November 13, 2019

منٹو اور اُن کے چند افسانے ( تالیف ، شمس الحق قمر AKESP, GB)



منٹو اور اُن کے چند افسانے ( تالیف ، شمس الحق قمر)

منٹو صاحت پر ایک نظر ، مختصر

سعادت حسن منٹو کے والد غلام حسن منٹو قوم اور ذات کے کشمیری امرتسر کے ایک محلے کوچہ وکیلاں میں ایک بڑے خاندان کے ساتھ رہتے تھے۔
پیدائش                               
منٹو 11 مئی 1912کو موضع سمبرالہ، ضلع لدھیانہ میں پیدا ہو ئے۔ ان کے والد لدھیانہ کی کسی تحصیل میں تعینات تھے- دوست انہیں ٹامی کے نام سے پکارتے تھے۔ منٹو اپنے گھر میں ایک سہما ہوا بچہ تھا۔ جو سوتیلے بہن بھائیوں کی موجودگی اور والد کی سختی کی وجہ سے اپنا آپ ظاہر نہ کر سکتا تھا۔ ان کی والدہ ان کی طرف دار تھیں۔ وہ ابتدا ہی سے اسکول کی تعلیم کی طرف مائل نہیں تھے۔ ان کی ابتدائی تعلیم گھر میں ہوئی۔ 1921ء میں اسے ایم اے او مڈل اسکول میں چوتھی جماعت میں داخل کرایا گيا۔ ان کا تعلیمی کریئر حوصلہ افزا نہیں تھا۔ میٹرک کے امتحان میں تین مرتبہ فیل ہونے کے بعد انہوں نے 1931میں یہ امتحان پاس کیا تھا۔ جس کے بعد انہوں نے ہندو سبھا کالج میں ایف اے میں داخلہ لیا لیکن اسے چھوڑ کر، ایم او کالج میں سال دوم میں داخلہ لے لیا- انہوں نے انسانی نفسیات کو اپنا موضوع بنایا۔ پاکستان بننے کے بعد انہوں نے بہترین افسانے تخلیق کیے۔ جن میں ٹوبہ ٹیک سنگھ، کھول دو، ٹھنڈا گوشت، دھواں، بو شامل ہیں۔ ان کے کئی افسانوی مجموعے اور خاکے اور ڈرامے شائع ہو چکے ہیں۔ کثرتِ شراب نوشی کی وجہ سے 18 جنوری 1955ء ان کا انتقال ہوا۔
سعادت حسن منٹو اردو کا واحد کبیر افسانہ نگار ہے جس کی تحریریں آج بھی ذوق و شوق سے پڑھی جاتی ہیں۔ وہ ایک صاحب اسلوب نثر نگار تھے جس کے افسانہ مضامین اور خاکے اردو ادب میں بے مثال حیثیت کے مالک ہیں۔ منٹو ایک معمار افسانہ نویس تھے جنہوں نے اردو افسانہ کو ایک نئی راہ دکھائی-افسانہ مجھے لکھتا ہے منٹو نے یہ بہت بڑی بات کہی تھی۔ منٹو کی زندگی بذات خود ناداری انسانی جدوجہد بیماری اور ناقدری کی ایک المیہ کہانی تھی جسے اردو افسانے نے لکھا۔ منٹو نے دیکھی پہچانی دنیا میں سے ایک ایسی دنیا دریافت کی جسے لوگ قابل اعتنا نہیں سمجھتے تھے یہ دنیا گمراہ لوگوں کی تھی۔ جو مروجہ اخلاقی نظام سے اپنی بنائی ہوئی دنیا کے اصولوں پر چلتے تھے ان میں اچھے لوگ بھی تھے اور برے بھی۔ یہ لوگ منٹو کا موضوع تھے اردو افسانے میں یہ ایک بہت بڑی موضوعاتی تبدیلی تھی جو معمار افسانہ نویس کی پہلی اینٹ تھی۔ اس کے افسانے محض واقعاتی نہیں ہیں ان کے بطن میں تیسری دنیا کے پس ماندہ معاشرے کے تضادات کی داستان موجود ہے۔


منٹو کے چند مشہور افسانے

 



کھول دو  اس افسانے کو سننے کے لئے یہاں کلک کیجیے

·          


امرتسر سے اسپیشل ٹرین دوپہر دو بجے کو چلی اور آٹھ گھنٹوں کے بعد مغل پورہ پہنچی۔ راستے میں کئی آدمی مارے گئے۔ متعدد زخمی ہوئے اور کچھ ادھر ادھر بھٹک گئے۔
صبح دس بجے۔۔۔ کیمپ کی ٹھنڈی زمین پر جب سراج الدین نے آنکھیں کھولیں اور اپنے چاروں طرف مردوں، عورتوں اور بچوں کا ایک متلاطم سمندر دیکھا تو اس کی سوچنے سمجھنے کی قوتیں اور بھی ضعیف ہوگئیں۔ وہ دیر تک گدلے آسمان کو ٹکٹکی باندھے دیکھتا رہا۔ یوں تو کیمپ میں ہر طرف شور برپا تھا۔ لیکن بوڑھے سراج الدین کے کان جیسے بند تھے۔ اسے کچھ سنائی نہیں دیتا تھا۔ کوئی اسے دیکھتا تو یہ خیال کرتا کہ وہ کسی گہری فکر میں غرق ہے مگر ایسا نہیں تھا۔ اس کے ہوش و حواس شل تھے۔ اس کا سارا وجود خلا میں معلق تھا۔
گدلے آسمان کی طرف بغیر کسی ارادے کے دیکھتے دیکھتے سراج الدین کی نگاہیں سورج سے ٹکرائیں۔ تیز روشنی اس کے وجود کے رگ و ریشے میں اتر گئی اور وہ جاگ اٹھا۔ اوپر تلے اس کے دماغ پر کئی تصویریں دوڑ گئیں۔ لوٹ، آگ۔۔۔ بھاگم بھاگ۔۔۔ اسٹیشن۔۔۔ گولیاں۔۔۔ رات اور سکینہ۔۔۔ سراج الدین ایک دم اٹھ کھڑا ہوا اور پاگلوں کی طرح اس نے اپنے چاروں طرف پھیلے ہوئے انسانوں کے سمندر کو کھنگالنا شروع کیا۔
پورے تین گھنٹے وہ’’سکینہ، سکینہ‘‘ پکارتا کیمپ میں خاک چھانتا رہا۔ مگر اسے اپنی جوان اکلوتی بیٹی کا کوئی پتا نہ ملا۔ چاروں طرف ایک دھاندلی سی مچی تھی۔ کوئی اپنا بچہ ڈھونڈ رہا تھا۔ کوئی ماں۔ کوئی بیوی اور کوئی بیٹی۔ سراج الدین تھک ہار کر ایک طرف بیٹھ اگیا اور حافظے پر زور دے کر سوچنے لگا کہ سکینہ اس سے کب اور کہاں جدا ہوئی۔ لیکن سوچتے سوچتے اس کا دماغ سکینہ کی ماں کی لاش پر جم جاتا۔ جس کی ساری انتڑیاں باہر نکلی ہوئی تھیں۔ اس سے آگے وہ اور کچھ نہ سوچ سکتا۔
سکینہ کی ماں مر چکی تھی۔ اس نے سراج الدین کی آنکھوں کے سامنے دم توڑا تھا۔ لیکن سکینہ کہاں تھی جس کے متعلق اس کی ماں نے مرتے ہوئے کہا تھا،
’’مجھے چھوڑو اور سکینہ کو لے کر جلدی یہاں سے بھاگ جاؤ۔‘‘
سکینہ اس کے ساتھ ہی تھی۔ دونوں ننگے پاؤں بھاگ رہے تھے۔ سکینہ کا دوپٹہ گر پڑا تھا۔ اسے اٹھانے کے لیے اس نے رکنا چاہا تھا مگر سکینہ نے چلا کر کہا تھا، ’’ابا جی۔۔۔ چھوڑیئے۔‘‘ لیکن اس نے دوپٹہ اٹھا لیا تھا۔۔۔ یہ سوچتے سوچتے اس نے اپنے کوٹ کی ابھری ہوئی جیب کی طرف دیکھا اور اس میں ہاتھ ڈال کر ایک کپڑا نکالا۔۔۔ سکینہ کا وہی دوپٹہ تھا۔۔۔ لیکن سکینہ کہاں تھی؟
سراج الدین نے اپنے تھکے ہوئے دماغ پر بہت زور دیا مگر وہ کسی نتیجہ پر نہ پہنچ سکا۔ کیا وہ سکینہ کو اپنے ساتھ اسٹیشن تک لے آیا تھا۔۔۔؟ کیا وہ اس کے ساتھ ہی گاڑی میں سوار تھی۔۔۔؟ راستہ میں جب گاڑی روکی گئی تھی اور بلوائی اندر گھس آئے تھے تو کیا وہ بے ہوش ہوگیا تھا جو وہ سکینہ کو اٹھا کرلے گئے؟
سراج الدین کے دماغ میں سوال ہی سوال تھے، جواب کوئی بھی نہیں تھا۔ اس کو ہمدردی کی ضرورت تھی۔ لیکن چاروں طرف جتنے بھی انسان پھیلے ہوئے تھے سب کو ہمدردی کی ضرورت تھی۔ سراج الدین نے رونا چاہا۔ مگر آنکھوں نے اس کی مدد نہ کی۔ آنسو جانے کہاں غائب ہوگئے تھے۔
چھ روز کے بعد جب ہوش و حواس کسی قدر درست ہوئے تو سراج الدین ان لوگوں سے ملا جو اس کی مدد کرنے کے لیے تیار تھے۔ آٹھ نوجوان تھے۔ جن کے پاس لاری تھی، بندوقیں تھیں۔ سراج الدین نے ان کو لاکھ لاکھ دعائیں دیں اور سکینہ کا حلیہ بتایا۔
’’گورارنگ ہے اور بہت ہی خوبصورت ہے۔۔۔ مجھ پر نہیں اپنی ماں پر تھی۔۔۔ عمر سترہ برس کے قریب ہے۔۔۔ آنکھیں بڑی بڑی۔۔۔ بال سیاہ، دہنے گال پر موٹا سا تل۔۔۔ میری اکلوتی لڑکی ہے۔ ڈھونڈ لاؤ۔ تمہارا خدا بھلا کرے گا۔‘‘
رضا کار نوجوانوں نے بڑے جذبے کے ساتھ بوڑھے سراج الدین کو یقین دلایا کہ اگر اس کی بیٹی زندہ ہوئی تو چند ہی دنوں میں اس کے پاس ہوگی۔
آٹھوں نوجوان نے کوشش کی۔ جان ہتھیلیوں پر رکھ کر وہ امرتسر گئے۔ کئی عورتوں، کئی مردوں اور کئی بچوں کو نکال نکال کر انھوں نے محفوظ مقاموں پر پہنچایا۔ دس روز گزر گئے مگر انھیں سکینہ کہیں نہ ملی۔
ایک روز وہ اسی خدمت کے لیے لاری پر امرتسر جارہے تھے کہ چھ ہرٹہ کے پاس سڑک پر انھیں ایک لڑکی دکھائی دی۔ لاری کی آواز سن کروہ بدکی اور بھاگنا شروع کردیا۔ رضا کاروں نے موٹر روکی اور سب کے سب اس کے پیچھے بھاگے۔ ایک کھیت میں انھوں نے لڑکی کو پکڑ لیا۔ دیکھا تو بہت خوبصورت تھی۔ دہنے گال پر موٹا تل تھا۔ ایک لڑکے نے اس سے کہا’’گھبراؤ نہیں۔۔۔ کیا تمہارا نام سکینہ ہے؟‘‘
لڑکی کا رنگ اور بھی زرد ہوگیا۔ اس نے کوئی جواب نہ دیا۔ لیکن جب تمام لڑکوں نے اسے دم دلاسا دیا تو اس کی وحشت دور ہوئی اور اس نے مان لیا کہ وہ سراج الدین کی بیٹی سکینہ ہے۔
آٹھ رضا کار نوجوانوں نے ہر طرح سکینہ کی دلجوئی کی۔ اسے کھانا کھلایا۔ دودھ پلایا اور لاری میں بٹھا دیا۔ ایک نے اپنا کو ٹ اتار کر اسے دے دیا۔ کیونکہ دوپٹہ نہ ہونے کے باعث وہ بہت الجھن محسوس کررہی تھی۔ اور بار بار بانھوں سے اپنے سینے کو ڈھانکنے کی ناکام کوشش میں مصروف تھی۔
کئی دن گزر گئے۔۔۔ سراج الدین کو سکینہ کی کوئی خبر نہ ملی۔ وہ دن بھر مختلف کیمپوں اور دفتروں کے چکر کاٹتا رہتا۔ لیکن کہیں سے بھی اس کی بیٹی کا پتہ نہ چلا۔ رات کو وہ بہت دیر تک ان رضا کار نوجوانوں کی کامیابی کے لیے دعائیں مانگتا رہتا۔ جنہوں نے اس کو یقین دلایا تھا کہ اگر سکینہ زندہ ہوئی تو چند دنوں ہی میں وہ اسے ڈھونڈ نکالیں گے۔
ایک روز سراج الدین نے کیمپ میں ان نوجوان رضا کاروں کو دیکھا۔ لاری میں بیٹھے تھے۔ سراج الدین بھاگا بھاگا ان کے پاس گیا۔ لاری چلنے ہی والی تھی کہ اس نے پوچھا،
’’بیٹا، میری سکینہ کا پتہ چلا؟‘‘
سب نے یک زبان ہو کر کہا،
’’چل جائے گا، چل جائے گا۔‘‘ اور لاری چلا دی۔
سراج الدین نے ایک بار پھران نوجوانوں کی کامیابی کے لیے دعا مانگی اور اس کا جی کسی قدر ہلکا ہوگیا۔
شام کے قریب کیمپ میں جہاں سراج الدین بیٹھا تھا۔ اس کے پاس ہی کچھ گڑبڑسی ہوئی۔ چار آدمی کچھ اٹھا کر لارہے تھے۔ اس نے دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ ایک لڑکی ریلوے لائن کے پاس بیہوش پڑی تھی۔ لوگ اسے اٹھا کر لائے ہیں۔ سراج الدین ان کے پیچھے پیچھے ہولیا۔ لوگوں نے لڑکی کو ہسپتال والوں کے سپرد کیا اور چلے گئے۔ کچھ دیر وہ ایسے ہی ہسپتال کے باہر گڑے ہوئے لکڑی کے کھمبے کے ساتھ لگ کر کھڑا رہا۔ پھر آہستہ آہستہ اندر چلا گیا۔ کمرے میں کوئی بھی نہیں تھا۔ ایک اسٹریچر تھا جس پر ایک لاش پڑی تھی۔ سراج الدین چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا اس کی طرف بڑھا۔ کمرے میں دفعتاً روشنی ہوئی۔ سراج الدین نے لاش کے زرد چہرے پر چمکتا ہوا تل دیکھا اور چلایا۔
’’سکینہ!‘‘
ڈاکٹر نے جس نے کمرے میں روشنی کی تھی سراج الدین سے پوچھا، ’’کیا ہے؟‘‘
سراج الدین کے حلق سے صرف اس قدر نکل سکا، ’’جی میں۔۔۔ جی میں۔۔۔ اس کا باپ ہوں!‘‘
ڈاکٹر نے اسٹریچر پر پڑی ہوئی لاش کی طرف دیکھا۔ اس کی نبض ٹٹولی اور سراج الدین سے کہا،
’’کھڑکی کھول دو۔‘‘
سکینہ کے مردہ جسم میں جنبش پیدا ہوئی۔ بے جان ہاتھوں سے اس نے ازار بند کھولا اور شلوار نیچے سرکا دی۔
بوڑھا سراج الدین خوشی سے چلایا،
’’زندہ ہے۔۔۔ میری بیٹی زندہ ہے۔۔۔‘‘
ڈاکٹر سر سے پیر تک پسینے میں غرق ہوگیا۔۔۔


