November 14, 2019

جماعت نہم ۔ شامل نصاب افسسانہ "مجھے میرے دوستوں سے بچاؤ" اور اسلو ب کی خصوصیات( تالیف: شمس الحق قمر AKESP, GB)



سجاد حیدر یلدرم 


1880ء میں بنارس میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد سید جلال الدین سرکاری ملازم تھے۔ یلدرم نے ایم۔ اے۔ او کالج علی گڑھ سے 1901ء میں بی اے کیا۔ کالج کے زمانے میں اچھے مقرر بھی تھے اور شاعری کا شستہ مذاق بھی رکھتے تھے۔
یلدرم کو ترکی زبان اور ترکوں سے بڑی محبت تھی۔ جب بغداد کے برطانوی قونصل خانہ میں ترکی ترجمان کی ضرورت ہوئی تو آپ وہاں چلے گئے۔ اب یلدرم کو ترکی ادبیات کے مطالعہ کا موقع ملا چنانچہ انہوں نے بہت سی ترکی کہانیوں کو اردو میں منتقل کیا اور اس طرح اردو نثر میں ایک نئے اسلوب کا اضافہ کیا۔ کچھ عرصہ بعد یلدرم بغداد سے تبدیل ہو کر قسطنطنیہ کے برطانوی سفارت خانے میں چلے گئے پہلی جنگ عظیم چھڑنے سے پہلے وہ امیر کابل کے نائب سیاسی ایجنٹ ہو کر ہندوستان واپس چلے آئے۔ یوپی میں کچھ عرصہ ملازمت کی۔ 1920ء میں علی گڑھ یونیورسٹی کے رجسٹرار مقرر ہوئے ڈپٹی کلکٹر کی حیثیت سے بھی کام کیا۔
1943ء میں لکھنؤ میں وفات پائی اور قبرستان عیش باغ میں دفن ہوئے۔ مشہور ادیب اور ناول نگار قراۃ العین حیدر آپ کی صاحبزادی ہیں۔
سجاد حیدر یلدرم کے افسانوں اور انشائیوں کا مجموعہ خیالستان اردو ادب میں بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ یوں تو انہوں نے شاعری بھی کی، مضمون بھی لکھے لیکن ان کا نام ایک رومانوی افسانہ نگار کی حیثیت سے ہمیشہ یاد رہے گا۔ وہ اردو کے پہلے افسانہ نگار تسلیم کیے جائے ہیں۔

افسانہ نگاری

اردو افسانے کی باقاعدہ ابتدا کا سہرا یلدرم کے سر ہے۔ ”خیالستان “ یلدرم کی رومانیت اور تخیل کا بہترین عکس ہے۔ خیالستان میں انشائیے، انشائے لطیف اور مختصر افسانے شامل ہیں۔ گویا صنف نثر کی تین اصناف کے مجموعہ کا نام ”خیالستان “ ہے ان شہ پاروں میں کچھ ترکی ادب سے اخذ و ترجمہ ہیں اور بعض طبع زاد ہیں۔ ان میں سجاد حیدر یلدرم کا رومانی انداز فکرو بیان جادو جگا رہا ہے۔ یلدرم کا شمار ارد و کے ابتدائی افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے اُن کے انداز تحریر اور رومانوی انداز نے اپنی آنے والے ادبیوں کی کئی نسلوں کو متاثر کیا

تاثرات

تاریخ ادب اردو“ میں رام بابو سکسینہ لکھتے ہیں:
سید سجاد حیدر نثر افسانہ نما خوب لکھتے ہیں۔ عبارت بہت دلفریب اور ا س میں ایک خاص طرح کی نشتریت ہوتی ہے۔
بقول قاضی عبد الغفار:
سجاد اردو زبان میں ایک نئے اور ترقی پسند اور بہت ہی دلنواز اسلوبِ بیان کے موجد تھے اور اس لیے وہ خراجِ تحسین کے حقدار ہیں۔


