں تمام مخلوقات میں افضل ترین وجود حضور صلى الله عليه وآله وسلم کی شان بیان کرے گا۔
حسنِ بیان: اس شعر میں شاعر نے انتہائی خوبصورت الفاظ کا استعمال کرتے ہوئے آنحضرت ﷺ سے عقیدت کا اظہار کیا ہے۔
شعر نمبر :5اُسی نور سے دفع ظلمت ہوئی
سرافراز ایماں سے خلقت ہوئی
حوالہ: یہ شعر امیر مینائی کی نظم نعت سے لیا گیا ہے۔ اس نعت میں شاعر رسولِ کریم ﷺ سے محبت کا اظہار کر رہا ہے۔
تشریح: اس شعر میں شاعر آنحضرت کی بلند شان بیان کرتا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ اسلام سے قبل دنیا جہالت کی تاریکیوں میں ڈوبی ہوئی تھی۔ شرک اور بت پرستی عام تھی۔ یہ آپﷺ کا وجودِ پاک ہی ہے جس نے اسلام کا علم بلند کیا اور لوگوں کو ایمان کی دولت سے مالا مال کیا انھیں توحید کا درس دیا۔ آپ ﷺ کی برکت سے تمام مخلوقات کو ان کا اصل مقام ملا اور معاشرے میں انکی عزت افزائی ہوئی۔ آپﷺ نے ہم سب کو حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد بھی سکھائے۔ قیامت تک آپﷺ کی زندگی ہمارے لیے عملی نمونہ ہے۔
حسنِ بیان: اس شعر میں شاعر نے انتہائی خوبصورت الفاظ کا استعمال کرتے ہوئے آنحضرت ﷺ کی بلند شان بیان کی ہے۔