سعادت حسن منٹوکالی شلوار


دہلی آنے سے پہلے وہ ابنالہ چھاؤنی میں تھی جہاں کئی گورے اس کے گاہک تھے۔ ان گوروں سے ملنے جلنے کے باعث وہ انگریزی کے دس پندرہ جملے سیکھ گئی تھی، ان کو وہ عام گفتگو میں استعمال نہیں کرتی تھی لیکن جب وہ دہلی میں آئی اوراس کا کاروبار نہ چلا تو ایک روز اس نے اپنی پڑوسن طمنچہ جان سے کہا، ’’دِس لیف۔۔۔ ویری بیڈ۔‘‘ یعنی یہ زندگی بہت بری ہے جبکہ کھانے ہی کو نہیں ملتا۔
ابنالہ چھاؤنی میں اس کا دھندا بہت اچھی طرح چلتا تھا۔ چھاؤنی کے گورے شراب پی کر اس کے پاس آجاتے تھے اور وہ تین چار گھنٹوں ہی میں آٹھ دس گوروں کو نمٹا کر بیس تیس روپے پیدا کر لیا کرتی تھی۔ یہ گورے، اس کے ہم وطنوں کے مقابلے میں بہت اچھے تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ایسی زبان بولتے تھے جس کا مطلب سلطانہ کی سمجھ میں نہیں آتا تھا مگر ان کی زبان سے یہ لاعلمی اس کے حق میں بہت اچھی ثابت ہوتی تھی۔ اگر وہ اس سے کچھ رعایت چاہتے تو وہ سر ہلا کرکہہ دیا کرتی تھی، ’’صاحب، ہماری سمجھ میں تمہاری بات نہیں آتا۔‘‘ اور اگر وہ اس سے ضرورت سے زیادہ چھیڑ چھاڑ کرتے تو وہ ان کو اپنی زبان میں گالیاں دینا شروع کردیتی تھی۔ وہ حیرت میں اس کے منہ کی طرف دیکھتے تو وہ ان سے کہتی، ’’صاحب، تم ایک دم الو کا پٹھا ہے۔ حرامزادہ ہے۔۔۔ سمجھا۔‘‘ یہ کہتے وقت وہ اپنے لہجہ میں سختی پیدا نہ کرتی بلکہ بڑے پیار کے ساتھ ان سے باتیں کرتی۔ یہ گورے ہنس دیتے اور ہنستے وقت وہ سلطانہ کو بالکل الو کے پٹھے دکھائی دیتے۔
مگر یہاں دہلی میں وہ جب سے آئی تھی ایک گورا بھی اس کے یہاں نہیں آیا تھا۔ تین مہینے اس کو ہندوستان کے اس شہر میں رہتے ہوگئے تھے جہاں اس نے سنا تھا کہ بڑے لاٹ صاحب رہتے ہیں، جو گرمیوں میں شملے چلے جاتے ہیں، مگر صرف چھ آدمی اس کے پاس آئے تھے۔ صرف چھ، یعنی مہینے میں دو اور ان چھ گاہکوں سے اس نے خدا جھوٹ نہ بلوائے تو ساڑھے اٹھارہ روپے وصول کیے تھے۔ تین ر وپے سے زیادہ پرکوئی مانتا ہی نہیں تھا۔ سلطانہ نے ان میں سے پانچ آدمیوں کو اپنا ریٹ دس روپے بتایا تھا مگر تعجب کی بات ہے کہ ان میں سے ہر ایک نے یہی کہا، ’’بھئی ہم تین روپے سے ایک کوڑی زیادہ نہ دیں گے۔‘‘ نہ جانے کیا بات تھی کہ ان میں سے ہر ایک نے اسے صرف تین روپے کے قابل سمجھا۔ چنانچہ جب چھٹا آیا تو اس نے خود اس سے کہا، ’’دیکھو، میں تین روپے ایک ٹیم کے لوں گی۔ اس سے ایک دھیلا تم کم کہو تو میں نہ لوں گی۔ اب تمہاری مرضی ہو تو رہو ورنہ جاؤ۔‘‘ چھٹے آدمی نے یہ بات سن کر تکرار نہ کی اور اس کے ہاں ٹھہر گیا۔ جب دوسرے کمرے میں دروازے وروازے بند کرکے وہ اپنا کوٹ اتارنے لگا تو سلطانہ نے کہا، ’’لائیے ایک روپیہ دودھ کا۔‘‘ اس نے ایک روپیہ تو نہ دیا لیکن نئے بادشاہ کی چمکتی ہوئی اٹھنی جیب میں سے نکال کر اس کو دے دی اور سلطانہ نے بھی چپکے سے لے لی کہ چلو جو آیا ہے غنیمت ہے۔
ساڑھے اٹھارہ روپے تین مہینوں میں۔۔۔ بیس روپے ماہوار تو اس کوٹھے کا کرایہ تھا جس کو مالک مکان انگریزی زبان میں فلیٹ کہتا تھا۔
اس فلیٹ میں ایسا پاخانہ تھا جس میں زنجیر کھینچنے سے ساری گندگی پانی کے زور سے ایک دم نیچے نل میں غائب ہو جاتی تھی اور بڑا شور ہوتا تھا۔ شروع شروع میں تو اس شور نے اسے بہت ڈرایا تھا۔ پہلے دن جب وہ رفع حاجت کے لیے اس پاخانہ میں گئی تو اس کے کمر میں شدت کا درد ہورہا تھا۔ فارغ ہو کر جب اٹھنے لگی تو اس نے لٹکی ہوئی زنجیر کا سہارا لے لیا۔ اس زنجیرکو دیکھ کر اس نے خیال کیا چونکہ یہ مکان خاص ہم لوگوں کی رہائش کے لیے تیار کیے گئے ہیں یہ زنجیر اس لیے لگائی گئی ہے کہ اٹھتے وقت تکلیف نہ ہو اور سہارا مل جایا کرے مگر جونہی اس نے زنجیر پکڑ کر اٹھنا چاہا، اوپر کھٹ کھٹ سی ہوئی اور پھر ایک دم پانی اس شور کے ساتھ باہر نکلا کہ ڈر کے مارے اس کے منہ سے چیخ نکل گئی۔
خدا بخش دوسرے کمرے میں اپنا فوٹو گرافی کا سامان درست کررہا تھا اور ایک صاف بوتل میں ہائی ڈرو کونین ڈال رہا تھا کہ اس نے سلطانہ کی چیخ سنی۔ دوڑ کروہ باہر نکلا اور سلطانہ سے پوچھا، ’’کیا ہوا؟ یہ چیخ تمہاری تھی؟‘‘
سلطانہ کا دل دھڑک رہا تھا۔ اس نے کہا، ’’یہ موا پاخانہ ہے یا کیا ہے۔ بیچ میں یہ ریل گاڑیوں کی طرح زنجیر کیا لٹکا رکھی ہے۔ میری کمرمیں درد تھا۔ میں نے کہا چلو اس کا سہارا لے لوں گی، پر اس موئی زنجیر کو چھیڑنا تھا کہ وہ دھماکہ ہُوا کہ میں تم سے کیا کہوں۔‘‘
اس پر خدا بخش بہت ہنسا تھا اور اس نے سلطانہ کو اس پیخانے کی بابت سب کچھ بتا دیا تھا کہ یہ نئے فیش کا ہے جس میں زنجیر ہلانے سے سب گندگی نیچے زمین میں دھنس جاتی ہے۔
خدا بخش اور سلطانہ کا آپس میں کیسے سمبندھ ہوا یہ ایک لمبی کہانی ہے۔ خدا بخش راولپنڈی کا تھا۔ انٹرنٹس پاس کرنے کے بعد اس نے لاری چلانا سیکھا، چنانچہ چار برس تک وہ راولپنڈی اور کشمیر کے درمیان لاری چلانے کا کام کرتا رہا۔ اس کے بعد کشمیر میں اس کی دوستی ایک عورت سے ہوگئی۔ اس کو بھگا کر وہ لاہور لے آیا۔ لاہور میں چونکہ اس کو کوئی کام نہ ملا۔ اس لیے اس نے عورت کو پیشے بٹھا دیا۔ دو تین برس تک یہ سلسلہ جاری رہا اور وہ عورت کسی اور کے ساتھ بھاگ گئی۔ خدا بخش کو معلوم ہوا کہ وہ ابنالہ میں ہے۔ وہ اس کی تلاش میں ابنالہ آیا جہاں اس کو سلطانہ مل گئی۔ سلطانہ نے اس کو پسند کیا، چنانچہ دونوں کا سمبندھ ہوگیا۔
خدا بخش کے آنے سے ایک دم سلطانہ کا کاروبار چمک اٹھا۔ عورت چوں کہ ضعیف الاعتقاد تھی۔ اس لیے اس نے سمجھا کہ خدا بخش بڑا بھاگوان ہے جس کے آنے سے اتنی ترقی ہوگئی، چنانچہ اس خوش اعتقادی نے خدا بخش کی وقعت اس کی نظروں میں اور بھی بڑھا دی۔
خدا بخش آدمی محنتی تھا۔ سارا دن ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھنا پسند نہیں کرتا تھا۔ چنانچہ اس نے ایک فوٹو گرافرسے دوستی پیدا کی جو ریلوے اسٹیشن کے باہر منٹ کیمرے سے فوٹو کھینچا کرتا تھا۔ اس لیے اس نے فوٹو کھینچنا سیکھ لیا۔ پھر سلطانہ سے ساٹھ روپے لے کر کیمرہ بھی خرید لیا۔ آہستہ آہستہ ایک پردہ بنوایا، دو کرسیاں خریدیں اور فوٹو دھونے کا سب سامان لے کر اس نے علیحدہ اپنا کام شروع کردیا۔
کام چل نکلا، چنانچہ اس نے تھوڑی ہی دیر کے بعد اپنا اڈا ابنالے چھاؤنی میں قائم کردیا۔ یہاں وہ گوروں کے فوٹو کھینچتا رہتا۔ ایک مہینے کے اندر اندر اس کی چھاؤنی کے متعدد گوروں سے واقفیت ہوگئی، چنانچہ وہ سلطانہ کو وہیں لے گیا۔ یہاں چھاؤنی میں خدا بخش کے ذریعہ سے کئی گورے سلطانہ کے مستقل گاہک بن گئے اور اس کی آمدنی پہلے سے دوگنی ہوگئی۔
سلطانہ نے کانوں کے لیے بُندے خریدے۔ ساڑھے پانچ تولے کی آٹھ کنگنیاں بھی بنوالیں۔ دس پندرہ اچھی اچھی ساڑھیاں بھی جمع کرلیں، گھرمیں فرنیچر وغیرہ بھی آگیا۔ قصہ مختصر یہ کہ ابنالہ چھاؤنی میں وہ بڑی خوش حال تھی مگر ایکا ایکی نہ جانے خدا بخش کے دل میں کیا سمائی کہ اس نے دہلی جانے کی ٹھان لی۔ سطانہ انکار کیسے کرتی جبکہ خدا بخش کو اپنے لیے بہت مبارک خیال کرتی تھی۔ اس نے خوشی خوشی دہلی جانا قبول کرلیا۔ بلکہ اس نے یہ بھی سوچا کہ اتنے بڑے شہر میں جہاں لاٹ صاحب رہتے ہیں اس کا دھندا اور بھی اچھا چلے گا۔ اپنی سہیلیوں سے وہ دہلی کی تعریف سن چکی تھی۔ پھر وہاں حضرت نظام الدین اولیاء کی خانقاہ تھی۔ جس سے اسے بے حد عقیدت تھی، چنانچہ جلدی جلدی گھر کا بھاری سامان بیچ باچ کر وہ خدا بخش کے ساتھ دہلی آگئی۔ یہاں پہنچ کر خدا بخش نے بیس روپے ماہوار پر ایک چھوٹا سا فلیٹ لے لیا جس میں وہ دونوں رہنے لگے۔
ایک ہی قسم کے نئے مکانوں کی لمبی سی قطار سڑک کے ساتھ ساتھ چلی گئی تھی۔ میونسپل کمیٹی نے شہر کا یہ حصہ خاص کسبیوں کے لیے مقرر کردیا تھا تاکہ وہ شہر میں جگہ جگہ اپنے اڈے نہ بنائیں۔ نیچے دکانیں تھیں اور اوپر دومنزلہ رہائشی فلیٹ۔ چونکہ سب عمارتیں ایک ہی ڈیزائن کی تھیں اس لیے شروع شروع میں سلطانہ کو اپنا فلیٹ تلاش کرنے میں بہت دقت محسوس ہوئی تھی پر جب نیچے لانڈری والے نے اپنا بورڈ گھر کی پیشانی پر لگا دیا تو اس کو ایک پکی نشانی مل گئی۔’یہاں میلے کپڑوں کی دھلائی کی جاتی ہے‘ یہ بورڈ پڑھتے ہی وہ اپنا فلیٹ تلاش کرلیا کرتی تھی۔ اسی طرح اس نے اور بہت سی نشانیاں قائم کرلی تھیں، مثلاً بڑے بڑے حروف میں جہاں’کوئلوں کی دوکان‘ لکھا تھا وہاں اس کی سہیلی ہیرا بائی رہتی تھی جو کبھی کبھی ریڈیو گھر میں گانے جایا کرتی تھی۔ جہاں ’شرفا کے کھانے کا اعلیٰ انتظام ہے‘ لکھا تھا وہاں اس کی دوسری سہیلی مختار رہتی تھی۔ نواڑ کے کارخانہ کے اوپر انوری رہتی تھی جو اسی کارخانہ کے سیٹھ کے پاس ملازم تھی۔ چونکہ سیٹھ صاحب کو رات کے وقت اپنے کارخانہ کی دیکھ بھال کرنا ہوتی تھی اس لیے وہ انوری کے پاس ہی رہتے تھے۔
دوکان کھولتے ہی گاہک تھوڑے ہی آتے ہیں۔ چنانچہ جب ایک مہینے تک سلطانہ بیکار رہی تو اس نے یہی سوچ کر اپنے دل کو تسلی دی، پر جب دو مہینے گزر گئے اور کوئی آدمی اس کے کوٹھے پر نہ آیا تو اسے بہت تشویش ہوئی۔ اس نے خدا بخش سے کہا، ’’کیا بات ہے خدا بخش، دو مہینے آج پورے ہوگئے ہیں ہمیں یہاں آئے ہوئے، کسی نے ادھر کا رخ بھی نہیں کیا۔۔۔ مانتی ہوں آج کل بازار بہت مندا ہے، پر اتنا مندا بھی تو نہیں کہ مہینے بھر میں کوئی شکل دیکھنے ہی میں نہ آئے۔‘‘
خدا بخش کو بھی یہ بات بہت عرصہ سے کھٹک رہی تھی مگر وہ خاموش تھا، پر جب سلطانہ نے خود بات چھیڑی تو اس نے کہا، ’’میں کئی دنوں سے اس کی بابت سوچ رہا ہوں۔ ایک بات سمجھ میں آتی ہے، وہ یہ کہ جنگ کی وجہ سے لوگ باگ دوسرے دھندوں میں پڑ کر ادھر کا رستہ بھول گئے ہیں۔۔۔ یا پھر یہ ہو سکتا ہے کہ۔۔۔‘‘ وہ اس کے آگے کچھ کہنے ہی والا تھا کہ سیڑھیوں پر کسی کے چڑھنے کی آواز آئی۔ خدا بخش اور سلطانہ دونوں اس آواز کی طرف متوجہ ہوئے۔ تھوڑی دیر کے بعد دستک ہوئی۔ خدا بخش نے لپک کر دروازہ کھولا۔ ایک آدمی اندر داخل ہوا۔ یہ پہلا گاہک تھا جس سے تین روپے میں سودا طے ہوا۔ اس کے بعد پانچ اور آئے یعنی تین مہینے میں چھ، جن سے سلطانہ نے صرف ساڑھے اٹھارہ روپے وصول کیے۔
بیس روپے ماہوار تو فلیٹ کے کرایہ میں چلے جاتے تھے، پانی کا ٹیکس اور بجلی کا بل جدا تھا۔ اس کے علاوہ گھر کے دوسرے خرچ تھے۔ کھانا پینا، کپڑے لتے، دوا دارو اور آمدن کچھ بھی نہیں تھی۔ ساڑھے اٹھارہ روپے تین مہینے میں آئے تو اسے آمدن تو نہیں کہہ سکتے۔ سلطانہ پریشان ہوگئی۔ ساڑھے پانچ تولے کی آٹھ کنگنیاں جو اس نے انبالے میں بنوائی تھیں آہستہ آہستہ بک گئیں۔ آخری کنگنی کی جب باری آئی تو اس نے خدا بخش سے کہا۔’’تم میری سنو اور چلو واپس انبالے میں یہاں کیا دھرا ہے؟ بھئی ہوگا، پر ہمیں تو یہ شہر راس نہیں آیا۔ تمہارا کام بھی وہاں خوب چلتا تھا، چلو، وہیں چلتے ہیں۔ جو نقصان ہوا ہے اس کو اپنا سر صدقہ سمجھو۔ اس کنگنی کو بیچ کر آؤ، میں اسباب وغیرہ باندھ کر تیار رکھتی ہوں۔ آج رات کی گاڑی سے یہاں سے چل دیں گے۔‘‘
خدا بخش نے کنگنی سلطانہ کے ہاتھ سے لے لی اور کہا، ’’نہیں جانِ من، انبالہ اب نہیں جائیں گے، یہیں دہلی میں رہ کر کمائیں گے۔ یہ تمہاری چوڑیاں سب کی سب یہیں واپس آئیں گی۔ اللہ پر بھروسہ رکھو۔ وہ بڑا کارساز ہے۔ یہاں بھی وہ کوئی نہ کوئی اسباب بنا ہی دے گا۔‘‘
سلطانہ چپ ہورہی، چنانچہ آخری کنگنی ہاتھ سے اتر گئی۔ بُچے ہاتھ دیکھ کر اس کو بہت دکھ ہوتا تھا، پر کیا کرتی، پیٹ بھی تو آخر کسی حیلے سے بھرنا تھا۔
جب پانچ مہینے گزر گئے اور آمدن خرچ کے مقابلے میں چوتھائی سے بھی کچھ کم رہی تو سلطانہ کی پریشانی اور زیادہ بڑھ گئی۔ خدا بخش بھی سارا دن اب گھر سے غائب رہنے لگا تھا۔ سلطانہ کو اس کا بھی دکھ تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پڑوس میں اس کی دو تین ملنے والیاں موجود تھیں جن کے ساتھ وہ اپنا وقت کاٹ سکتی تھی پر ہر روز ان کے یہاں جانا اور گھنٹوں بیٹھے رہنا اس کو بہت بُرا لگتا تھا۔ چنانچہ آہستہ آہستہ اس نے ان سہیلیوں سے ملنا جلنا بالکل ترک کردیا۔ سارا دن وہ اپنے سنسنان مکان میں بیٹھی رہتی۔ کبھی چھالیا کاٹتی رہتی، کبھی اپنے پرانے اور پھٹے ہوئے کپڑوں کو سیتی رہتی اور کبھی باہر بالکونی میں آ کر جنگلے کے ساتھ کھڑی ہو جاتی اور سامنے ریلوے شیڈ میں ساکت اور متحرک انجنوں کی طرف گھنٹوں بے مطلب دیکھتی رہتی۔
سڑک کی دوسری طرف مال گودام تھا جو اس کونے سے اس کونے تک پھیلا ہوا تھا۔ داہنے ہاتھ کو لوہے کی چھت کے نیچے بڑی بڑی گانٹھیں پڑی رہتی تھیں اور ہر قسم کے مال اسباب کے ڈھیر سے لگے رہتے تھے۔ بائیں ہاتھ کو کھلا میدان تھا جس میں بے شمار ریل کی پٹڑیاں بچھی ہُوئی تھیں۔ دھوپ میں لوہے کی یہ پٹڑیاں چمکتیں تو سلطانہ اپنے ہاتھوں کی طرف دیکھتی جن پر نیلی نیلی رگیں بالکل ان پٹڑیوں کی طرح ابھری رہتی تھیں، اس لمبے اور کھلے میدان میں ہر وقت انجن اور گاڑیاں چلتی رہتی تھیں۔ کبھی ادھر کبھی ادھر۔ ان انجنوں اور گاڑیوں کی چِھک چِھک پَھک پَھک سدا گونجتی رہتی تھی۔
صبح سویرے جب وہ اٹھ کر بالکونی میں آتی تو ایک عجیب سماں نظر آتا۔ دھندلکے میں انجنوں کے منہ سے گاڑھا گاڑھا دھواں نکلتا تھا اور گدلے آسمان کی جانب موٹے اور بھاری آدمیوں کی طرح اٹھتا دکھائی دیتا تھا۔ بھاپ کے بڑے بڑے بادل بھی ایک شور کے ساتھ پٹڑیوں سے اٹھتے تھے اور آنکھ جھپکنے کی دیر میں ہوا کے اندر گُھل مل جاتے تھے۔ پھر کبھی کبھی جب وہ گاڑی کے کسی ڈبے کو جسے انجن نے دھکا دے کر چھوڑ دیا ہو اکیلے پٹڑیوں پر چلتا دیکھتی تو اسے اپنا خیال آتا۔وہ سوچتی کہ اسے بھی کسی نے زندگی کی پٹڑی پر دھکا دے کر چھوڑ دیا ہے اور وہ خود بخود جارہی ہے۔دوسرے لوگ کانٹے بدل رہے ہیں اور وہ چلی جارہی ہے۔۔۔ نہ جانے کہاں۔ پھر ایک روز ایسا آئے گا جب اس دھکے کا زور آہستہ آہستہ ختم ہو جائے گا اور وہ کہیں رک جائیگی۔ کسی ایسے مقام پر جو اس کا دیکھا بھالا نہ ہوگا۔
یوں تو وہ بے مطلب گھنٹوں ریل کی ان ٹیڑھی بانکی پٹڑیوں اور ٹھہرے اور چلتے ہُوئے انجنوں کی طرف دیکھتی رہتی تھی پر طرح طرح کے خیال اس کے دماغ میں آتے رہتے تھے۔ ابنالہ چھاؤنی میں جب وہ رہتی تھی تو اسٹیشن کے پاس ہی اس کا مکان تھا مگروہاں اس نے کبھی ان چیزوں کو ایسی نظروں سے نہیں دیکھا تھا۔ اب تو کبھی کبھی اس کے دماغ میں یہ بھی خیال آتا کہ یہ جو سامنے ریل کی پٹڑیوں کا جال سا بچھا ہے اور جگہ جگہ سے بھاپ اور دھواں اٹھ رہا ہے ایک بہت بڑا چکلہ ہے۔ بہت سی گاڑیاں ہیں جن کو چند موٹے موٹے انجن ادھر ادھر دھکیلتے رہتے ہیں۔ سلطانہ کو تو بعض اوقات یہ انجن سیٹھ معلوم ہوتے ہیں جو کبھی کبھی انبالہ میں اس کے ہاں آیا کرتے تھے۔ پھر کبھی کبھی جب وہ کسی انجن کو آہستہ آہستہ گاڑیوں کی قطار کے پاس سے گزرتا دیکھتی تو اسے ایسا محسوس ہوتا کہ کوئی آدمی چکلے کے کسی بازار میں سے اوپر کوٹھوں کی طرف دیکھتا جارہاہے۔
سلطانہ سمجھتی تھی کہ ایسی باتیں سوچنا دماغ کی خرابی کا باعث ہے، چنانچہ جب اس قسم کے خیال اس کو آنے لگے تو اس نے بالکونی میں جانا چھوڑ دیا۔ خدا بخش سے اس نے بارہا کہا، ’’دیکھو، میرے حال پر رحم کرو۔ یہاں گھر میں رہا کرو۔ میں سارا دن یہاں بیماروں کی طرح پڑی رہتی ہوں۔‘‘ مگر اس نے ہر بار سلطانہ سے یہ کہہ کر اس کی تشفی کردی، ’’جانِ من۔۔۔ میں باہر کچھ کمانےکی فکر کررہا ہوں۔ اللہ نے چاہا تو چند دنوں ہی میں بیڑا پار ہو جائے گا۔‘‘
پورے پانچ مہینے ہوگئے تھے مگر ابھی تک نہ سلطانہ کا بیڑا پار ہوا تھا نہ خدا بخش کا۔
محرم کا مہینہ سر پر آرہا تھا مگر سلطانہ کے پاس کالے کپڑے بنوانے کے لیے کچھ بھی نہ تھا۔ مختار نے لیڈی ہیملٹن کی ایک نئی وضع کی قمیض بنوائی تھی جس کی آستینیں کالی جارجٹ کی تھیں۔ اس کے ساتھ میچ کرنے کے لیے اس کے پاس کالی ساٹن کی شلوار تھی جو کاجل کی طرح چمکتی تھی۔ انوری نے ریشمی جارجٹ کی ایک بڑی نفیس ساڑی خریدی تھی۔ اس نے سلطانہ سے کہا تھا کہ وہ اس ساڑی کے نیچے سفید بوسکی کا پیٹی کوٹ پہنے گی کیونکہ یہ نیا فیشن ہے۔ اس ساڑی کے ساتھ پہننے کو انوری کالی مخمل کا ایک جوتا لائی تھی جو بڑا نازک تھا۔ سلطانہ نے جب یہ تمام چیزیں دیکھیں تو اس کو اس احساس نے بہت دکھ دیا کہ وہ محرم منانے کے لیے ایسا لباس خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتی۔