سجاد حیدر  یلدرم کے افسانوں   میں اسلوب کی خصوصیات 




تاریخ ادب اردو“ میں رام بابو سکسینہ لکھتے ہیں:
” سید سجاد حیدر نثر افسانہ نما خوب لکھتے ہیں۔ عبارت بہت دلفریب اور ا س میں ایک خاص طرح کی نشتریت ہوتی ہے۔“
بقول قاضی عبدالغفار:
” سجاد اردو زبان میں ایک نئے اور ترقی پسند اور بہت ہی دلنواز اسلوبِ بیان کے موجد تھے اور اس لیے وہ خراجِ تحسین کے حقدار ہیں۔“
اردو افسانے کی باقاعدہ ابتداءکا سہرا یلدرم کے سر ہے ”خیالستان “ یلدرم کی رومانیت اور تخیل کا بہترین عکس ہے۔ خیالستان میں انشائیے ، انشائے لطیف اور مختصر افسانے شامل ہیں گویا صنف نثر کی تین اصناف کے مجموعہ کا نام ”خیالستان “ ہے ان شہ پاروں میں کچھ ترکی ادب سے اخذ و ترجمہ ہیں اور بعض طبع ذاد ہیں۔ ان میں سجاد حیدر یلدرم کا رومانی انداز فکرو بیان جادو جگا رہا ہے۔
رومانیت:۔
رومانیت کے بنیادی اصولوں میں تخیل کی فراوانی ، ماضی پرستی ، روایت سے بغاوت ، جوش و جذبہ اور محبت شامل ہیں لیکن سجاد حیدر یلدرم کی رومانیت کا جو تصورنظر آتا ہے اس کی ایک جداگانہ حیثیت ہے۔جو دوسرے رومان نگار ادیبوں سے مختلف ہے۔ ان کے ہاں رومان ہمیشہ اضطراب اور ہیجان کا باعث ہے جب کہ سجاد کا رومان ، سکون کا باعث ہے۔ جذبات کی مصوری میں یلدرم کو ملکہ حاصل ہے ۔ ان کے افسانوں میں جذبہ محبت ، رومانیت کا پرتو لیے ہوئے ہے۔ وہ عشق اور اس کے جذبات کی تحریک کے لیے ہمیشہ رومانی پس منظر کا ہونا ضروری سمجھتے ہیں اور عموماً یہ کام چاند اور اس کی رومان پرور فضاءسے لیتے ہیں۔ ان کے رومان کی روح رواں عورت ہے ان کے نزدیک عورت مرکز محبت ہے وہ عورت کو محبت سے الگ کرکے دیکھتے ہی نہیں۔
اولیت:۔
یہ بات امر مسلمہ ہے کہ یلدرم کو اردو افسانے میں اولیت کا شرف حاصل ہے وہ رومانی دبستان کے سرخیل ہیں اور ان کی بنائی ہوئی راہ پر چل کر معروف و نامور ادیبوں نے اردو افسانے میں اپنے شاہکار پیش کیے۔اردو افسانوی ادب میں ان ادیبوں کے بیش بہا فن پاروں کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ اگرچہ فن اور اسلوب کے لحاظ سے ان کے افسانے رومانی طرز فکر کی نمائندگی کرتے ہیں مگر اردو افسانے کی ترقی و فروغ میں ان کا بڑا حصہ ہے۔ ابتداً اردوافسانے کی دلچسپی انہی (یلدرم کے مقلد افسانہ نگاروں ) کی مرہون احسان ہے۔ رومانوی افسانہ نگاروں نے ایک تو افسانے کو مقبو ل عام بنانے میں بڑی خدمت انجام دیں اور دوسرے انہوں نے تخیل کی فسوں کاریو ں سے جذبات محبت کو اتنے رنگین انداز میں افسانے کا موضوع بنایا کہ نئی نسل دل و جان سے افسانے میں دلچسپی لینے لگی۔ اس طرح جہاں افسانہ مقبول ہوا وہاں نئے افسانہ نگار میدان میں اترے ۔دبستان یلدرم کے افسانہ نگاروں نے اردو میں مختصر افسانے کے امکانات کو وسعت اور وقعت دی۔ منظر نگاری ، مکالمہ نویسی اور وحدت تاثر افسانے کی فنی خصوصیات ہیں اور یلدرم نے اردو افسانہ کے ان عناصر پر بہت توجہ دی اور یلدرم کے دبستان سے متعلق لکھنے والے رومانوی افسانہ نگاروں نے ان ابتدائی نقوش کی روشنی میں بڑے خوبصورت اور جاذب نظر افسانے لکھے بقول ایک نقاد:
”یلدرم کو بجا طور پر فخر حاصل ہے کہ انہوں نے افسانے کے ابتدائی خدوخا ل راست کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ ان کے افسانے سو سال گزر جانے کے بعد آج بھی پڑھے جائیں تو تاثیر کے اعتبار سے و ہ قاری کی توجہ جذب کرنے میں قاصر نہیں رہتے۔“
افسانوں کا بنیادی موضوع:۔
یلدرم علی گڑھ یونیورسٹی کے فار غ التحصیل اور تہذیب یافتہ تھے ۔ ان کی ادبی زندگی علی گڑھ سے پیدا ہوئی۔ انہیں سرسید اور علی گڑھ سے بے حد عقیدتاور غایت درجہ انس تھا۔ مگر اس سب کے باوجود یلدرم نے اپنی افسانوی تحریروں میں اس تحریک کی خشک حقیقت پسند ی اور بے نمکی کے خلاف ردعمل کا اظہار کیا۔ اس مقصد کے لیے یلدرم کے سامنے سب سے اہم مسئلہ یہ تھا کہ وہ اپنے افسانے کے لیے کوئی ایسا موضوع تلاش کریں جو دلچسپ بھی ہو اور زندگی کے ساتھ اس کا گہرا واسطہ بھی ہو۔ محض خیالی اور خوب کی دنیا نہ ہو بلکہ اس میں اپنے عہد کی جھلک نظرآئے ۔ اس مقصد کے پیش نظر اور اپنے مزاج کی مناسبت کو دیکھتے ہوئے ، یلدرم نے بطور خاص محبت اور عورت کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا۔
عورت:۔
یلدرم نے اپنے افسانوں میں عورت کے مسائل کو موضوع بنایا ۔ اور اس کا یہ پہلو کہ عورت ، مرد کی بہترین رفیق ہے اس لیے یلدرم کے نزدیک اس کے ساتھ وہی سلوک ہونا چاہیے ¿ جو بہترین رفیق کے لیے موزوں اور مناسب ہے۔ یلدرم اس بات کے بھی قائل تھے کہ عورت کے بغیر مرد کی زندگی ادھوری اور نامکمل ہے۔عورت یلدر م کے ہاں عیاشی اور گناہ کا مظہر نہیں ،لطافت اور زندگی کے صحت مند تصور کی علامت ہے۔یلدرم کے ا س نقطہ نگاہ سے تین باتیں پیدا ہوتی ہیں:
١۔ عورت اور مرد کاباہمی تعلق فطرت کا تقاضہ ہے۔
٢۔ مرد اورعورت کے باہمی تعلق میں سچی محبت کا ہونا ضروری ہے۔
٣۔ اور یہ کہ عورت اورمرد کی سچی محبت میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کی کوشش کی جائے۔
جب ہم یلدرم کے افسانوں کا گہری نظر سے مطالعہ کرتے ہیں یہ تینوں چیزیں واضح طور پر ابھر کر سامنے آتی ہیں۔ سجاد حیدر یلدرم کے پہلے افسانے ”خارستان و گلستان “میں فطرت کے جذبوں اور مرد اورعورت کے درمیان تعلق کی بہترین عکاسی ملتی ہے۔