انوری اور مختار کے پاس یہ لباس دیکھ کر جب وہ گھر آئی تو اس کا دل بہت مغموم تھا۔ اسے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ پھوڑا سا اس کے اندر پیدا ہوگیا ہے۔ گھر بالکل خالی تھا۔ خدا بخش حسبِ معمول باہر تھا۔ دیر تک وہ دری پر گاؤ تکیہ سر کے نیچے رکھ کر لیٹی رہی، پرجب اس کی گردن اونچائی کے باعث اکڑ سی گئی تو اٹھ کر باہر بالکونی میں چلی گئی تاکہ غم افزا خیالات کو اپنے دماغ میں سے نکال دے۔
سامنے پٹڑیوں پر گاڑیوں کے ڈبے کھڑے تھے پر انجن کوئی بھی نہ تھا۔ شام کا وقت تھا۔ چھڑکاؤ ہو چکا تھا اس لیے گرد و غبار دب گیا تھا۔ بازار میں ایسے آدمی چلنے شروع ہوگئے تھے جو تاک جھانک کرنے کے بعد چپ چاپ گھروں کا رخ کرتے ہیں۔ ایسے ہی ایک آدمی نے گردن اونچی کرکے سطانہ کی طرف دیکھا۔ سلطانہ مسکرا دی اور اس کوبھول گئی کیونکہ اب سامنے پٹڑیوں پر ایک انجن نمودار ہوگیا تھا۔
سلطانہ نے غورسے اس کی طرف دیکھنا شروع کیا اور آہستہ آہستہ یہ خیال اس کے دماغ میں آیا کہ انجن نے بھی کالا لباس پہن رکھا ہے۔ یہ عجیب و غریب خیال دماغ سے نکالنے کی خاطر جب اس نے سڑک کی جانب دیکھا تو اسے وہی آدمی بیل گاڑی کے پاس کھڑا نظر آیا جس نے اس کی طرف للچائی نظروں سے دیکھا تھا۔ سلطانہ نے ہاتھ سے اسے اشارہ کیا۔ اس آدمی نے ادھر ادھر دیکھ کر ایک لطیف اشارے سے پوچھا، کدھر سے آؤں، سلطانہ نے اسے راستہ بتا دیا۔ وہ آدمی تھوڑی دیر کھڑا رہا مگر پھر بڑی پھرتی سے اوپر چلا آیا۔
سلطانہ نے اسے دری پر بٹھایا۔ جب وہ بیٹھ گیا تو اس نے سلسلہ گفتگو شروع کرنے کے لیے کہا، ’’آپ اوپر آتے ڈر رہے تھے۔‘‘ وہ آدمی یہ سن کر مسکرایا۔’’تمہیں کیسے معلوم ہوا۔۔۔ ڈرنے کی بات ہی کیا تھی؟‘‘ اس پر سلطانہ نے کہا، ’’یہ میں نے اس لیے کہا کہ آپ دیر تک وہیں کھڑے رہے اور پھر کچھ سوچ کر ادھر آئے۔‘‘ وہ یہ سن کر پھر مسکرایا۔’’تمہیں غلط فہمی ہوئی۔ میں تمہارے اوپر والے فلیٹ کی طرف دیکھ رہا تھا۔ وہاں کوئی عورت کھڑی ایک مرد کو ٹھینگا دکھا رہی تھی۔ مجھے یہ منظر پسند آیا۔ پھر بالکونی میں سبز بلب روشن ہُوا تو میں کچھ دیر کے لیے ٹھہر گیا۔ سبز روشنی مجھے پسند ہے۔ آنکھوں کو بہت اچھی لگتی ہے۔‘‘ یہ کہہ اس نے کمرے کا جائزہ لینا شروع کردیا۔ پھر وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ سلطانہ نے پوچھا، ’’آپ جارہے ہیں؟‘‘ اس آدمی نے جواب دیا، ’’نہیں، میں تمہارے اس مکان کو دیکھنا چاہتا ہوں۔۔۔ چلو مجھے تمام کمرے دکھاؤ۔‘‘
سلطانہ نے اس کو تینوں کمرے ایک ایک کرکے دکھا دیے۔ اس آدمی نے بالکل خاموشی سے ان کمروں کا معائنہ کیا۔ جب وہ دونوں پھر اسی کمرے میں آگئے جہاں پہلے بیٹھے تو اس آدمی نے کہا، ’’میرا نام شنکر ہے۔‘‘
سلطانہ نے پہلی بار غور سے شنکر کی طرف دیکھا۔ وہ متوسط قد کا معمولی شکل و صورت کا آدمی تھا مگر اس کی آنکھیں غیرمعمولی طور پر صاف اور شفاف تھیں۔ کبھی کبھی ان میں ایک عجیب قسم کی چمک بھی پیدا ہوتی تھی۔ گٹھیلا اور کسرتی بدن تھا۔ کنپٹیوں پر اس کے بال سفید ہورہے تھے۔ خاکستری رنگ کی گرم پتلون پہنے تھا۔ سفید قمیض تھی جس کا کالر گردن پر سے اوپر کو اٹھا ہوا تھا۔
شنکر کچھ اس طرح دری پر بیٹھا تھا کہ معلوم ہوتا تھا شنکر کے بجائے سلطانہ گاہک ہے۔ اس احساس نے سلطانہ کو قدرے پریشان کردیا۔ چنانچہ اس نے شنکر سے کہا، ’’فرمائیے۔۔۔‘‘
شنکر بیٹھا تھا، یہ سن کر لیٹ گیا۔’’میں کیا فرماؤں، کچھ تم ہی فرماؤ۔ بلایا تمہیں نے ہے مجھے۔‘‘ جب سلطانہ کچھ نہ بولی تو وہ اٹھ بیٹھا۔’’میں سمجھا، لو اب مجھ سے سنو، جو کچھ تم نے سمجھا، غلط ہے، میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو کچھ دیکر جاتے ہیں۔ ڈاکٹروں کی طرح میری بھی فیس ہے۔ مجھے جب بلایا جائے تو فیس دینا ہی پڑتی ہے۔‘‘
سلطانہ یہ سن کر چکرا گئی مگر اس کے باوجود اسے بے اختیار ہنسی آگئی۔
’’آپ کام کیا کرتے ہیں؟‘‘
شنکر نے جواب دیا، ’’یہی جو تم لوگ کرتے ہو۔‘‘
’’کیا؟‘‘
’’تم کیا کرتی ہو؟‘‘
’’میں۔۔۔ میں۔۔۔ میں کچھ بھی نہیں کرتی۔‘‘
’’میں بھی کچھ نہیں کرتا۔‘‘
سلطانہ نے بھنا کر کہا، ’’یہ تو کوئی بات نہ ہوئی۔۔۔ آپ کچھ نہ کچھ تو ضرور کرتے ہوں گے۔‘‘
شنکر نے بڑے اطمینان سے جواب دیا، ’’تم بھی کچھ نہ کچھ ضرور کرتی ہوگی۔‘‘
’’جھک مارتی ہوں۔‘‘
’’میں بھی جھک مارتا ہوں۔‘‘
’’تو آؤ دونوں جھک ماریں۔‘‘
’’میں حاضر ہوں مگر جھک مارنے کے لیے دام میں کبھی نہیں دیا کرتا۔‘‘
’’ہوش کی دوا کرو۔۔۔ یہ لنگر خانہ نہیں۔‘‘
’’اور میں بھی والنٹیر نہیں ہوں۔‘‘
سلطانہ یہاں رک گئی۔ اس نے پوچھا۔’’یہ والنٹیر کون ہوتے ہیں۔‘‘
شنکر نے جواب دیا، ’’الو کے پٹھے۔‘‘
’’میں بھی الو کی پٹھی نہیں۔‘‘
’’مگر وہ آدمی خدا بخش جو تمہارے ساتھ رہتا ہے ضرور الو کا پٹھا ہے۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’اس لیے کہ وہ کئی دنوں سے ایک ایسے خدا رسیدہ فقیر کے پاس اپنی قسمت کھلوانے کی خاطر جارہا ہے جس کی اپنی قسمت زنگ لگے تالے کی طرح بند ہے۔‘‘ یہ کہہ کر شنکر ہنسا۔
اس پر سلطانہ نے کہا، ’’تم ہندو ہو، اسی لیے ہمارے ان بزرگوں کا مذاق اڑاتے ہو۔‘‘
شنکر مسکرایا، ’’ایسی جگہوں پر ہندو مسلم سوال پیدا نہیں ہُوا کرتے۔بڑے بڑے پنڈت اور مولوی اگر یہاں آئیں تو وہ بھی شریف آدمی بن جائیں۔‘‘
’’جانے تم کیا اوٹ پٹانگ باتیں کرتے ہو۔۔۔ بولو رہو گے؟‘‘
’’اسی شرط پر جو پہلے بتا چکا ہوں۔‘‘
سلطانہ اٹھ کھڑی ہوئی۔’’تو جاؤ رستہ پکڑو۔‘‘
شنکر آرام سے اٹھا۔ پتلون کی جیبوں میں اس نے اپنے دونوں ہاتھ ٹھونسے اور جاتے ہوئے کہا، ’’میں کبھی کبھی اس بازار سے گزرا کرتا ہوں۔ جب بھی تمہیں میری ضرورت ہو بلا لینا۔۔۔ میں بہت کام کا آدمی ہوں۔‘‘
شنکر چلا گیا اور سلطانہ کالے لباس کو بھول کر دیر تک اس کے متعلق سوچتی رہی۔ اس آدمی کی باتوں نے اس کے دکھ کو بہت ہلکا کردیا تھا۔ اگر وہ انبالے میں آیا ہوتا جہاں کہ وہ خوشحال تھی تو اس نے کسی اور ہی رنگ میں اس آدمی کو دیکھا ہوتا اور بہت ممکن ہے کہ اسے دھکے دیکر باہر نکال دیا ہوتا مگر یہاں چونکہ وہ بہت اداس رہتی تھی، اس لیے شنکر کی باتیں اسے پسند آئیں۔
شام کو جب خدا بخش آیا تو سلطانہ نے اس سے پوچھا، ’’تم آج سارا دن کدھر غائب رہے ہو؟‘‘ خدا بخش تھک کر چور چور ہورہا تھا، کہنے لگا، ’’پرانے قلعہ کے پاس سے آرہا ہوں۔ وہاں ایک بزرگ کچھ دنوں سے ٹھہرے ہُوئے ہیں، انہی کے پاس ہر روز جاتا ہُوں کہ ہمارے دن پھر جائیں۔۔۔‘‘
’’کچھ انھوں نے تم سے کہا؟‘‘
’’نہیں، ابھی وہ مہربان نہیں ہوئے۔۔۔ پر سلطانہ، میں جو ان کی خدمت کررہا ہوں وہ اکارت کبھی نہیں جائے گی۔ اللہ کا فضل شامل حال رہا تو ضرور وارے نیارے ہو جائیں گے۔‘‘
سلطانہ کے دماغ میں محرم منانے کا خیال سمایا ہوا تھا، خدا بخش سے رونی آواز میں کہنے لگی، ’’سارا سارا دن باہر غائب رہتے ہو۔۔۔ میں یہاں پنجرے میں قید رہتی ہوں، نہ کہیں جاسکتی ہوں نہ آسکتی ہوں۔ محرم سر پر آگیا ہے، کچھ تم نے اسکی بھی فکر کی کہ مجھے کالے کپڑے چاہئیں، گھر میں پھوٹی کوڑی تک نہیں۔ کنگنیاں تھیں سو وہ ایک ایک کرکے بِک گئیں، اب تم ہی بتاؤ کیا ہوگا؟ یوں فقیروں کے پیچھے کب تک مارے مارے پھرا کرو گے۔ مجھے تو ایسا دکھائی دیتا ہے کہ یہاں دہلی میں خدا نے بھی ہم سے منہ موڑ لیا ہے۔ میری سنو تو اپنا کام شروع کردو۔ کچھ تو سہارا ہو ہی جائے گا۔‘‘
خدا بخش دری پر لیٹ گیا اور کہنے لگا، ’’پر یہ کام شروع کرنے کے لیے بھی تو تھوڑا بہت سرمایہ چاہیے۔۔۔ خدا کے لیے اب ایسی دُکھ بھری باتیں نہ کرو۔ مجھ سے اب برداشت نہیں ہوسکتیں۔ میں نے سچ مچ انبالہ چھوڑنے میں سخت غلطی کی، پر جو کرتا ہے اللہ ہی کرتا ہے اور ہماری بہتری ہی کے لیے کرتا ہے، کیا پتا ہے کہ کچھ دیر اور تکلفیں برداشت کرنے کے بعد ہم۔۔۔‘‘
سلطانہ نے بات کاٹ کر کہا، ’’تم خدا کے لیے کچھ کرو۔ چوری کرو یا ڈاکہ مارو پر مجھے ایک شلوار کا کپڑا ضرور لادو۔ میرے پاس سفید بوسکی کی قمیض پڑی ہے، اس کو میں رنگوالوں گی۔ سفید نینوں کا ایک نیا دوپٹہ بھی میرے پاس موجود ہے، وہی جو تم نے مجھے دیوالی پر لا کر دیا تھا، یہ بھی قمیض کے ساتھ ہی کالا رنگوا لیا جائے گا۔ ایک صرف شلوار کی کسر ہے، سووہ تم کسی نہ کسی طرح پیدا کردو۔۔۔ دیکھو تمہیں میری جان کی قسم کسی نہ کسی طرح ضرور لادو۔۔۔ میری بھتی کھاؤ اگر نہ لاؤ۔‘‘
خدا بخش اٹھ بیٹھا۔’’اب تم خواہ مخواہ زور دیئے چلی جارہی ہو۔۔۔ میں کہاں سے لاؤں گا۔۔۔ افیم کھانے کے لیے تو میرے پاس پیسہ نہیں۔‘‘
’’کچھ بھی کرو مگر مجھے ساڑھے چار گز کالی ساٹن لادو۔‘‘
’’دعا کرو کہ آج رات ہی اللہ دو تین آدمی بھیج دے۔‘‘
’’لیکن تم کچھ نہیں کرو گے۔۔۔ تم اگر چاہو تو ضرور اتنے پیسے پیدا کرسکتے ہو۔ جنگ سے پہلے یہ ساٹن بارہ چودہ آنہ گز مل جاتی تھی، اب سوا روپے گز کے حساب سے ملتی ہے۔ ساڑھے چار گزوں پرکتنے روپے خرچ ہو جائیں گے؟‘‘
’’اب تم کہتی ہو تو میں کوئی حیلہ کروں گا۔‘‘ یہ کہہ کر خدا بخش اٹھا۔’’لو اب ان باتوں کو بھول جاؤ، میں ہوٹل سے کھانا لے آؤں۔‘‘
ہوٹل سے کھانا آیا دونوں نے مل کر زہر مار کیا اور سو گئے۔ صبح ہوئی۔ خدا بخش پرانے قلعے والے فقیر کے پاس چلا گیا اور سلطانہ اکیلی رہ گئی۔ کچھ دیر لیٹی رہی، کچھ دیر سوئی رہی۔ ادھر ادھر کمروں میں ٹہلتی رہی، دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد اس نے اپنا سفید نینوں کا دوپٹہ اور سفید بوسکی کی قمیض نکالی اور نیچے لانڈری والے کو رنگنے کے لیے دے آئی۔ کپڑے دھونے کے علاوہ وہاں رنگنے کا کام بھی ہوتا تھا۔ یہ کام کرنے کے بعد اس نے واپس آکر فلموں کی کتابیں پڑھیں جن میں اس کی دیکھی ہوئی فلموں کی کہانی اور گیت چھپے ہُوئے تھے۔ یہ کتابیں پڑھتے پڑھتے وہ سو گئی، جب اٹھی تو چار بج چکے تھے کیونکہ دھوپ آنگن میں سے موری کے پاس پہنچ چکی تھی۔ نہا دھو کر فارغ ہُوئی تو گرم چادر اوڑھ کر بالکونی میں آکھڑی ہوئی۔ قریباً ایک گھنٹہ سلطانہ بالکونی میں کھڑی رہی۔
اب شام ہوگئی تھی۔ بتیاں روشن ہورہی تھیں۔ نیچے سڑک میں رونق کے آثار نظر آنے لگے۔ سردی میں تھوڑی سی شدت ہوگئی تھی مگر سلطانہ کو یہ ناگوار معلوم نہ ہوئی۔ وہ سڑک پر آتے جاتے ٹانگوں اور موٹروں کی طرف ایک عرصہ سے دیکھ رہی تھی۔ دفعتہ اسے شنکر نظر آیا۔ مکان کے نیچے پہنچ کر اس نے گردن اونچی کی اور سلطانہ کی طرف دیکھ کر مسکرا دیا۔سلطانہ نے غیر ارادی طور پر ہاتھ کا اشارہ کیا اور اسے اوپر بلا لیا۔
جب شنکر اوپر آگیا تو سلطانہ بہت پریشان ہوئی کہ اس سے کیا کہے۔ دراصل اس نے ایسے ہی بلا سوچے سمجھے اسے اشارہ کردیا تھا۔ شنکر بے حد مطمئن تھا جیسے اس کا اپنا گھر ہے، چنانچہ بڑی بے تکلفی سے پہلے روز کی طرح وہ گاؤ تکیہ سر کے نیچے رکھ کر لیٹ گیا۔ جب سلطانہ نے دیر تک اس سے کوئی بات نہ کی تو اس سے کہا، ’’تم مجھے سو دفعہ بُلا سکتی ہو اور سو دفعہ ہی کہہ سکتی ہو کہ چلے جاؤ۔۔۔ میں ایسی باتوں پر کبھی ناراض نہیں ہوا کرتا۔‘‘
سلطانہ شش و پنج میں گرفتار ہوگئی، کہنے لگی، ’’نہیں بیٹھو، تمہیں جانے کو کون کہتا ہے۔‘‘
شنکر اس پر مسکرا دیا۔’’تو میری شرطیں تمہیں منظور ہیں۔‘‘
’’کیسی شرطیں؟‘‘ سلطانہ نے ہنس کر کہا۔’’کیا نکاح کررہے ہو مجھ سے؟‘‘
’’نکاح اور شادی کیسی؟ نہ تم عمر بھر میں کسی سے نکاح کرو گی نہ میں۔ یہ رسمیں ہم لوگوں کے لیے نہیں۔۔۔ چھوڑو ان فضولیات کو۔ کوئی کام کی بات کرو۔‘‘
’’بولو کیا بات کروں؟‘‘
’’تم عورت ہو۔۔۔ کوئی ایسی بات شروع کرو جس سے دو گھڑی دل بہل جائے۔ اس دنیا میں صرف دوکانداری ہی دوکانداری نہیں، اور کچھ بھی ہے۔‘‘
سلطانہ ذہنی طور پر اب شنکر کو قبول کرچکی تھی۔ کہنے لگی، ’’صاف صاف کہو، تم مجھ سے کیا چاہتے ہو۔‘‘
’’جو دوسرے چاہتے ہیں۔‘‘ شنکر اٹھ کر بیٹھ گیا۔
’’تم میں اور دوسروں میں پھر فرق ہی کیا رہا۔‘‘
’’تم میں اور مجھ میں کوئی فرق نہیں۔ان میں اور مجھ میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ ایسی بہت سی باتیں ہوتی ہیں جو پوچھنا نہیں چاہئیں خود سمجھنا چاہئیں۔‘‘
سلطانہ نے تھوڑی دیر تک شنکر کی اس بات کو سمجھنے کی کوشش کی پھر کہا، ’’ میں سمجھ گئی ۔‘‘
’’تو کہو، کیا ارادہ ہے۔‘‘
’’تم جیتے، میں ہاری۔ پر میں کہتی ہُوں، آج تک کسی نے ایسی بات قبول نہ کی ہوگی۔‘‘
’’تم غلط کہتی ہو۔۔۔ اسی محلے میں تمہیں ایسی سادہ لوح عورتیں بھی مل جائینگی جو کبھی یقین نہیں کریں گی کہ عورت ایسی ذلت قبول کرسکتی ہے جو تم بغیر کسی احساس کے قبول کرتی رہی ہو۔ لیکن ان کے نہ یقین کرنے کے باوجود تم ہزاروں کی تعداد میں موجود ہو۔۔۔ تمہارا نام سلطانہ ہے نا؟‘‘
’’سلطانہ ہی ہے۔‘‘
شنکر اٹھ کھڑا ہوا اور ہنسنے لگا، ’’میرا نام شکر ہے۔۔۔ یہ نام بھی عجب اوٹ پٹانگ ہوتے ہیں، چلو آؤ اندر چلیں۔‘‘
شنکر اور سلطانہ دری والے کمرے میں واپس آئے تو دونوں ہنس رہے تھے، نہ جانے کس بات پر۔ جب شنکر جانے لگا تو سلطانہ نے کہا، ’’شنکر میری ایک بات مانو گے؟‘‘
شنکر نے جواباً کہا، ’’پہلے بات بتاؤ۔‘‘
سلطانہ کچھ جھینپ سی گئی، ’’تم کہو گے کہ میں دام وصول کرنا چاہتی ہوں مگر۔‘‘
’’کہو کہو۔۔۔ رک کیوں گئی ہو۔‘‘
سلطانہ نے جرأت سے کام لے کر کہا، ’’بات یہ ہے کہ محرم آرہا ہے اور میرے پاس اتنے پیسے نہیں کہ میں کالی شلوار بنوا سکوں۔۔۔ یہاں کے سارے دکھڑے تو تم مجھ سے سُن ہی چکے ہو۔ قمیض اور دوپٹہ میرے پاس موجود تھا جو میں نے آج رنگوانے کے لیے دیدیا ہے۔‘‘
شنکر نے یہ سن کرکہا، ’’تم چاہتی ہو کہ میں تمہیں کچھ روپے دے دوں جو تم یہ کالی شلوار بنوا سکو۔‘‘
سلطانہ نے فوراً ہی کہا، ’’نہیں، میرا مطلب یہ ہے کہ اگر ہو سکے تو تم مجھے ایک کالی شلوار لادو۔‘‘
شنکر مسکرایا۔ ’’میری جیب میں تو اتفاق ہی سے کبھی کچھ ہوتا ہے، بہر حال میں کوشش کروں گا۔ محرم کی پہلی تاریخ کو تمہیں یہ شلوار مل جائے گی۔ لے بس اب خوش ہو گئیں۔‘‘ سلطانہ کے بُندوں کی طرف دیکھ کر شنکر نے پوچھا۔’’کیا یہ بُندے تم مجھے دے سکتی ہو؟‘‘
سلطانہ نے ہنس کر کہا، ’’تم انھیں کیا کرو گے۔ چاندی کے معمولی بُندے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ پانچ روپے کے ہوں گے۔‘‘
اس پر شنکر نے کہا، ’’میں نے تم سے بندے مانگے ہیں۔ ان کی قیمت نہیں پوچھی، بولو، دیتی ہو۔‘‘
’’لے لو۔‘‘ یہ کہہ کر سلطانہ نے بُندے اتار کر شنکر کو دے دیے۔ اس کے بعد افسوس ہوا مگر شنکر جا چکا تھا۔
سلطانہ کو قطعاً یقین نہیں تھا کہ شنکر اپنا وعدہ پورا کرے گا مگر آٹھ روز کے بعد محرم کی پہلی تاریخ کو صبح نو بجے دروازے پر دستک ہوئی۔ سلطانہ نے دروازہ کھولا تو شنکر کھڑا تھا۔ اخبار میں لپٹی ہوئی چیز اس نے سلطانہ کو دی اور کہا، ’’ساٹن کی کالی شلوار ہے۔۔۔ دیکھ لینا، شاید لمبی ہو۔۔۔اب میں چلتا ہوں۔‘‘
شنکر شلوار دے کر چلا گیا اورکوئی بات اس نے سلطانہ سے نہ کی۔ اس کی پتلون میں شکنیں پڑی ہوئی تھیں۔ بال بکھرے ہُوئے تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ابھی ابھی سو کر اٹھا ہے اور سیدھا ادھر ہی چلا آیا ہے۔
سلطانہ نے کاغذ کھولا۔ ساٹن کی کالی شلوار تھی ایسی ہی جیسی کہ وہ مختارکے پاس دیکھ کر آئی تھی۔ سلطانہ بہت خوش ہوئی۔ بندوں اور اس سودے کا جو افسوس اسے ہوا تھا اس شلوار نے اور شنکر کی وعدہ ایفائی نے دور کردیا۔
دوپہر کو وہ نیچے لانڈری والے سے اپنی رنگی ہوئی قمیض اور دوپٹہ لے کر آئی۔ تینوں کالے کپڑے اس نے جب پہن لیے تو دروازے پر دستک ہُوئی۔ سلطانہ نے دروازہ کھولا تو انوری اندر داخل ہوئی۔ اس نے سلطانہ کے تینوں کپڑوں کی طرف دیکھا اور کہا، ’’قمیض اور دوپٹہ تو رنگا ہوا معلوم ہوتا ہے، پر یہ شلوار نئی ہے۔۔۔ کب بنوائی؟‘‘
سلطانہ نے جواب دیا، ’’آج ہی درزی لایا ہے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اس کی نظریں مختارکے کانوں پر پڑیں۔ ’’یہ بُندے تم نے کہاں سے لیے؟‘‘
مختار نے جواب دیا۔’’آج ہی منگوائے ہیں۔‘‘
اس کے بعد دونوں کو تھوڑی دیر تک خاموش رہنا پڑا۔

بیمار

عجب بات ہے کہ جب بھی کسی لڑکی یا عورت نے مجھے خط لکھا بھائی سے مخاطب کیا اور بے ربط تحریر میں اس بات کا ضرور ذکر کیا کہ وہ شدید طور پر علیل ہے۔ میری تصانیف کی بہت تعریفیں کیں۔ زمین و آسمان کے قلابے ملا دیے۔ میری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ یہ لڑکیاں اور عورتیں جو مجھے خط لکھتی ہیں بیمار کیوں ہوتی ہیں۔ شاید اس لیے کہ میں خود اکثر بیمار رہتا ہوں۔ یا کوئی اور وجہ ہو گی۔ جو اس کے سوا اور کوئی نہیں ہوسکتی کہ وہ میری ہمدردی چاہتی ہیں۔ میں ایسی لڑکیوں اور عورتوں کے خطوط کا عموماً جواب نہیں دیا کرتا، لیکن بعض اوقات دے بھی دیا کرتا ہوں آخر انسان ہوں۔ خط اگر بہت ہی دردناک ہو تو اس کا جواب دینا انسانی فرائض میں شامل ہو جاتا ہے۔ پچھلے دنوں مجھے ایک خط موصول ہوا، جو کافی لمبا تھا۔ اس میں بھی ایک خاتون نے جس کا نام میں ظاہر نہیں کرنا چاہتا یہ لکھا تھا کہ وہ میری تحریروں کی شیدائی ہے لیکن ایک عرصے سے بیمار ہے۔ اس کا خاوند بھی دائم المریض ہے۔ اس نے اپنا خیال ظاہر کیا تھا کہ جو بیماری اسے لگی ہے اس کے خاوند کی وجہ سے ہے۔ میں نے اس خط کا جواب نہ دیا لیکن اس کی طرف سے دوسرا خط آیا جس میں یہ گلہ تھا کہ میں نے اُس کے پہلے خط کی رسید تک نہ بھیجی۔ چنانچہ مجھے مجبوراً اس کو خط لکھنا پڑا۔ مگر بڑی احتیاط کے ساتھ۔ میں نے اس خط میں اس سے ہمدردی کا اظہار کیا۔ اس نے لکھا تھا کہ وہ اور بھی زیادہ علیل ہو گئی ہے اور مرنے کے قریب ہے۔ یہ پڑھ کر میں بہت متاثر ہوا تھا۔ چنانچہ اسی تاثر کے ماتحت میں نے بڑے جذباتی انداز میں اُسے یہ خط لکھا اور اس کو سمجھانے کی کوشش کی کہ زندگی زندہ رہنے کے لیے ہے اس سے مایوس ہو جانا موت ہے اگر تم خود میں اتنی قوت ارادی پیدا کر لو تو بیماری کا نام و نشان تک نہ رہے گا میں پچھلے دنوں موت کے منہ میں تھا۔ سب ڈاکٹر جواب دے چکے تھے۔ لیکن میں نے کبھی موت کا خیال بھی نہیں کیا۔ نتیجہ اس کا یہ نکلا کہ ڈاکٹر حیرت میں گُم ہوکے رہ گئے اور میں ہسپتال سے باہر نکل آیا۔ میں نے اُس کو یہ بھی لکھا کہ قوتِ ارادی ہی ایک ایسی چیز ہے جو ہر ناممکن چیز کو ممکن بنا دیتی ہے۔ تم اگر بیمار ہو تو خود کو یقین دلا دو کہ نہیں تم بیمار نہیں اچھی بھلی تندرست ہو۔ میرے اس خط کے جواب میں اُس نے جو کچھ لکھا اس سے میں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اس پر میرے وعظ کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ بڑا طویل خط تھا۔ پانچ صفحوں پر مشتمل۔ اس کی منطق اور اس کا فلسفہ عجیب قسم کا تھا۔ وہ اس بات پر مصر تھی کہ خدا کو یہ منظور نہیں کہ وہ زیادہ دیر تک اس دنیا میں زندہ رہے۔ اُس کے علاوہ اس نے یہ بھی لکھا تھا کہ میں اپنی تازہ کتابیں اُسے بھیجوں۔ میں نے دو نئی کتابیں اس کو بھیج دیں۔ ان کی رسید آگئی۔ بہت بہت شکریہ ادا کیا گیا تھا اور میری تعریفیں ہی تعریفیں تھیں۔ مجھے بڑی کوفت ہوئی۔ جو کتابیں میں نے اس کو بھیجی تھیں، میری نظر میں ان کی کوئی وقعت نہیں تھی۔ اس لیے کہ وہ صرف ہر روز کچھ کمانے کے لیے لکھی گئی تھیں۔ چنانچہ میں نے اُسے لکھا کہ تم نے میری دو کتابوں کی جو اتنی تعریف کی ہے، غلط ہے۔ یہ کتابیں محض بکواس ہیں تم میری پرانی کتابیں پڑھو۔ اس میں تم پوری طرح مجھے جلوہ گر پاؤ گی۔ میں نے اس خط میں افسانہ نویسی کے فن پر بہت کچھ لکھ دیا تھا۔ بعد میں مجھے افسوس ہوا کہ میں نے یہ جھک کیوں ماری۔ اگر لکھنا ہی تھا تو کسی رسالے یا پرچے کے لیے لکھتا۔ یہ کیا ہے ایک عورت کو جس کے تم صورت آشنا بھی نہیں اتنا طویل اور پُر مغز خط لکھ دیا ہے۔ بہر حال جب لکھ دیا تھا تو اُسے پوسٹ کرنا ہی تھا۔ اس کا جواب تیسرے روز آگیا۔ اب کے مجھے پیارے بھائی جان سے مخاطب کیا گیا تھا۔ اُس نے میری پرانی تصنیفات منگوالی تھیں اور وہ انھیں پڑھ رہی تھی۔ لیکن بیماری روز بروز بڑھ رہی تھی اس نے مجھ سے پوچھا کہ وہ کسی حکیم کا علاج کیوں نہ کرائے، کیونکہ وہ ڈاکٹروں سے بالکل نا اُمید ہو چکی تھی۔ میں نے اُسے جواب میں لکھا، علاج تم کسی سے بھی کراؤ۔ خواہ وہ ڈاکٹر ہو یا حکیم۔ لیکن یاد رکھو سب سے زیادہ اچھا معالج خود آدمی آپ ہوتا ہے۔ اگر تم اپنی ذہنی پریشانیاں دُور کر دو تو چند روز میں تندرست ہو جاؤ گی۔ میں نے اس موضوع پر ایک طویل لیکچر لکھ کر اُس کو بھیجا۔ ایک مہینے کے بعد اس کی رسید پہنچی، جس میں یہ لکھا تھا کہ اُس نے میری نصیحت پر عمل کیا۔ لیکن خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہوا اور یہ کہ وہ مجھ سے ملنے آرہی ہے۔ دو تین روز میں حیدر آباد سے بمبئی پہنچ جائے گی اور چند روز میرے ہاں ٹھہرے گی۔ میں بہت پریشان ہوا، چھڑا چھٹانک تھا۔ مگر ایک فلیٹ میں رہتا تھا۔ جس میں دو کمرے تھے۔ میں نے سوچا اگر یہ محترمہ آ گئیں تو میں ایک کمرہ اُن کو دے دوں گا۔ اس میں وہ چند دن گزارنا چاہیں گزار لیں۔ علاج کا بندوبست بھی ہو جائے گا۔ اس لیے کہ وہاں کا ایک بڑا حکیم میرا بڑا مہربان تھا۔ چھ روز تک آپ یہ سمجھیے کہ میں سولی پر لٹکا رہا۔ اخبار والے نے دروازے پردستک دی تو میں یہ سمجھا کہ وہ محترمہ تشریف لے آئیں۔ باورچی خانے میں نوکر نے اگر کسی برتن پر راکھ ملنا شروع کی تو میرا دل دھک دھک کرنے لگا کہ شاید یہ آواز اس عورت کے سینڈلوں کی ہے۔ میں ہندو مسلم فسادات کی خبریں پڑھ رہا تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ میں یہ سمجھا کہ دُودھ والا ہے۔ چنانچہ میں نے نوکر کو آواز دی
’’دیکھو رحیم کون ہے؟‘‘
رحیم چائے بنا رہا تھا۔ وہ اُبلتی ہوئی کیتلی کو وہیں چولھے پر چھوڑ کر باہر نکلا اور دروازہ کھولا۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ میرے کمرے میں آیا اور مجھ سے مخاطب ہو کر کہا
’’ایک عورت آئی ہے‘‘
میں حیرت زدہ ہو گیا
’’عورت؟‘‘
’’جی ہاں۔ ایک عورت باہر کھڑی ہے۔ وہ آپ سے ملنا چاہتی ہے‘‘
میں سمجھ گیا کہ یہ عورت وہی ہو گی۔ بیمار، جو مجھے خط لکھتی رہی ہے چنانچہ میں نے رحیم سے کہا اُس کو اندر لے آؤ اور بڑے کمرے میں بٹھا دو اور کہہ دو کہ صاحب ابھی آ جائیں گے۔ ‘‘
جی اچھا یہ کہہ کر رحیم چلا گیا۔ میں نے اخبار ایک طرف رکھ دیا اور سوچنے لگا کہ یہ عورت کس قسم کی ہو گی۔ دق کی ماری ہوئی یا فالج زدہ۔ میرے پاس کیوں آئی ہے؟۔ نہیں مجھ سے ملنے آئی ہے، غالباً یہاں کسی طبیب سے اپنا علاج کرانے آئی ہے۔ میں اُٹھا اور غسل خانے میں چلا گیا۔ وہاں دیر تک نہاتا رہا اور سوچتا رہا کہ یہ عورت جو اُس کو اتنے لمبے چوڑے خط لکھتی رہی اور جس کو کوئی خطرناک بیماری چمٹی ہوئی ہے کس شکل و صورت کی ہو گی؟ بے شمار شکلیں میرے تصور میں آئیں۔ پہلے میں نے سوچا اپاہج ہو گی اور مجھے اس کو کچھ دینا پڑے گا۔ اتفاق کی بات ہے کہ تین تاریخ تھی جب وہ آئی۔ میرے پاس تنخواہ کے تین سو روپے تھے جو اِدھر اُدھر کے بِل ادا کرنے کے بعد بچ گئے تھے۔ اس لیے میری پریشانی میں اضافہ نہ ہوا۔ میں نے نہاتے ہوئے یہ فیصلہ کر لیا کہ اگر اسے مدد کی ضرورت ہے تو میں اُسے ایک سو روپے دے دُوں گا۔ لیکن فوراً مجھے خیال آیا کہ شاید اس کو دق ہو اور مجھے اس کو ہسپتال میں داخل کرانا پڑے۔ یہ کام کوئی مشکل نہیں تھا اس لیے کہ میرے کئی دوست جے جے ہسپتال میں کام کرتے تھے۔ میں ان میں کسی ایک سے بھی کہہ دُوں کہ اس معذور عورت کو داخل کر لو تو وہ کبھی انکار نہ کریں گے۔ میں کافی دیر تک نہاتا اور اس عورت کے متعلق سوچتا رہا۔ عورتوں سے ملتے ہوئے بڑی اُلجھن محسوس ہوتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے ایک جگہ نکاح تو کر لیا لیکن ڈیڑھ برس تک یہی سوچتا رہا کہ اُسے اگر اپنے گھر لے آؤں تو کیا ہو گا؟‘‘
جو ہونا تھا وہ تو خیر ہو ہی جاتا اگر سب سے بڑا مسئلہ جو مجھے پریشان کیے ہوئے تھا یہ تھا کہ جس نے ساری زندگی میں کسی عورت کی قربت حاصل نہیں کی تھی اپنی بیوی سے کس طرح پیش آتا۔ اب ایک عورت ساتھ والے کمرے میں بیٹھی میرا انتظار کررہی تھی اور میں ڈونگے پہ ڈونگے بھر کے اپنے بدن پر بیکار ڈال رہا تھا میں اصل میں خود کو اس عورت سے ملاقات کرنے کے لیے تیار کررہا تھا۔ کافی دیر نہانے کے بعد میں غسل خانے سے باہر نکلا۔ کمرے میں جا کر کپڑے تبدیل کیے۔ بالوں میں تیل لگایا۔ کنگھی کی اور سوچتے سوچتے پلنگ پر لیٹ گیا۔ چندلمحات کے بعدرحیم آیا اور اُس نے مجھ سے کہا
’’وہ عورت پوچھتی ہے کہ آپ کب فارغ ہوں گے؟‘‘
میں نے رحیم سے کہا
’’ان سے کہہ دو بس پانچ منٹ میں آتے ہیں۔ کپڑے تبدیل کر رہے ہیں‘‘
رحیم
’’جی اچھا‘‘
کہہ کر چلا گیا۔ میں نے سوچا کہ اب اور زیادہ سوچنا فضول ہے۔ چلو اُس سے مل ہی لیں۔ اتنی خط و کتابت ہوتی رہی ہے اور پھر وہ اتنی دُور سے ملنے آئی ہے بیمار ہے۔ انسانی شرافت کا تقاضا ہے کہ اس کی خاطر داری اوردل جوئی کی جائے۔ میں نے پلنگ پر سے اُٹھ کر سلیپر پہنے اور دوسرے کمرے میں جہاں وہ عورت تھی داخل ہوا۔ وہ برقع پہنے تھی میں سلام کر کے ایک طرف بیٹھ گیا۔ مجھے اس کے بُرقعے کے سیاہ نقاب میں صرف اس کی ناک دکھائی دی جو کافی تیکھی تھی۔ میں بہت اُلجھن محسوس کر رہا تھا کہ اس سے کیا کہوں۔ بہر حال میں نے گفتگو کا آغاز کیا
’’مجھے بہت افسوس ہے کہ آپ کو اتنی دیر انتظار کرنا پڑا۔ در اصل میں اپنی عادت کی وجہ سے۔ ‘‘
اُس عورت نے میری بات کاٹ کر کہا
’’جی کوئی بات نہیں۔ آپ خواہ مخواہ تکلیف کرتے ہیں۔ میں تو انتظار کی عادی ہو چکی ہوں۔ ‘‘
میری سمجھ میں کچھ نہ آیا میں کیا کہوں۔ بس جو لفظ زبان پر آئے اُگل دیے آپ کس کا انتظار کرتی رہی ہیں اُس نے اپنے چہرے پر نقاب تھوڑی سی اُٹھائی۔ اس لیے کہ وہ اپنے ننھے سے رومال سے اپنے آنسو پونچھنا چاہتی تھی۔ آنسو پونچھنے کے بعد اُس نے مجھ سے پوچھا
’’آپ نے کیا کہا تھا مجھ سے؟‘‘
اُس کی ٹھوڑی بڑی پیاری تھی جیسے بنارسی آم کی کیسری۔ جب اس کی نقاب اُٹھی تھی تو میں نے اُس کی ایک جھلک دیکھ لی تھی۔ میں تو اس کے سوال کا جواب نہ دے سکا اس لیے کہ میں اس کی ٹھوڑی میں گم ہو گیا تھا۔ آخر اُسے ہی بولنا پڑا
’’آپ نے پوچھا تھا تم کس کا انتظار کرتی رہی ہو۔ جواب سننا چاہتے ہیں آپ؟‘‘
’’جی ہاں۔ فرمائیے۔ لیکن دیکھیے کوئی ایسی بات نہ ہو جس سے قنوطیت کا اظہار ہو‘‘
اُس عورت نے اپنی نقاب اُلٹ دی۔ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ کالی بدلیوں میں چاند نکل آیا ہے۔ اس نے نیچی نگاہوں سے مجھ سے کہا
’’جانتے ہیں آپ میں کون ہوں‘‘
میں نے جواب دیا
’’جی نہیں‘‘
اُس نے کہا
’’میں آپ کی بیوی ہوں۔ جس سے آپ نے آج سے ڈیڑھ برس پہلے نکاح کیا تھا۔ میں آپ کو لکھتی رہی ہوں کہ میں بیمار ہوں۔ میں بیمار نہیں لیکن اگر آپ نے اسی طرح مجھے انتظار میں رکھا تو یقیناًمر بھی جاؤں گی۔ ‘‘
میں دوسرے روز ہی اُس کو گھر لے آیا بڑے ٹھاٹ سے۔ اب میں بہت خوش ہوں۔ یہ واقعہ مجھے میرے ایک دوست نے جو افسانہ نگار اور شاعر ہے سُنایا تھا جسے میں نے اپنے انداز میں رقم کر دیا۔ سعادت حسن منٹو ۶اکتوبر۱۹۵۴ء













پشاور سے لاہور تک

وہ انٹر کلاس کے زنانہ ڈبے سے نکلی‘ اس کے ہاتھ میں چھوٹا سا اٹیچی کیس تھا۔ جاوید پشاور سے اُسے دیکھتا چلا آ رہا تھا۔ راولپنڈی کے اسٹیشن پر گاڑی کافی دیر ٹھہری تو وہ ساتھ والے زنانہ ڈبے کے پاس سے کئی مرتبہ گزرا۔ لڑکی حسین تھی‘ جاوید اُس کی محبت میں گرفتار ہو گیا‘ اس کی ناک کی پھننگ پر چھوٹا سا تل تھا‘ گالوں میں ننھے ننھے گڑھے تھے جو اس کے چہرے پر بہت بھلے لگتے تھے۔ راولپنڈی اسٹیشن پر اُس لڑکی نے کھانا منگوایا‘ بڑے اطمینان سے ایک ایک نوالہ اُٹھا کر اپنے منہ میں ڈالتی رہی۔ جاوید دُور کھڑا یہ سب کچھ دیکھتا رہا‘ اُس کا جی چاہتا تھا کہ وہ بھی اُس کے ساتھ بیٹھ جائے اور دونوں مل کر کھانا کھائیں۔ وہ یقیناًاُس کے پاس پہنچ جاتا مگر مصیبت یہ تھی کہ ڈبہ زنانہ تھا۔ عورتوں سے بھرا ہوا‘ یہی وجہ ہے کہ جرأت نہ کر سکا۔ لڑکی نے کھانا کھانے کے بعد ہاتھ دھوئے جو بہت نازک تھے۔ لمبی لمبی مخروطی اُنگلیاں جن کو اس نے اچھی طرح صاف کیا اور اٹیچی کیس سے تولیہ نکال کر اپنے ہاتھ پونچھے‘ پھر اطمینان سے اپنی سیٹ پر بیٹھ گئی۔ جاوید گاڑی چلنے تک اُس کی طرف دیکھتا رہا۔ آخر اپنے ڈبے میں سوار ہو گیا اور اُسی لڑکی کے خیالوں میں غرق ہو گیا۔ معلوم تو یہ ہوتا ہے کہ بڑے اچھے گھرانے کی ہے۔ دونوں کلائیوں میں قریب قریب بارہ بارہ سونے کی چوڑیاں ہوں گی۔ کانوں میں ٹاپس بھی تھے‘ دو انگلیوں میں‘ اگر میرا اندازہ غلط نہیں‘ ہیرے کی انگوٹھیاں ہیں‘ لباس بہت عمدہ‘ ساٹن کی شلوار‘ ٹفٹیا کی قمیص‘ شنون کا دوپٹہ۔ حیرت ہے کہ گھٹیا درجے میں کیوں سفر کر رہی ہے؟ پشاور سے آئی ہے۔ وہاں کی عورتیں تو سخت پردہ کرتی ہیں۔ لیکن یہ برقعے کے بغیر وہاں سے گاڑی میں سوار ہوئی اور اس کے ساتھ کوئی مرد بھی نہیں۔ نہ کوئی عورت ‘ اکیلی سفر کر رہی ہے‘ آخر یہ قصہ کیا ہے؟ میرا خیال ہے پشاور کی رہنے والی نہیں۔ وہاں کسی عزیز سے ملنے گئی ہو گی۔ مگر اکیلی کیوں؟ کیا اسے ڈر نہیں لگا کہ اُٹھا کر لے جائے گا کوئی۔ ایسے تنہا حسن پر تو ہر مرد جھپٹا مارنا چاہتا ہے۔ پھر جاوید کو ایک اندیشہ ہوا کہ شادی شدہ تو نہیں؟ وہ دراصل دل میں تہیہ کر چکا تھا کہ اس لڑکی کا پیچھا کرے گا اور رومان لڑا کر اُس سے شادی کرے گا‘ وہ حرام کاری کا بالکل قائل نہیں تھا۔ کئی سٹیشن آئے اور گزر گئے۔ اُسے صرف راولپنڈی تک جانا تھا کہ وہاں ہی اُس کا گھر تھا مگر وہ بہت آگے نکل گیا۔ ایک اسٹیشن پر چیکنگ ہوئی جس کے باعث اُسے جرمانہ ادا کرنا پڑا مگر اُس نے اس کی کوئی پروا نہ کی۔ ٹکٹ چیکر نے پوچھا
’’آپ کو کہاں تک جانا ہے‘‘
جاوید مسکرایا
’’جی‘ ابھی تک معلوم نہیں۔ آپ لاہور کا ٹکٹ بنا دیجیے کہ وہی آخری سٹیشن ہے‘‘
ٹکٹ چیکر نے اُسے لاہور کا ٹکٹ بنا دیا‘ روپے وصول کیے اور دوسرے سٹیشن پر اُتر گیا‘ جاوید بھی اُترا کہ ٹرین کو ٹائم ٹیبل کے مطابق پانچ منٹ ٹھہرنا تھا۔ ساتھ والے کمپارٹمنٹ کے پاس گیا‘ وہ لڑکی کھڑکی کے ساتھ لگی دانتوں میں خلال کر رہی تھی‘ جاوید کی طرف جب اُس نے دیکھا تو اس کے دل و دماغ میں چیونٹیاں دوڑنے لگیں‘ اُس نے محسوس کیا کہ وہ اس کی موجودگی سے غافل نہیں ہے‘ سمجھ گئی ہے کہ وہ بار بار صرف اُسے ہی دیکھنے آتا ہے۔ جاوید کو دیکھ کر وہ مسکرائی‘ اس کا دل باغ باغ ہو گیا۔ مگر جاوید فرط جذبات کی وجہ سے فوراً وہاں سے ہٹ کر اپنے ڈبے میں چلا گیا اور رومانوں کی دنیا کی سیر کرنے لگا۔ اس کو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اس کے آس پاس کی تمام چیزیں مسکرا رہی ہیں۔ ٹرین کا پنکھا مسکرا رہا ہے۔ کھڑکی سے باہر تار کے کھمبے مسکرا رہے ہیں۔ انجن کی سیٹی مسکرا رہی ہے‘ اور وہ بدصورت مسافر جو اُس کے ساتھ بیٹھا تھا‘ اُس کے موٹے موٹے ہونٹوں پر بھی مسکراہٹ ہے۔ اس کے اپنے ہونٹوں پر مسکراہٹ نہیں تھی لیکن اس کا دل مسکرا رہا تھا۔ اگلے اسٹیشن پر جب وہ ساتھ والے کمپارٹمنٹ کے پاس گیا تو وہ لڑکی وہاں نہیں تھی۔ اس کا دل دھک سے رہ گیا‘ کہاں چلی گئی؟ کہیں پچھلے اسٹیشن پر تو نہیں اُتر گئی جہاں اُس نے ایک مسکراہٹ سے مجھے نوازا تھا؟۔ نہیں نہیں غسل خانے میں ہو گی۔ وہ واقعی غسل خانے ہی میں تھی۔ ایک منٹ کے بعد وہ کھڑکی میں نمودار ہوئی۔ جاوید کو دیکھ کر مسکرائی اور ہاتھ کے اشارے سے اُس کو بلایا۔ جاوید کانپتا لرزتا کھڑکی کے پاس پہنچا اُس لڑکی نے بڑی مہین اور سریلی آواز میں کہا
’’ایک تکلیف دینا چاہتی ہوں آپ کو۔
’’مجھے دو سیب لا دیجیے‘‘
یہ کہہ کر اُس نے اپنا پرس نکالا اور ایک روپے کا نوٹ جاوید کی طرف بڑھا دیا۔ جاوید نے جو اس غیرمتوقع بلاوے سے قریب قریب برق زدہ تھا‘ ایک روپے کا نوٹ پکڑ لیا لیکن فوراً اُس کے ہوش و حواس برقرار ہو گئے۔ نوٹ واپس دے کر اُس نے اُس لڑکی سے کہا
’’آپ یہ رکھیے۔ میں سیب لے آتا ہوں‘‘
اور پلیٹ فارم پر اُس ریڑھی کی طرف دوڑا جس میں پھل بیچے جاتے تھے‘ اُس نے جلدی جلدی چھ سیب خریدے کیونکہ وسل ہو چکی تھی۔ دوڑا دوڑا وہ اُس لڑکی کے پاس آیا‘ اُس کو سیب دیے اور کہا
’’معاف کیجیے گا۔ وسل ہو رہی تھی اس لیے میں اچھے سیب چن نہ سکا‘‘
لڑکی مسکرائی۔ وہی دلفریب مسکراہٹ۔ گاڑی حرکت میں آئی۔ جاوید اپنے کمپارٹمنٹ میں داخل ہوتے کانپ رہا تھا لیکن بہت خوش تھا‘ اُس کو ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ اُس کو دونوں جہان مل گئے ہیں‘ اُس نے اپنی زندگی میں کبھی کسی سے محبت نہیں کی تھی‘ لیکن اب وہ اس کی لذّت سے لُطف اندوز ہو رہا تھا۔ اُس کی عمر پچیس برس کے قریب تھی‘ اُس نے سوچا کہ اتنی دیر میں کتنا خشک رہا ہوں۔ آج معلوم ہوا ہے کہ محبت انسان کو کتنی تروتازہ بنا دیتی ہے۔ وہ سیب کھا رہی ہو گی۔ لیکن اُس کے گال تو خود سیب ہیں‘ میں نے جو سیب اُس کو دیے ہیں کیا وہ اُن کو دیکھ کر شرمندہ نہیں ہوں گے۔ وہ میری محبت کے اشاروں کو سمجھ گئی جب ہی تو وہ مسکرائی اور اُس نے مجھے ہاتھ کے اشارے سے بُلایا اور کہا کہ میں اسے سیب لا دُوں۔ مجھ سے اگر وہ کہتی کہ گاڑی کا رخ پلٹ دُوں تو اُس کی خاطر یہ بھی کر دیتا۔ گو مجھ میں اتنی طاقت نہیں لیکن محبت میں آدمی بہت بڑے بڑے کام سرانجام دے سکتا ہے۔ فرہاد نے شیریں کے لیے پہاڑ کاٹ کر نہر نہیں کھودی تھی؟ میں بھی کتنا بیوقوف ہوں اُس سے اور کچھ نہیں تو کم از کم یہی پوچھ لیا ہوتا کہ تمھیں کہاں تک جانا ہے۔ خیر میں لاہور تک کا ٹکٹ تو بنوا چکا ہوں۔ ہر اسٹیشن پر دیکھ لیا کروں گا۔ ویسے وہ اب مجھے بن بتائے جائے گی بھی نہیں۔ شریف خاندان کی لڑکی ہے۔ میرے جذبہ محبت نے اُسے کافی متاثر کیا ہے۔ سیب کھا رہی ہے‘ کاش کہ میں اُس کے پاس بیٹھا ہوتا‘ ہم دونوں ایک سیب کو بیک وقت اپنے دانتوں سے کاٹتے۔ اُس کا منہ میرے منہ سے کتنا قریب ہوتا۔ میں اس کے گھر کا پتہ لُوں گا۔ ذرا اور باتیں کر لوں ‘ پھر راولپنڈی پہنچ کر امّی سے کہوں گا کہ میں نے ایک لڑکی دیکھ لی ہے اُس سے میری شادی کر دیجیئے ‘ وہ میری بات کبھی نہیں ٹالیں گی۔ بس ایک دو مہینے کے اندر اندر شادی ہو جائے گی۔ اگلے سٹیشن پر جب جاوید اُسے دیکھنے گیا تو وہ پانی پی رہی تھی‘ وہ جرأت کر کے آگے بڑھا اور اس سے مخاطب ہوا
’’آپ کو کسی اور چیز کی ضرورت ہو تو فرمائیے‘‘
لڑکی مسکرائی۔ دلفریب مسکراہٹ
’’مجھے سگریٹ لا دیجیے‘‘
جاوید نے بڑی حیرت سے پوچھا
’’آپ سگریٹ پیتی ہیں‘‘
’’وہ لڑکی پھر مسکرائی‘‘
جی نہیں۔ یہاں ایک عورت ہے‘ پردہ دار‘ اُس کو سگریٹ پینے کی عادت ہے‘‘
’’اوہ !۔ میں ابھی لایا۔ کس برانڈ کے سگریٹ ہوں؟‘‘
’’میرا خیال ہے وہ گولڈ فلیگ پیتی ہے‘‘
’’میں ابھی حاضر کیے دیتا ہوں‘‘
یہ کہہ کر جاوید اسٹال کی طرف دوڑا ‘ وہاں سے اُس نے دو پیکٹ لیے اور اُس لڑکی کے حوالے کر دیے‘ اُس نے شکریہ اُس عورت کی طرف سے ادا کیا جو سگریٹ پینے کی عادی تھی۔ جاوید اب اور بھی خوش تھا کہ اس لڑکی سے ایک اور ملاقات ہو گئی مگر اس بات کی بڑی الجھن تھی کہ وہ اس کا نام نہیں جانتا تھا‘ اُس نے کئی مرتبہ خود کو کوسا کہ اُس نے نام کیوں نہ پوچھا‘ اتنی باتیں ہوتی رہیں لیکن وہ اُس سے اتنا بھی نہ کہہ سکا
’’آپ کا نام؟‘‘
اُس نے ارادہ کر لیا کہ اگلے سٹیشن پر جب گاڑی ٹھہرے گی تو وہ اُس سے نام ضرور پوچھے گا اُسے یقین تھا کہ وہ فوراً بتا دے گی کیونکہ اس میں قباحت ہی کیا تھی۔ اگلا سٹیشن بہت دیر کے بعد آیا‘ اس لیے کہ فاصلہ بہت لمبا تھا۔ جاوید کو بہت کوفت ہو رہی تھی‘ اُس نے کئی مرتبہ ٹائم ٹیبل دیکھا‘ گھڑی بار بار دیکھی۔ اُس کا جی چاہتا تھا کہ انجن کو پر لگ جائیں تاکہ وہ اُڑ کر جلدی اگلے اسٹیشن پر پہنچ جائے۔ گاڑی ایک دم رُک گئی‘ معلوم ہوا کہ انجن کے ساتھ ایک بھینس ٹکرا گئی ہے۔ وہ اپنے کمپارٹمنٹ سے اُتر کر ساتھ والے ڈبے کے پاس پہنچا مگر لڑکی اپنی سیٹ پر موجود نہیں تھی۔ مسافروں نے مری کٹی ہوئی بھینس کو پٹڑی سے ہٹانے میں کافی دیر لگا دی۔ اتنے میں وہ لڑکی جو غالباً دوسری طرف تماشا دیکھنے میں مشغول تھی‘ آئی اور اپنی سیٹ پر بیٹھ گئی‘ جاوید پر جب اُس کی نظر پڑی تو مسکرائی۔ وہی دلفریب مسکراہٹ۔ جاوید کھڑکی کے پاس گیا ‘ مگر اس کا نام پوچھ نہ سکا۔ لڑکی نے اُس سے کہا
’’یہ بھینسیں کیوں گاڑی کے نیچے آ جاتی ہیں؟‘‘
جاوید کو کوئی جواب نہ سوجھا ‘ گاڑی چلنے والی تھی‘ اس لیے وہ اپنے کمپارٹمنٹ میں چلا گیا۔ کئی اسٹیشن آئے مگر وہ نہ اُترا۔ آخر لاہور آ گیا‘ پلیٹ فارم پر جب گاڑی رُکی تو وہ جلدی جلدی باہر نکلا ‘ لڑکی موجود تھی‘ جاوید نے اپنا سامان نکلوایا اور اُس سے جس نے ہاتھ میں اٹیچی کیس پکڑا ہوا تھا‘ کہا
’’لائیے ! یہ اٹیچی کیس مجھے دے دیجیئے‘‘
اُس لڑکی نے اٹیچی کیس جاوید کے حوالے کر دیا۔ قلی نے جاوید کا سامان اٹھایا اور دونوں باہر نکلے ‘ تانگہ لیا۔ جاوید نے اُس سے پوچھا
’’آپ کو کہاں جانا ہے‘‘
لڑکی کے ہونٹوں پر وہی دلفریب مسکراہٹ پیدا ہوئی
’’جی ہیرا منڈی‘‘
جاوید بوکھلا سا گیا
’’کیا آپ وہاں رہتی ہیں؟‘‘
لڑکی نے بڑی سادگی سے جواب دیا۔ جی ہاں۔ میرا مکان دیکھ لیں ‘ آج رات میرا مجرا سننے ضرور آئیے گا‘‘
جاوید پشاور سے لے کر لاہور تک اپنا مجرا سُن چکا تھا‘ اُس نے اس طوائف کو اُس کے گھر چھوڑا اور اس تانگے میں سیدھا لاریوں کے اڈے پہنچا اور راولپنڈی روانہ ہو گیا۔ ۲۶، مئی ۵۴ء









آرٹسٹ لوگ

جمیلہ کو پہلی بار محمود نے باغ جناح میں دیکھا۔ وہ اپنی دو سہیلیوں کے ساتھ چہل قدمی کررہی تھی۔ سب نے کالے برقعے پہنے تھے۔ مگر نقابیں اُلٹی ہوئی تھیں۔ محمود سوچنے لگا۔ یہ کس قسم کا پردہ ہے کہ برقع اوڑھا ہوا ہے۔ مگر چہرہ ننگا ہے۔ آخری اس پردے کا مطلب کیا؟۔ محمود جمیلہ کے حسن سے بہت متاثر ہوا۔ وہ اپنی سہیلیوں کے ساتھ ہنستی کھیلتی جارہی تھی۔ محمود اُس کے پیچھے چلنے لگا۔ اُس کو اس بات کا قطعاً ہوش نہیں تھا کہ وہ ایک غیر اخلاقی حرکت کا مرتکب ہو رہا ہے۔ اُس نے سینکڑوں مرتبہ جمیلہ کو گھور گھور کے دیکھا۔ اس کے علاوہ ایک دو بار اُس کو اپنی آنکھوں سے اشارے بھی کیے۔ مگر جمیلہ نے اسے درخور اعتنانہ سمجھا اور اپنی سہیلیوں کے ساتھ بڑھتی چلی گئی۔ اُس کی سہیلیاں بھی کافی خوبصورت تھیں۔ مگر محمود نے اُس میں ایک ایسی کشش پائی جو لوہے کے ساتھ مقناطیس کی ہوتی ہے۔ وہ اس کے ساتھ چمٹ کر رہ گیا۔ ایک جگہ اُس نے جرأت سے کام لے کر جمیلہ سے کہا۔
’’حضور اپنا نقاب تو سنبھالیے۔ ہوا میں اُڑ رہا ہے۔ ‘‘
جمیلہ نے یہ سُن کر شور مچانا شروع کر دیا۔ اس پر پولیس کے دو سپاہی جو اس وقت باغ میں ڈیوٹی پر تھے، دوڑتے آئے۔ اور جمیلہ سے پوچھا۔
’’بہن کیا بات ہے ؟‘‘
جمیلہ نے محمود کی طرف دیکھا جو سہما کھڑا تھا اور کہا
’’یہ لڑکا مجھ سے چھیڑ خانی کررہا تھا۔ جب سے میں اس باغ میں داخل ہوئی ہوں، یہ میرا پیچھا کررہا ہے۔ سپاہیوں نے محمود کا سرسری جائزہ لیا اور اس کو گرفتار کر کے حوالات میں داخل کر دیا۔ لیکن اُس کی ضمانت ہو گئی۔ اب مقدمہ شروع ہوا۔ اس کی روئداد میں جانے کی ضرورت نہیں۔ اس لیے کہ یہ تفصیل طلب ہے۔ قصہ مختصر یہ ہے کہ محمود کا جرم ثابت ہو گیااور اُسے دو ماہ قید با مشقت کی سزا مل گئی۔ اُس کے والدین نادار تھے۔ اس لیے وہ سیشن کی عدالت میں اپیل نہ کرسکے۔ محمود سخت پریشان تھا کہ آخر اس کا قصور کیا ہے۔ اس کو اگر ایک لڑکی پسند آ گئی تھی اور اُس نے اُس سے چند باتیں کرنا چاہیں تو یہ کیا جرم ہے، جس کی پاداش میں وہ دو ماہ قید با مشقت بھگت رہا ہے۔ جیل خانے میں وہ کئی مرتبہ بچوں کی طرح رویا۔ اس کو مصوری کا شوق تھا، لیکن اس سے وہاں چکی پسوائی جاتی تھی۔ ابھی اُسے جیل خانے میں آئے بیس روز ہی ہوئے تھے کہ اُسے بتایا گیا کہ اُس کی ملاقات آئی ہے۔ محمود نے سوچا کہ یہ ملاقاتی کون ہے؟ اُس کے والد تو اُس سے سخت ناراض تھے۔ والدہ اپاہج تھیں اور کوئی رشتے دار بھی نہیں تھے۔ سپاہی اسے دروازے کے پاس لے گیا جو آہنی سلاخوں کا بنا ہوا تھا۔ ان سلاخوں کے پیچھے اُس نے دیکھا کہ جمیلہ کھڑی ہے۔ وہ بہت حیرت زدہ ہوا۔ اُس نے سمجھا کہ شاید کسی اور کو دیکھنے آئی ہو گی۔ مگر جمیلہ نے سلاخوں کے پاس آ کر اُس سے کہا
’’میں آپ سے ملنے آئی ہوں‘‘
محمود کی حیرت میں اور بھی اضافہ ہو گیا
’’مجھ سے۔ ‘‘
’’جی ہاں۔ میں معافی مانگنے آئی ہوں کہ میں نے جلد بازی کی۔ جس کی وجہ سے آپ کو یہاں آنا پڑا۔ ‘‘
محمود مسکرایا۔
’’ہائے اس زُودِ پشیماں کا پشیماں ہونا۔ ‘‘
جمیلہ نے کہا۔
’’یہ غالبؔ ہے۔ ؟‘‘
’’جی ہاں۔ غالبؔ کے سوا اور کون ہوسکتا ہے جو انسان کے جذبات کی۔ ترجمانی کرسکے۔ میں نے آپ کو معاف کر دیا۔ لیکن میں یہاں آپ کی کوئی خدمت نہیں کرسکتا۔ اس لیے کہ یہ میرا گھر نہیں ہے سرکار کا ہے۔ اس کے لیے میں معافی کا خواستگار ہوں۔ ‘‘
جمیلہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
’’میں آپ کی خادمہ ہوں۔ ‘‘
چند منٹ ان کے درمیان اور باتیں ہوئیں، جو محبت کے عہد و پیمان تھیں۔ جمیلہ نے اُس کو صابن کی ایک ٹکیہ دی۔ مٹھائی بھی پیش کی اس کے بعد وہ ہر پندرہ دن کے بعد محمود سے ملاقات کرنے کے لیے آتی رہی۔ اس دوران میں ان دونوں کی محبت استوار ہو گئی۔ جمیلہ نے محمود کو ایک روز بتایا۔
’’مجھے موسیقی سیکھنے کا شوق ہے۔ آج کل میں خاں صاحب سلام علی خاں سے سبق لے رہی ہوں‘‘
محمود نے اُس سے کہا۔
’’مجھے مصوری کا شوق ہے۔ مجھے یہاں جیل خانے میں اور کوئی تکلیف نہیں۔ مشقت سے میں گھبراتا نہیں۔ لیکن میری طبیعت جس فن کی طرف مائل ہے اُس کی تسکین نہیں ہوتی۔ یہاں کوئی رنگ ہے نہ روغن ہے۔ کوئی کاغذ ہے نہ پنسل۔ بس چکی پیستے رہو۔ ‘‘
جمیلہ کی آنکھیں پھر آنسو بہانے لگیں۔
’’بس اب تھوڑے ہی دن باقی رہ گئے ہیں۔ آپ باہر آئیں۔ تو سب کچھ ہو جائے گا۔ محمود دو ماہ کی قید کاٹنے کے بعد باہر آیا تو جمیلہ دروازے پر موجود تھی۔ اس کالے برقعے میں جو اب بھوسلا ہو گیا تھا اور جگہ جگہ سے پھٹا ہوا تھا۔ دونوں آرٹسٹ تھے۔ اس لیے انھوں نے فیصلہ کیا کہ شادی کر لیں۔ چنانچہ شادی ہو گئی۔ جمیلہ کے ماں باپ کچھ اثاثہ چھوڑگئے تھے اس سے انھوں نے ایک چھوٹا سا مکان بنایا اور پُر مسرت زندگی بسر کرنے لگے۔ محمود ایک آرٹ سٹوڈیو میں جانے لگا تاکہ اپنی مصوری کا شوق پورا کرے۔ جمیلہ خاں صاحب سلام علی خاں سے پھر تعلیم حاصل کرنے لگی۔ ایک برس تک وہ دونوں تعلیم حاصل کرتے رہے۔ محمود مصوری سیکھتا رہا اور جمیلہ موسیقی۔ اس کے بعد سارا اثاثہ ختم ہو گیا اور نوبت فاقوں پر آگئی۔ لیکن دونوں آرٹ شیدائی تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ فاقے کرنے والے ہی صحیح طور پر اپنے آرٹ کی معراج تک پہنچ سکتے ہیں۔ اس لیے وہ اپنی اس مفلسی کے زمانے میں بھی خوش تھے۔ ایک دن جمیلہ نے اپنے شوہر کو یہ مژدہ سنایا کہ اسے ایک امیر گھرانے میں موسیقی سکھانے کی ٹیوشن مل رہی ہے۔ محمود نے یہ سُن کر اُس سے کہا۔
’’نہیں ٹیوشن ویوشن بکواس ہے۔ ہم لوگ آرٹسٹ ہیں‘‘
اس کی بیوی نے بڑے پیار کے ساتھ کہا
’’لیکن میری جان گزارہ کیسے ہو گا؟‘‘
محمود نے اپنے پھوسڑے نکلے ہوئے کوٹ کا کالر بڑے امیرانہ انداز میں درست کرتے ہوئے جواب دیا۔
’’آرٹسٹ کو ان فضول باتوں کا خیال نہیں رکھنا چاہیے۔ ہم آرٹ کے لیے زندہ رہتے ہیں۔ آرٹ ہمارے لیے زندہ نہیں رہتا‘‘
جمیلہ یہ سن کر خوش ہوئی،
’’لیکن میری جان آپ مصوری سیکھ رہے ہیں۔ آپ کو ہر مہینے فیس ادا کرنی پڑتی ہے۔ اس کا بندوبست بھی تو کچھ ہونا چاہیے۔ پھر کھانا پینا ہے۔ اس کا خرچ علیحدہ ہے۔ ‘‘
’’میں نے فی الحال موسیقی کی تعلیم لینا چھوڑ دی ہے۔ جب حالات موافق ہوں گے تو دیکھا جائے گا۔ ‘‘
دوسرے دن جمیلہ گھر آئی تو اُس کے پرس میں پندرہ روپے تھے جو اُس نے اپنے خاوند کے حوالے کر دئیے اور کہا
’’میں نے آج سے ٹیوشن شروع کر دی ہے، یہ پندرہ روپے مجھے پیشگی ملے ہیں۔ آپ مصوری کا فن سیکھنے کا کام جاری رکھیں‘‘
محمود کے مردانہ جذبات کو بڑی ٹھیس لگی۔
’’میں نہیں چاہتا کہ تم ملازمت کرو۔ ملازمت مجھے کرنا چاہیے۔ ‘‘
جمیلہ نے خاص انداز میں کہا۔
’’ہائے۔ میں آپ کی غیر ہوں۔ میں نے اگر کہیں تھوڑی دیر کے لیے ملازمت کر لی ہے تو اس میں ہرج ہی کیا ہے۔ بہت اچھے لوگ ہیں۔ جس لڑکی کو میں موسیقی کی تعلیم دیتی ہوں، بہت پیاری اور ذہین ہے۔ ‘‘
یہ سُن کر محمود خاموش ہو گیا۔ اس نے مزید گفتگو نہ کی۔ دوسرے ہفتے کے بعد وہ پچیس روپے لے کر آیا اور اپنی بیوی سے کہا
’’میں نے آج اپنی ایک تصویر بیچی ہے خریدار نے اُسے بہت پسند کیا۔ لیکن خسیس تھا۔ صرف پچیس روپے دئیے۔ اب اُمید ہے کہ میری تصویروں کے لیے مارکیٹ چل نکلے گی۔ جمیلہ مسکرائی۔ تو پھر کافی امیر آدمی ہو جائیں گے‘‘
محمود نے اُس سے کہا
’’جب میری تصویریں بکنا شروع ہو جائیں گی تو میں تمھیں ٹیوشن نہیں کرنے دُوں گا۔ ‘‘
جمیلہ نے اپنے خاوند کی ٹائی کی گرہ درست کی اور بڑے پیار سے کہا
’’آپ میرے مالک ہیں جو بھی حکم دیں گے مجھے تسلیم ہو گا۔ دونوں بہت خوش تھے اس لیے کہ وہ ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے۔ محمود نے جمیلہ سے کہا۔
’’اب تم کچھ فکر نہ کرو۔ میرا کام چل نکلا ہے۔ چار تصویریں کل پرسوں تک بک جائیں گی اور اچھے دام وصول ہو جائیں گے۔ پھر تم اپنی موسیقی کی تعلیم جاری رکھ سکو گی۔ ‘‘
ایک دن جمیلہ جب شام کو گھر آئی تو اُس کے سر کے بالوں میں دُھنکی ہوئی رُوئی کا غبار اس طرح جما تھا جیسے کسی ادھیڑ عمر آدمی کی داڑھی میں سفید بال۔ محمود نے اُس سے استفسار کیا۔
’’یہ تم نے اپنے بالوں کی کیا حالت بنا رکھی ہے۔ موسیقی سکھانے جاتی ہو یا کسی جننگ فیکٹری میں کام کرتی ہو‘‘
جمیلہ نے، جو محمود کی نئی رضائی کی پرانی روئی کو دُھنک رہی تھی مسکرا کر کہا۔
’’ہم آرٹسٹ لوگ ہیں۔ ہمیں کسی بات کا ہوش بھی نہیں رہتا۔ ‘‘
محمود نے حقے کی نے منہ میں لے کر اپنی بیوی کی طرف دیکھا اور کہا۔
’’ہوش واقعی نہیں رہتا‘‘
جمیلہ نے محمود کے بالوں میں اپنی انگلیوں سے کنگھی کرنا شروع کی۔
’’یہ دُھنکی ہوئی رُوئی کا غبار آپ کے سر میں کیسے آگیا ؟‘‘
۔ محمود نے حقے کا ایک کش لگایا۔
’’جیسا کہ تمہارے سر میں موجود ہے۔ ہم دونوں ایک ہی جننگ فیکٹری میں کام کرتے ہیں صرف آرٹ کی خاطر۔ ‘‘

اب اور کہنے کی ضرورت نہیں

یہ دنیا بھی عجیب و غریب ہے۔ خاص کر آج کا زمانہ۔ قانون کو جس طرح فریب دیا جاتا ہے ٗ اس کے متعلق شاید آپ کو زیادہ علم نہ ہو۔ آج کل قانون ایک بے معنی چیز بن کر رہ گیا ہے۔ ادھر کوئی نیا قانون بنتا ہے ٗ اُدھر یار لوگ اس کا توڑ سوچ لیتے ہیں ٗ اس کے علاوہ اپنے بچاؤ کی کئی صورتیں پیدا کر لیتے ہیں۔ کسی اخبار پر آفت آنی ہو تو آیا کرے، اس کا مالک محفوظ و مامون رہے گا ٗ اس لیے کہ پرنٹ لائن میں کسی قصائی یا دھوبی کا نام بحیثیت پرنٹر پبلشر اور ایڈیٹر کے درج ہو گا۔ اگر اخبار میں کوئی ایسی تحریر چھپ گئی جس پر گورنمنٹ کو اعتراض ہو تو اصل مالک کے بجائے وہ دھوبی یا قصائی گرفت میں آ جائے گا۔ اس کو جرمانہ ہو گا یا قید۔ جرمانہ تو ظاہر ہے اخبار کا مالک ادا کر دے گا، مگر قید تو وہ ادا نہیں کرسکتا۔ لیکن ان دو پارٹیوں کے درمیان اس قسم کا معاہدہ ہوتا ہے کہ اگر قید ہوئی تو وہ اس کے گھر اتنے روپے ماہوار پہنچا دیا کرئے گا۔ ایسے معاہدے میں خلاف ورزی بہت کم ہوتی ہے۔ جو لوگ ناجائز طور پر شراب بیچتے ہیں، ان کے پاس دو تین آدمی ایسے ضرور موجود ہوتے ہیں جن کا صرف یہ کام ہے کہ اگر پولیس چھاپہ مارے تو وہ گرفتار ہو جائیں اور چند ماہ کی قید کاٹ کر واپس آ جائیں اس کا معاوضہ ان کو معقول مل جاتا ہے۔ چھاپہ مارنے والے بھی پہلے ہی سے مطلع کر دیتے ہیں کہ ہم آرہے ہیں ٗ تم اپنا انتظام کر لو۔ چنانچہ فوراً انتظام کر لیا جاتا ہے ٗ یعنی مالک غائب غلہ ہو جاتا ہے اور وہ کرائے کے آدمی گرفتار ہو جاتے ہیں۔ یہ بھی ایک قسم کی ملازمت ہے لیکن دنیا میں جتنی ملازمتیں ہیں کچھ اسی قسم کی ہوتی ہیں۔ میں جب امین پہلوان سے ملا تو وہ تین مہینے کی قید کاٹ کر واپس آیا تھا۔ میں نے اس سے پوچھا :
’’امین ! اس دفعہ کیسے جیل میں گئے؟‘‘
امین مسکرایا:
’’اپنے کاروبار کے سلسلے میں‘‘
’’کیا کاروبار تھا؟‘‘
’’جو رہا، وہ ہے‘‘
’’بھئی بتاؤ تو۔ ‘‘
’’بتانے کی کیا ضرورت ہے۔ آپ اچھی طرح جانتے ہیں مگر خواہ مخواہ مجھ سے پوچھ رہے ہیں۔ ‘‘
میں نے تھوڑے سے توقف کے بعد اس سے کہا۔ ‘‘
امین ! تمہیں آئے دن جیل میں جانا کیا پسند ہے؟‘‘
امین پہلوان مسکرایا:
’’جناب۔ پسند اور نا پسند کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ لوگ مجھے پہلوان کہتے ہیں ٗ حالانکہ میں نے آج تک اکھاڑے کی شکل نہیں دیکھی۔ اَن پڑھ ہوں۔ کوئی اور ہنر بھی مجھے نہیں آتا۔ بس ٗ جیل جانا آتا ہے۔ وہاں میں خوش رہتا ہوں۔ مجھے کوئی تکلیف محسوس نہیں ہوتی۔ آپ ہر روز دفتر جاتے ہیں۔ کیا وہ جیل نہیں۔ ‘‘
میں لاجواب ہو گیا:
’’تم ٹھیک کہتے ہو۔ امین لیکن دفتر جانے والوں کا معاملہ دوسرا ہے۔ لوگ انہیں بُری نگاہوں سے نہیں دیکھتے۔ ‘‘
’’کیوں نہیں دیکھتے ! ضلع کچہری کے جتنے مُنشی اور کلرک ہیں‘ انہیں کون اچھی نظر سے دیکھتا ہے۔ رشوتیں لیتے ہیں۔ جھوٹ بولتے ہیں اور پرلے درجے کے مکار ہوتے ہیں۔ مجھ میں ایسا کوئی عیب نہیں۔ میں اپنی روزی بڑی ایمانداری سے کماتا ہوں۔ ‘‘
میں نے اس سے پوچھا۔
’’کس طرح؟‘‘
اس نے جواب دیا :
’’اس طرح کہ اگر کسی کا کام کرتا ہوں اور قید کاٹتا ہوں جیل میں محنت مشقت کرتا ہوں اور بعد میں اس شخص سے جس کی خاطر میں نے سزا بھگتی تھی ٗ مجھے دو تین سو روپیہ ملتا ہے تو یہ میرا معاوضہ ہے ٗ اس پر کسی کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔ میں رشوت تو نہیں لیتا۔ حلال کی کمائی کھاتا ہوں۔ لوگ مجھے غنڈا سمجھتے ہیں۔ بڑا خطرناک غنڈا۔ لیکن میں آپ کو بتاؤں کہ میں نے آج تک کسی کے تھپڑ بھی نہیں مارا۔ میری لائن بالکل الگ ہے۔ ‘‘
اس کی لائن واقعی دوسروں سے الگ تھی۔ مجھے حیرت تھی کہ تین چار مرتبہ قید کاٹنے کے باوجود اس میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔ وہ بڑا سنجیدہ مگر گنوار قسم کا آدمی تھا جس کو کسی کی پروا نہیں تھی۔ قید کاٹنے کے بعد جب بھی آتا تو اس کا وزن کم از کم دس پاؤنڈ زیادہ ہوتا۔ ایک دن میں نے اس سے پُوچھا۔
’’امین کیا وہاں کا کھانا تمہیں راس آتا ہے؟‘‘
اس نے اپنے مخصوص انداز میں جواب دیا :
’’کھانا کیسا بھی ہو ٗ اس کو راس کرنا آدمی کا اپنا کام ہے۔ مجھے دال سے نفرت تھی ٗ لیکن جب پہلی مرتبہ مجھے وہاں کنکروں بھری دال دی گئی اور ریت ملی روٹی تو میں نے کہا۔ امین یار۔ یہ سب سے اچھا کھانا ہے، کھا ٗ ڈنڑ پیل اور خدا کا شکر بجا لا۔ چنانچہ میں ایک دو روز ہی میں عادی ہو گیا۔ مشقت کرتا ٗ کھانا کھاتا اور یوں محسوس کرتا جیسے میں نے گنجے کے ہوٹل سے پیٹ بھر کر کھانا کھایا ہے۔ ‘‘
میں نے ایک دن اس سے پوچھا :
’’تم نے کبھی کسی عورت سے بھی محبت کی ہے؟‘‘
اس نے اپنے دونوں کان پکڑے۔
’’خدا بچائے اس محبت سے‘ مجھے صرف اپنی ماں سے محبت ہے۔ ‘‘
میں نے اس سے پوچھا:
’’تمہاری ماں زندہ ہے؟‘‘
’’جی ہاں۔ خدا کے فضل و کرم سے۔ بہت بوڑھی ہے لیکن آپ کی دعا سے اس کا سایہ میرے سر پر دیر تک قائم رہے گا اور وہ تو ہر وقت میرے لیے دعائیں مانگتی رہتی ہے کہ خدا مجھے نیکی کی ہدایت کرے۔ ‘‘
میں نے اُس سے کہا :
’’خدا تمہاری ماں کو سلامت رکھے ! پر میں نے یہ پوچھا تھا کہ تمہیں کسی عورت سے محبت ہوئی یا نہیں دیکھو ٗ جھوٹ نہیں بولنا !‘‘
امین پہلوان نے بڑے تیز لہجے میں کہا :
’’میں نے اپنی زندگی میں آج تک کبھی جھوٹ نہیں بولا۔ میں نے کسی عورت سے محبت نہیں کی۔ ‘‘
میں نے پوچھا :
’’کیوں‘‘
اس نے جواب دیا :
’’اس لیے کہ مجھے اس سے دلچسپی ہی نہیں۔ ‘‘
میں خاموش ہو رہا۔ تیسرے روز اس کی ماں پر فالج گرا اور وہ راہئ ملکِ عدم ہوئی۔ امین پہلوان کے پاس ایک پیسہ بھی نہیں تھا۔ وہ سوگوار ٗ مغموم اور دل شکستہ بیٹھا تھا کہ شہر کے ایک رئیس کی طرف سے اسے بلاوا آیا۔ وہ اپنی عزیز ماں کی میّت چھوڑ کر اس کے پاس گیا اور اس سے پوچھا : کیوں میاں صاحب ٗ آپ نے مجھے کیوں بلایا ہے؟‘‘
میاں صاحب نے کہا :
’’تمہیں کیوں بلایا جاتا ہے۔ ایک خاص کام ہے‘‘
امین نے جس کے دل و دماغ میں اپنی ماں کا کفن دفن تیر رہا تھا‘ پوچھا:
’’حضور یہ خاص کام کیا ہے؟‘‘
میاں صاحب نے سگریٹ سلگایا :
’’بلیک مارکیٹ کا قصہ ہے۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہ آج میرے گودام پر چھاپہ مارا جائے گا سو میں نے سوچا کہ امین پہلوان بہترین آدمی ہے جو اسے نمٹا سکتا ہے۔ ‘‘
امین نے بڑے مغموم اور زخمی انداز میں کہا:
’’آپ فرمائیے ٗ میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں؟‘‘
’’بھئی ٗ خدمت و دمت کی بات تم مت کرو۔ بس صرف اتنی سی بات ہے کہ جب چھاپہ پڑے تو گودام کے مالک تم ہو گے۔ گرفتار ہو جاؤ گے۔ زیادہ سے زیادہ جرمانہ پانچ ہزار روپے ہو گا اور ایک دو برس کی قید !‘‘
’’مجھے کیا ملے گا؟‘‘
’’جب وہاں سے رہا ہو کر آؤ گے تو معاملہ طے کر لیا جائے گا۔ ‘‘
امین نے میاں صاحب سے کہا :
’’حضور ٗ بہت دور کی بات ہے جرمانہ تو آپ ادا کر دیں گے، لیکن قید تو مجھے کاٹنی پڑے گی۔ آپ باقاعدہ سودا کریں۔ ‘‘
میاں صاحب مسکرائے :
’’تم سے آج تک میں نے کبھی وعدہ خلافی کی ہے۔ پچھلی دفعہ میں نے تم سے کام لیا اور تم کو تین مہینے کی قید ہوئی ٗ تو کیا میں نے جیل خانے میں ہر قسم کی سہولت بہم نہ پہنچائی۔ تم نے باہر آکر مجھ سے کہا کہ تمہیں وہاں کوئی تکلیف نہیں تھی۔ اگر تم کچھ عرصے کیلیے جیل چلے گئے تو وہاں تمہیں ہر آسائش ہو گی۔ ‘‘
امین نے کہا :
’’جی۔ یہ سب درست ہے۔ لیکن۔ ‘‘
’’لیکن کیا؟ امین کی آنکھوں میں آنسو آگئے :
’’میاں صاحب ! میری ماں مر گئی ہے۔ ‘‘
’’کب؟‘‘
’’آج صبح۔ ‘‘
میاں صاحب نے افسوس کا اظہار کیا :
’’کفنا دفنا دیا ہو گا۔ ‘‘
امین کی آنکھوں میں سے آنسو ٹپ ٹپ گِرنے لگے
’’میاں صاحب ابھی تو کچھ بھی نہیں ہوسکا۔ میرے پاس تو افیم کھانے کے لیے بھی کچھ نہیں ہے۔ ‘‘
میاں صاحب نے چند لمحات حالات پر غور کیا اور امین سے کہا :
’’تو ایسا کرو۔ میرا مطلب ہے کہ تجہیز و تکفین کا بندوبست میں ابھی کیے دیتا ہوں۔ تمہیں کسی قسم کا تردّد نہیں کرنا چاہیے۔ تم گودام پر جاؤ اور اپنی ڈیوٹی سنبھالو۔ ‘‘
امین نے اپنی میلی قمیص کی آستین سے آنسو پونچھے۔
’’لیکن میاں صاحب میں۔ میں اپنی ماں کے جنازے کو کندھا بھی نہ دوں!‘‘
میاں صاحب نے فلسفیانہ انداز میں کہا۔
’’یہ سب رسمی چیزیں ہیں، مرحومہ کو دفنانا ہے۔ سو یہ کام بڑی اچھی طرح سے ہو جائے گا تمہیں جنازے کے ساتھ جانے کی کیا ضرورت ہے۔ تمہارے ساتھ جانے سے مرحومہ کو کیا راحت پہنچے گی۔ وہ تو بے چاری اس دنیا سے رخصت ہو چکی ہے۔ اس کے جنازے کے ساتھ کوئی بھی جائے۔ کیا فرق پڑتا ہے۔ اصل میں تم لوگ جاہل ہو۔ میں اگر مر جاؤں تو مجھے کیا معلوم ہے کہ میرے جنازے میں کس کس عزیز اور دوست نے شرکت کی تھی۔ مجھے اگر جلا بھی دیا جائے تو کیا فرق پڑتا ہے۔ میری لاش کو چیلوں اور گِدھوں کے حوالے کر دیا جائے تو مجھے اس کی کیا خبر ہو گی۔ تم زیادہ جذباتی نہ ہو ٗ دنیا میں سب سے ضروری چیز یہ ہے۔ کہ اپنی ذات کے متعلق سوچا جائے۔ میں پوچھتا ہوں، تمہاری کمائی کے ذرائع کیا ہیں۔ ‘‘
امین سوچنے لگا۔ چند لمحات اپنی بساط کے مطابق غور کرنے کے بعد اس نے جواب دیا
’’حضور ! میری کمائی کے ذرائع آپ کو معلوم ہیں، مجھ سے کیوں پوچھتے ہیں۔ ‘‘
’’میں نے اس لیے پوچھا تھا کہ تمہیں میرا کام کرنے میں کیا حیل و حجت ہے۔ میں تمہاری ماں کی تجہیز و تکفین کا ابھی بندو بست کیے دیتا ہوں ٗ اور جب تم جیل سے واپس آؤ گے تو۔ ‘‘
امین پہلوان نے بڑے بینڈے انداز میں پوچھا۔
’’تو آپ میرا بھی بندو بست کر دیں گے۔ ‘‘
میاں صاحب بوکھلا گئے :
’’تم کیسی باتیں کرتے ہو امین پہلوان!‘‘
امین پہلوان نے ذرا درشت لہجے میں کہا :
’’امین پہلوان کی ایسی کی تیسی۔ آپ یہ بتائیے کہ مجھے کتنے روپے ملیں گے۔ میں ایک ہزار سے کم نہیں لوں گا۔ ‘‘
’’ایک ہزار تو بہت زیادہ ہیں۔ ‘‘
امین نے کہا :
’’زیادہ ہے یا کم۔ میں کچھ نہیں جانتا۔ میں جب قید کاٹ کر آؤں گا تو اپنی ماں کی قبر پختہ بناؤں گا ٗ سنگِ مر مر کی۔ وہ مجھ سے بہت پیار کرتی ہے۔ ‘‘
میاں صاحب نے اس سے کہا
’’اچھا بھئی ٗ ایک ہزار ہی لے لینا۔ ‘‘
امین نے میاں صاحب سے کہا :
’’تو لائیے اتنے روپے دیجئے کہ میں کفن دفن کا انتظام کر لوں۔ اس کے بعد میں آپ کی خدمت کیلیے حاضر ہو جاؤں گا۔ ‘‘
میاں صاحب نے اپنی جیب سے بٹوا نکالا۔
’’لیکن تمہارا کیا بھروسا ہے !‘‘
امین کو یوں محسوس ہوا جیسے اس کو کسی نے ماں بہن کی گالی دی ہے۔
’’میاں صاحب! آپ مجھے بے ایمان سمجھتے ہیں۔ بے ایمان آپ ہیں۔ اس لیے کہ اپنے فعلوں کا بوجھ میرے سر پر ڈال رہے ہیں۔ ‘‘
میاں صاحب موقع شناس تھے۔ انہوں نے سمجھا کہ امین بگڑ گیا ہے ٗ چنانچہ انہوں نے فوراً اپنی چرب زبانی سے رام کرنے کی کوشش کی لیکن امین پر کوئی اثر نہ ہوا۔ جب وہ گھر پہنچا تو دیکھا کہ غسّال اسکی ماں کو آخری غسل دے چکے ہیں۔ کفن بھی پہنایا جا چکا ہے۔ امین بہت متحیر ہوا کہ اس پر یہ مہربانی کس نے کی ہے۔ میاں صاحب نے۔ لیکن وہ تو سودا کرنا چاہتے تھے۔ اُس نے ایک آدمی سے جو تابوت کو سجانے کیلیے پھول گوندھ رہا تھا ٗ پوچھا
’’یہ کس آدمی نے اتنا اہتمام کیا ہے؟‘‘
پھول والے نے جواب دیا :
’’حضور! آپ کی بیوی نے۔ ‘‘
امین چکرا گیا۔ وہ اپنے شدید تعجب کا مظاہرہ کرتا مگر خاموش رہا۔ پھول والے سے صرف اتنا پوچھا۔
’’کہاں ہیں وہ۔ ‘‘
پھول والے نے جواب دیا :
’’جی اندر ہیں۔ آپ کا انتظار کررہی تھیں۔ ‘‘
امین اندر گیا۔ تو دیکھا کہ ایک نوجوان ٗ خوبصورت لڑکی اس کی چارپائی پر بیٹھی ہے۔ امین نے اس سے پوچھا۔
’’آپ کون ہیں۔ یہاں کیوں آئی ہیں‘‘
اُس لڑکی نے جواب دیا۔
’’میں آپ کی بیوی ہوں‘ یہاں کیوں آئی ہوں ٗ یہ آپ کا عجیب و غریب سوال ہے۔ ‘‘
امین نے اس سے پوچھا :
’’میری بیوی تو کوئی بھی نہیں۔ بتاؤ تم کون ہو۔ ‘‘
لڑکی مسکرائی :
’’میں۔ میاں۔ دین کی بیٹی ہوں۔ ان سے جو آپ کی گفتگو ہوئی ٗ میں نے سب سُنی۔ اور۔ اور۔ ‘‘
امین نے کہا :
’’اب اور کہنے کی ضرورت نہیں۔ ‘‘












1919ء کی ایک بات

یہ1919ء کی بات ہے بھائی جان جب رولٹ ایکٹ کے خلاف سارے پنجاب میں ایجی ٹیشن ہورہی تھی۔ میں امرتسر کی بات کررہا ہوں۔ سرمائیکل اوڈوائر نے ڈیفنس آف انڈیا رولز کے ماتحت گاندھی جی کا داخلہ پنجاب میں بندکردیا تھا۔ وہ ادھر آرہے تھے کہ پلوال کے مقام پر ان کو روک لیا گیا اور گرفتار کرکے واپس بمبئے بھیج دیا گیا۔ جہاں تک میں سمجھتا ہوں بھائی جان اگر انگریز یہ غلطی نہ کرتا تو جلیاں والا باغ کا حادثہ اس کی حکمرانی کی سیاہ تاریخ میں ایسے خونیں ورق کا اضافہ کبھی نہ کرتا۔ کیا مسلمان، کیا ہندو، کیا سکھ، سب کے دل میں گاندھی جی کی بے حد عزت تھی۔ سب انھیں مہاتما مانتے تھے۔ جب ان کی گرفتاری کی خبر لاہور پہنچی تو سارا کاروبار ایک دم بند ہو گیا۔ یہاں سے امرتسر والوں کو معلوم ہوا، چنانچہ یوں چٹکیوں میں مکمل ہڑتال ہو گئی۔ کہتے ہیں کہ نو اپریل کی شام کو ڈاکٹر ستیہ پال اور ڈاکٹر کچلو کی جلا وطنی کے احکام ڈپٹی کمشنر کو مل گئے تھے۔ وہ ان کی تعمیل کے لیے تیار نہیں تھا۔ اس لیے کہ اس کے خیال کے مطابق امرتسر میں کسی ہیجان خیز بات کا خطرہ نہیں تھا۔ لوگ پرامن طریقے پر احتجاجی جلسے وغیرہ کرتے تھے۔ جن سے تشدد کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ میں اپنی آنکھوں دیکھا حال بیان کرتا ہوں۔ نوکو رام نومی تھا۔ جلوس نکلا مگر مجال ہے جو کسی نے حکام کی مرضی کے خلاف ایک قدم اٹھایا ہو، لیکن بھائی جان سرمائیکل عجب اوندھی کھوپری کا انسان تھا۔ اس نے ڈپٹی کمشنر کی ایک نہ سنی۔ اس پر بس یہی خوف سوار تھا کہ یہ لیڈر مہاتما گاندھی کے اشارے پر سامراج کا تختہ الٹنے کے در پے ہیں، اور جو ہڑتالیں ہورہی ہیں اور جلسے منعقد ہوتے ہیں ان کے پس پردہ یہی سازش کام کررہی ہے۔ ڈاکٹر کچلو اور ڈاکٹر ستیہ پال کی جلا وطنی کی خبر آناً فاناً شہر میں آگ کی طرح پھیل گئی۔ دل ہر شخص کا مکدر تھا۔ ہر وقت دھڑکا سا لگا رہتا تھا کہ کوئی بہت بڑا حادثہ برپا ہونے والا ہے، لیکن بھائی جان جوش بہت زیادہ تھا۔ کاروبار بند تھے۔ شہر قبرستان بنا ہوا تھا، پر اس قبرستان کی خاموشی میں بھی ایک شور تھا۔ جب ڈاکٹو کچلو اور ستیہ پال کی گرفتاری کی خبر آئی تو لوگ ہزاروں کی تعداد میں اکٹھے ہوئے کہ مل کر ڈپٹی کمشنر بہادر کے پاس جائیں اور اپنے محبوب لیڈروں کی جلا وطنی کے احکام منسوخ کرانے کی درخواست کریں۔ مگر وہ زمانہ بھائی جان درخواستیں سننے کا نہیں تھا۔ سرمائیکل جیسا فرعون حاکمِ اعلیٰ تھا۔ اس نے درخواست سننا تو کجا لوگوں کے اس اجتماع ہی کو غیر قانونی قرار دیا۔ امرتسر۔ وہ امرتسر جو کبھی آزادی کی تحریک کا سب سے بڑا مرکز تھا۔ جس کے سینے پر جلیاں والا باغ جیسا قابل فخرزخم تھا۔ آج کس حالت میں ہے؟۔ لیکن چھوڑیئے اس قصے کو۔ دل کو بہت دکھ ہوتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ اس مقدس شہر میں جو کچھ آج سے پانچ برس پہلے ہوا اس کے ذمہ دار بھی انگریز ہیں۔ ہو گا بھائی جان، پر سچ پوچھئے تو اس لہو میں جو وہاں بہاہے ہمارے اپنے ہی ہاتھ رنگے ہوئے نظر آتے ہیں۔ خیر!۔ ڈپٹی کمشنر صاحب کا بنگلہ سول لائنز میں تھا۔ ہر بڑا افسر اور ہر بڑا ٹوڈی شہر کے اس الگ تھلگ حصے میں رہتا تھا۔ آپ نے امرتسر دیکھا ہے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ شہر اور سول لائنز کو ملانے والا ایک پل ہے جس پر سے گزر کر آدمی ٹھنڈی سڑک پر پہنچتا ہے۔ جہاں حاکموں نے اپنے لیے یہ ارضی جنت بنائی ہوئی تھی۔ ہجوم جب ہال دروازے کے قریب پہنچا تو معلوم ہوا کہ پل پرگھڑ سوار گوروں کا پہرہ ہے۔ ہجوم بالکل نہ رکا اور بڑھتا گیا۔ بھائی جان میں اس میں شامل تھا۔ جوش کتنا تھا، میں بیان نہیں کرسکتا، لیکن سب نہتے تھے۔ کسی کے پاس ایک معمولی چھڑی تک بھی نہیں تھی۔ اصل میں وہ تو صرف اس غرض سے نکلے تھے کہ اجتماعی طور پر اپنی آواز حاکم شہر تک پہنچائیں اور اس سے درخواست کریں کہ ڈاکٹر کچلو اور ڈاکٹر ستیہ پال کو غیرمشروط طور پر رہا کردے۔ ہجوم پل کی طرف بڑھتا رہا۔ لوگ قریب پہنچے تو گوروں نے فائر شروع کردیے۔ اس سے بھگدڑ مچ گئی۔ وہ گنتی میں صرف بیس پچیس تھے اور ہجوم سینکڑوں پر مشتمل تھا، لیکن بھائی گولی کی دہشت بہت ہوتی ہے۔ ایسی افراتفری پھیلی کہ الاماں۔ کچھ گولیوں سے گھائل ہوئے اور کچھ بھگدڑ میں زخمی ہوء۔ دائیں ہاتھ کو گندا نالا تھا۔ دھکا لگا تو میں اس میں گر پڑا۔ گولیاں چلنی بند ہوئیں تو میں نے اٹھ کر دیکھا۔ ہجوم تتر بتر ہو چکا تھا۔ زخمی سڑک پر پڑے تھے اور پل پر گورے کھڑے ہنس رہے تھے۔ بھائی جان مجھے قطعاً یاد نہیں کہ اس وقت میری دماغی حالت کس قسم کی تھی۔ میرا خیال ہے کہ میرے ہوش و حواس پوری طرح سلامت نہیں تھے۔ گندے نالے میں گرتے وقت تو قطعاً مجھے ہوش نہیں تھا۔ جب باہر نکلا تو جو حادثہ وقوع پذیر ہوا تھا، اس کے خدوخال آہستہ آہستہ دماغ میں ابھرنے شروع ہوئے۔ دور شور کی آواز سنائی دے رہی تھی جیسے بہت سے لوگ غصے میں چیخ چلا رہے ہیں۔ میں گندا نالا عبور کرکے ظاہرا پیر کے تکیے سے ہوتا ہوا ہال دروازے کے پاس پہنچا تو دیکھا کہ تیس چالیس نوجوان جوش میں بھرے پتھر اٹھا اٹھا کر دروازے کے گھڑیال پر مار رہے ہیں۔ اس کا شیشہ ٹوٹ کر سڑک پرگرا تو ایک لڑکے نے باقیوں سے کہا۔
’’چلو۔ ملکہ کا بت توڑیں!‘‘
دوسرے نے کہا۔
’’نہیں یار۔ کوتوالی کو آگ لگائیں!‘‘
تیسرے نے کہا۔
’’اور سارے بینکوں کو بھی!‘‘
چوتھے نے ان کو روکا۔
’’ٹھہرو۔ اس سے کیا فائدہ۔ چلو پل پر ان لوگوں کو ماریں۔ ‘‘
میں نے اس کو پہچان لیا۔ یہ تھیلا کنجر تھا۔ نام محمد طفیل تھا مگر تھیلا کنجر کے نام سے مشہور تھا۔ اس لیے کہ ایک طوائف کے بطن سے تھا۔ بڑا آوارہ گرد تھا۔ چھوٹی عمر ہی میں اس کو جوئے اور شراب نوشی کی لت پڑ گئی تھی۔ اس ک دو بہنیں شمشاد اور الماس اپنے وقت کی حسین ترین طوائفیں تھیں۔ شمشاد کا گلا بہت اچھا تھا۔ اس کا مجرا سننے کے لیے رئیس بڑی بڑی دور سے آتے تھے۔ دونوں اپنے بھائی کے کرتوتوں سے بہت نالاں تھیں۔ شہر میں مشہور تھا کہ انھوں نے ایک قسم کا اس کو عاق کر رکھا ہے۔ پھر بھی وہ کسی نہ کسی حیلے اپنی ضروریات کے لیے ان سے کچھ نہ کچھ وصول کر ہی لیتا تھا۔ ویسے وہ بہت خوش پوش رہتا تھا۔ اچھا کھاتا تھا، اچھا پیتا تھا۔ بڑا نفاست پسند تھا۔ بذلہ سنجی اور لطیفہ گوئی مزاج میں کوٹ کوٹ کے بھری تھی۔ میراثیوں اور بھانڈوں کے سوقیانہ پن سے بہت دور رہتا تھا۔ لمباقد، بھرے بھرے ہاتھ پاؤں، مضبوط کسرتی بدن۔ ناک نقشے کا بھی خاصا تھا۔ پرجوش لڑکوں نے اس کی بات نہ سنی اور ملکہ کے بت کی طرف چلنے لگے۔ اس نے پھر ان سے کہا۔
’’میں نے کہا مت ضائع کرو اپنا جوش۔ ادھر آؤ میرے ساتھ۔ چلو ان کو ماریں جنہوں نے ہمارے بے قصور آدمیوں کی جان لی ہے اور انھیں زخمی کیا ہے۔ خدا کی قسم ہم سب مل کر ان کی گردن مروڑ سکتے ہیں۔ چلو!‘‘
کچھ روانہ ہو چکے تھے۔ باقی رک گئے۔ تھیلا پل کی طرف بڑھا تو اس کے پیچھے چلنے لگے۔ میں نے سوچا کہ ماؤں کے یہ لال بیکار موت کے منہ میں جارہے ہیں۔ فوارے کے پاس دبکا کھڑا تھا۔ وہیں میں نے تھیلے کو آواز دی اور کا۔
’’مت جاؤ یار۔ کیوں اپنی اور ان کی جان کے پیچھے پڑے ہو۔ ‘‘
تھیلے نے یہ سن کر ایک عجیب سا قہقہہ بلند کیا اور مجھ سے کہا۔
’’تھیلا صرف یہ بتانے چلا ہے کہ وہ گولیوں سے ڈرنے والا نہیں۔ ‘‘
پھر وہ اپنے ساتھیوں سے مخاطب ہوا۔
’’تم ڈرتے ہو تو واپس جاسکتے ہو۔ ‘‘
ایسے موقعوں پر بڑھے ہوئے قدم الٹے کیسے ہوسکتے ہیں۔ اور پھر وہ بھی اس وقت جب لیڈر اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر آگے آگے جارہا ہو۔ تھیلے نے قدم تیز کیے تو اس کے ساتھیوں کو بھی کرنے پڑے۔ ہال دروازے سے پل کا فاصلہ کچھ زیادہ نہیں۔ ہو گاکوئی ساٹھ ستر گز کے قریب۔ تھیلا سب سے آگے آگے تھا۔ جہاں سے پل کا دورویہ متوازی جنگلہ شروع ہوتا ہے، وہاں سے پندرہ بیس قدم کے فاصلے پر دو گھڑ سوار گورے کھڑے تھے۔ تھیلا نعرے لگاتا جب بنگلے کے آغاز کے پاس پہنچا تو فائر ہوا۔ میں سمجھا کہ وہ گر پڑا ہے۔ لیکن دیکھا کہ وہ اسی طرح۔ زندہ آگے بڑھ رہا ہے۔ اس کے باقی ساتھی ڈر کے بھاگ اٹھے ہیں۔ مڑ کر اس نے پیچھے دیکھا اور چلایا۔
’’بھاگو نہیں۔ آؤ!‘‘
اس کا منہ میری طرف تھا کہ ایک اور فائر ہوا۔ پلٹ کر اس نے گوروں کی طرف دیکھا اور پیٹھ پر ہاتھ پھیرا۔ بھائی جان نظر تو مجھے کچھ نہیں آنا چاہیے تھا، مگر میں نے دیکھا کہ اس کی سفید بوسکی کی قمیض پر لال لال دھبے تھے۔ وہ اور تیزی سے بڑھا، جیسے زخمی شیر۔ ایک اور فائر ہوا۔ وہ لڑکھڑایا مگر ایک دم قدم مضبوط کرکے وہ گھر سوار گورے پر لپکا اور چشم زدن میں جانے کیا ہوا۔ گھوڑے کی پیٹھ خالی تھی۔ گورا زمین تھا اور تھیلا اس کے اوپر۔ دوسرے گورے نے جو قریب تھا اور پہلے بوکھلا گیا تھا، بِدکتے ہوئے گھوڑے کو روکا اور دھڑا دھڑ فائر شروع کردیے۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا مجھے معلوم نہیں۔ میں وہاں فوارے کے پاس بے ہوش ہو کر گر پڑا۔ بھائی جان جب مجھے ہوش آیا تو میں اپنے گھر میں تھا۔ چند پہچان کے آدمی مجھے وہاں سے اٹھا لائے تھے۔ ان کی زبانی معلوم ہوا کہ پل پر سے گولیاں کھا کر ہجوم مشتعل ہو گیا تھا۔ نتیجہ اس اشتعال کا یہ ہوا کہ ملکہ کے بت کو توڑنے کی کوشش کی گئی۔ ٹاؤن ہال اور تین بنکوں کو آگ لگی اور پانچ یا چھ یورپین مارے گئے۔ خوب لوٹ مچی۔ لوٹ کھسوٹ کا انگریز افسروں کو اتنا خیال نہیں تھا۔ پانچ یا چھ یورپین ہلاک ہوئے تھے اس کا بدلہ لینے کے لیے چنانچہ جلیاں والا باغ کا خونیں حادثہ رونما ہوا۔ ڈپٹی کمشنر بہادر نے شہر کی باگ دوڑ جنرل ڈائر کے سپرد کردی۔ چنانچہ جنرل صاحب نے بارہ اپریل کو فوجیوں کے ساتھ شہر کے مختلف بازاروں میں مارچ کیا اور درجنوں بے گناہ آدمی گرفتار کیے۔ تیرہ کو جلیاں والا باغ میں جلسہ ہوا۔ قریب قریب پچیس ہزار کا مجمع تھا۔ شام کے قریب جنرل ڈائر مسلح گوروں اور سکھوں کے ساتھ وہاں پہنچا اور نہتے آدمیوں پر گولیوں کی بارش شروع کردی۔ اس وقت تو کسی کو نقصان جان کا ٹھیک اندازہ نہیں تھا۔ بعد میں جب تحقیق ہوئی تو پتہ چلا کہ ایک ہزار ہلاک ہوئے ہیں اور تین یا چار ہزار کے قریب زخمی۔ لیکن میں تھیلے کی بات کررہا تھا۔ بھائی جان آنکھوں دیکھی آپ کو بتا چکا ہوں۔ بے عیب ذات خدا کی ہے۔ مرحوم میں چاروں عیب شرعی تھے۔ ایک پیشہ طوائف کے بطن سے تھا مگر جیالا تھا۔ میں اب یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اس ملعون گورے کی پہلی گولی بھی اس کے لگی تھی۔ آواز سن کر اس نے جب پلٹ کر اپنے ساتھیوں کی طرف دیکھا تھا، اور انھیں حوصلہ دلایا تھا جوش کی حالت میں اس کومعلوم نہیں ہوا تھا کہ اسکی چھاتی میں گرم گرم سیسہ اتر چکا ہے۔ دوسری گولی اس کی پیٹھ میں لگی۔ تیسری پھر سینے میں۔ میں نے دیکھا نہیں، پر سنا ہے جب تھیلے کی لاش گورے سے جدا کی گئی تو اس کے دونوں ہاتھ اس کی گردن میں اس بری طرح پیوست تھے کہ علیحدہ نہیں ہوتے تھے۔ گورا جہنم واصل ہو چکا تھا۔ دوسرے روز جب تھیلے کی لاش کفن دفن کے لیے اس کے گھر والوں کے سپرد کی گئی تو اس کا بدن گولیوں سے چھلنی ہورہا تھا۔ دوسرے گورے نے تو اپنا پورا پستول اس پر خالی کردیا تھا۔ میرا خیال ہے اس وقت مرحوم کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کر چکی تھی۔ اس شیطان کے بچے نے صرف اس کے مردہ جسم پر چاند ماری کی تھی۔ کہتے ہیں جب تھیلے کی لاش محلے میں پہنچی تو کہرام مچ گیا۔ اپنی برادری میں وہ اتنا مقبول نہیں تھا، لیکن اس کی قیمہ قیمہ لاش دیکھ کر سب دھاڑیں مار مار کررونے لگے۔ اس کی بہنیں شمشاد اور الماس تو بے ہوش ہو گئیں۔ جب جنازہ اٹھا تو ان دونوں نے ایسے بین کیے کہ سننے والے لہو کے آنسو روتے رہے۔ بھائی جان، میں نے کہیں پڑھا تھا کہ فرانس کے انقلاب میں پہلی گولی وہاں کی ایک ٹکھیائی کے لگی تھی۔ مرحوم محمد طفیل ایک طوائف کا لڑکا تھا۔ انقلاب کی اس جدوجہد میں اس کے جو پہلی گولی لگی تھی دسویں تھی یا پچاسویں۔ اس کے متعلق کسی نے بھی تحقیق نہیں کی۔ شاید اس لیے کہ سوسائٹی میں اس غریب کا کوئی رتبہ نہیں تھا۔ میں تو سمجھتا ہوں پنجاب کے اس خونیں غسل میں نہانے والوں کی فہرست میں تھیلے کنجر کا نام و نشان تک بھی نہیں ہو گا۔ اور یہ بھی کوئی پتہ نہیں کہ ایسی کوئی فہرست تیار بھی ہوئی تھی۔ سخت ہنگامی دن تھے۔ فوجی حکومت کا دور دورہ تھا۔ وہ دیو جسے مارشل لاء کہتے ہیں۔ شہر کے گلی گلی کوچے کوچے میں ڈکارتا پھرتا تھا۔ بہت افراتفری کے عالم میں اس غریب کوجلدی جلدی یوں دفن کیا گیا جیسے اس کی موت اس کے سوگوار عزیزوں کا ایک سنگین جرم تھی جس کے نشانات وہ مٹا دینا چاہتے تھے۔ بس بھائی جان تھیلا مر گیا۔ تھیلا دفنا دیا گیا اور۔ اور‘‘
یہ کہہ کر میرا ہم سفر پہلی مرتبہ کچھ کہتے کہتے رکا اور خاموش ہو گیا۔ ٹرین دندناتی ہوئی جارہی تھی۔ پٹڑیوں کی کھٹا کھٹ نے یہ کہنا شروع کردیا۔
’’تھیلا مر گیا۔ تھیلا دفنا دیا گیا۔ تھیلا مر گیا۔ تھیلا دفنا دیاگیا۔ ‘‘
اس مرنے اور دفنانے کے درمیان کوئی فاصلہ نہیں تھا، جیسے وہ اُدھر مرا اور اِدھر دفنادیا گیا۔ اور کھٹ کھٹ کے ساتھ ان الفاظ کی ہم آہنگی کچھ اس قدر جذبات سے عاری تھی کہ مجھے اپنے دماغ سے ان دونوں کو جدا کرنا پڑا۔ چنانچہ میں نے اپنے ہم سفر سے کہا۔
’’آپ کچھ اور بھی سنانے والے تھے؟‘‘
چونک کر اس نے میری طرف دیکھا۔
’’جی ہاں۔ اس داستان کا ایک افسوسناک حصہ باقی ہے۔ ‘‘
میں نے پوچھا۔
’’کیا؟‘‘
اس نے کہنا شروع کیا۔
’’میں آپ سے عرض کر چکا ہوں کہ تھیلے کی دو بہنیں تھیں۔ شمشاد اور الماس۔ بہت خوبصورت تھیں۔ شمشاد لمبی تھی۔ پتلے پتلے نقش۔ غلافی آنکھیں۔ ٹھمری بہت خوب گاتی تھی۔ سنا ہے خاں صاحب فتح علی خاں سے تعلیم لیتی رہی تھی۔ دوسری الماس تھی۔ اس کے گلے میں سُر نہیں تھا، لیکن بتاوے میں اپنا ثانی نہیں رکھتی تھی۔ مجرا کرتی تھی تو ایسا لگتا تھا کہ اس کا انگ انگ بول رہا ہے۔ ہر بھاؤ میں ایک گھات ہوتی تھی۔ آنکھوں میں وہ جادو تھا جو ہر ایک کے سر پر چڑھ کے بولتا تھا۔ ‘‘
میرے ہم سفر نے تعریف و توصیف میں کچھ ضرورت سے زیادہ وقت لیا۔ مگر میں نے ٹوکنا مناسب نہ سمجھا۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ خود اس لمبے چکر سے نکلا اور داستان کے افسوناک حصے کی طرف آیا۔
’’قصہ یہ ہے بھائی جان کہ ان آفت کی پرکالہ دو بہنوں کے حسن و جمال کا ذکر کسی خوشامدی نے فوجی افسروں سے کردیا۔ بلوے میں ایک میم۔ کیا نام تھا اس چڑیل کا؟۔ مس۔ مس شروڈماری گئی تھی۔ طے یہ ہوا کہ ان کو بلوایا جائے اور۔ اور۔ جی بھر کے انتقام لیا جائے۔ آپ سمجھ گئے نا بھائی جان؟‘‘
میں نے کہا۔
’’جی ہاں!‘‘
میرے ہم سفر نے ایک آہ بھری
’’ایسے نازک معاملوں میں طوائفیں اور کسبیاں بھی اپنی مائیں بہنیں ہوتی ہیں۔ مگر بھائی جان یہ ملک اپنی عزت و ناموس کو میرا خیال ہے پہچانتا ہی نہیں۔ جب اوپر سے علاقے کے تھانیدار کو آرڈر ملا تو وہ فوراً تیار ہو گیا۔ چنانچہ وہ خود شمشاد اور الماس کے مکان پر گیا اور کہا کہ صاحب لوگوں نے یاد کیا ہے۔ وہ تمہارا مجرا سننا چاہتے ہیں۔ بھائی کی قبر کی مٹی بھی ابھی تک خشک نہیں ہوئی تھی۔ اللہ کو پیارا ہوئے اس غریب کو صرف دو دن ہوئے تھے کہ یہ حاضری کا حکم صادر ہوا کہ آؤ ہمارے حضور ناچو۔ اذیت کا اس سے بڑھ کرپُر اذیت طریقہ کیا ہوسکتا ہے۔ ؟۔ مستبعد تمسخر کی ایسی مثال میرا خیال ہے شاید ہی کوئی اور مل سکے۔ کیا حکم دینے والوں کو اتنا خیال بھی نہ آیا کہ طوائف بھی غیرت مند ہوتی ہے؟۔ ہو سکتی ہے۔ کیوں نہیں ہوسکتی؟‘‘
اس نے اپنے آپ سے سوال کیا، لیکن مخاطب وہ مجھ سے تھا۔ میں نے کہا۔
’’ہوسکتی ہے!‘‘
’’جی ہاں‘‘
۔ تھیلا آخر ان کا بھائی تھا۔ اس نے کسی قمار خانے کی لڑائی بھڑائی میں اپنی جان نہیں دی تھی۔ وہ شراب پی کر دنگا فساد کرتے ہوئے ہلاک نہیں ہوا تھا۔ اس نے وطن کی راہ میں بڑے بہادرانہ طریقے پر شہادت کا جام پیا تھا۔ وہ ایک طوائف کے بطن سے تھا۔ لیکن وہ طوائف ماں تھی اور شمشاد اور الماس اسی کی بیٹیاں تھیں اور یہ تھیلے کی بہنیں تھیں۔ طوائفیں بعد میں تھیں۔ اور وہ تھیلے کی لاش دیکھ کر بے ہوش ہو گئی تھیں۔ جب اس کا جنازہ اٹھا تھا۔ تو انھوں نے ایسے بین کیے تھے کہ سن کر آدمی لہو روتا تھا۔ ‘‘
میں نے پوچھا۔
’’وہ گئیں؟‘‘
میرے ہم سفر نے اس کا جواب تھوڑے وقفے کے بعد افسردگی سے دیا۔
’’جی ہاں۔ جی ہاں گئیں۔ خوب سج بن کر۔ ‘‘
ایک دم اس کی افسردگی تیکھا پن اختیار کرگئی۔
’’سولہ سنگار کرکے اپنے بلانے والوں کے پاس گئیں۔ کہتے ہیں کہ خوب محفل جمی۔ دونوں بہنوں نے اپنے جوہر دکھائے۔ زرق برق پشوازوں میں ملبوس وہ کوہ قاف کی پریاں معلوم ہوتی تھیں۔ شراب کے دور چلتے رہے اور وہ ناچتی گاتی رہیں۔ یہ دونوں دور چلتے رہے۔ اور کہتے ہیں کہ۔ رات کے دو بجے ایک بڑے افسر کے اشارے پر محفل برخواست ہوئی۔ ‘‘
وہ اٹھ کھڑا ہو اور باہر بھاگتے ہوئے درختوں کو دیکھنے لگا۔ پہیوں اور پٹڑیوں کی آہنی گڑگڑاہٹ کی تال پراس کے آخری دو لفظ ناچنے لگے۔
’’برخواست ہوئی۔ برخواست ہوئی۔ ‘‘
میں نے اپنے دماغ میں انھیں، آہنی گڑگڑاہٹ سے نوچ کر علیحدہ کرتے ہوئے اس سے پوچھا۔
’’پھرکیاہوا؟‘‘
بھاگتے ہوئے درختوں اور کھمبوں سے نظریں ہٹا کر اس نے بڑے مضبوط لہجے میں کہا۔
’’انھوں نے اپنی زرق برق پشوازیں نوچ ڈالیں اور الف ننگی ہو گئیں اور کہنے لگیں۔ لو دیکھ لو۔ ہم تھیلے کی بہنیں ہیں۔ اس شہید کی جس کے خوبصورت جسم کو تم نے صرف اس لیے اپنی گولیوں سے چھلنی چھلنی کیا تھا کہ اس میں وطن سے محبت کرنے والی روح تھی۔ ہم اسی کی خوبصورت بہنیں ہیں۔ آؤ، اپنی شہوت کے گرم گرم لوہے سے ہمارا خوشبوؤں میں بسا ہوا جسم داغدار کرو۔ مگر ایسا کرنے سے پہلے صرف ہمیں ایک بار اپنے منہ پر تھوک لینے دو۔ ‘‘
یہ کہہ کر وہ خاموش ہو گیا۔ کچھ اس طرح کہ اور نہیں بولے گا۔ میں نے فوراً ہی پوچھا۔
’’پھر کیا ہوا؟‘‘
اس کی آنکھوں میں آنسو ڈبڈبا آئے۔
’’اُن کو۔ ان کو گولی سے اڑا دیا گیا۔ ‘‘
میں نے کچھ نہ کہا۔ گاڑی آہستہ ہوکر اسٹیشن پر رکی تو اس نے قلی بلا کر اپنا اسباب اٹھوایا۔ جب جانے لگا تومیں نے اس سے کہا۔
’’آپ نے جو داستان سنائی، اس کا انجام مجھے آپ کا خود ساختہ معلوم ہوتا ہے۔ ‘‘
ایک دم چونک کر اس نے میری طرف دیکھا۔
’’یہ آپ نے کیسے جانا؟‘‘
میں نے کہا۔
’’آپ کے لہجے میں ایک ناقابل بیان کرب تھا۔ ‘‘
میرے ہم سفر نے اپنے حلق کی تلخی تھوک کے ساتھ نگلتے ہوئے کہا۔
’’جی ہاں۔ اُن حرام۔ ‘‘
وہ گالی دیتے دیتے رک گیا۔ انھوں نے اپنے شہید بھائی کے نام پر بٹا لگا دیا۔ ‘‘
یہ کہہ کر وہ پلیٹ فارم پر اتر گیا۔ 11-12اکتوبر1951ء






جماعت نہم تا جماعت دوازدہم

 یہ سوال  اے کے یو ای بی کے سالانہ امتحان  ۲۰۱۱ جماعت نہم  کے اپردو کے پرچے میں ٓآیا تھا