”عورت! عورت! ایک بیل ہے جو خشک درخت کے گرد لپیٹ کر اسے تازگی ، اسے زینت بخش دیتی ہے۔ وہ ایک دھونی ہے کہ محبت کی لپیٹ سے مرد کو گھیر لیتی ہے۔ بغیر عورت کے مرد سخت دل ہو جاتا ۔اکھل کھرا بن جاتا۔
اسی طرح محبت کے راستے میں حائل رکاوٹوں اور مشکلات کو دور کرنے کی کوشش ”صحبت ناجنس “ میں نظر آتی ہے۔
حجاب اور وضع داری:۔
جیسا کی معلوم ہے یلدرم انشاءپردازی میں رومانوی نقطہ نظر رکھتے ہیں مگر روایتی رومان نگاروں کی طرح سستی جذباتیت کا شکار نہیں ہوتے بلکہ وہ معاشرتی دبائو اور پابندیوں کو عموماً پیش نظر رکھ کر لکھتے ہیں اور عشق اور رومان سے مملو کہانی لکھتے وقت وہ زندگی کے ”واقعی “ پس منظر کو نظر انداز نہیں کرتے ۔یلدرم نے عورت اور مردکو اس کا فطر ی حق دلانے کے لیے ایسے فنی حربوں سے کام لیا ہے کہ نہ ان کے مقصد ہی پر حرف آئے اور نہ خود ان پر معاشرتی اقدار اور اخلاقی پابندیوں اور قواعد کو توڑنے کا الزام آئے ۔ یہی فنی وسیلہ اور تجربے کا امتیاز اردو افسانے کو ان کی دین اور عطا ہےں۔ ہمارا معاشرہ مشرقی ہے اور ہم یہ جانتے ہیں ہوئے بھی کہ مرداور عورت کے جنسی تعلقات کی کیا نوعیت ہے ان کے بیان اور اظہار میں ایک حجاب اور وضع داری پر قائم ہیں۔ یلدرم نے ان کا احترام کرتے ہوئے بھی ”ان کہی “ کہنے کے لیے جو ایک سے زیادہ راستے نکالے ہیں،اپنے افسانوں میں ترکی پس منظر کا استعمال اور تخیل سے ماضی کا سفر اور داستانوی اسلوب انہیں عریانیت سے دور لے جانے میں مدد دیتا ہے۔
مقصدیت:۔
معاشرتی اصلاح اور فلاح و بہبود میں عورت کے کردار کا یلدرم پورا شعور رکھتے تھے۔ ڈپٹی نذیراحمد کے ہاں بھی یہی جذبہ کام کرتا ہے کہ عورت کی تعلیم اور اس کی اصلاح کے بغیر قومی فلاح و بہبود کا تصور ناممکن ہے۔ مگر یلدرم کا طریق کار اپنی پیش رو ادیبوں سے مختلف ہے۔وہ لمبی لمبی تقرریں نہیں کرتے ، وہ واعظ اور خطیب بھی نہیں بنتے بلکہ و اصلاحی مقصد حاصل کرنے کے لیے ادبی طریق کار اختیار کرتے ہیں۔ عورتوں کی ترقی اور ان کی تعلیم کے سلسلے یلدرم کا حقیقت پسندانہ نقطہ نظر ان کے افسانے ”ازدواج محبت “ میں موثر طور پرموجود ہے۔ افسانے کا ہیرو نعیم تعلیم نسواں کا حامی ہے اور ان کی ترقی کا خواہاں۔ وہ اس مقصد کے لیے ہیرو ، واعظ ، ناصح یا مقرر بننےکی بجائے اس کار ِ خیر کے لیے اپنی جائیداد وقف کرتا ہے۔ نعیم کے مکالمے ملاحظہ ہوں:
” عزم یہ ہے کہ کل جائیداد( مالیتی ایک لاکھ ) عورتوں کی تعلیم کے واسطے وقف کر دوں۔“
”جب محمڈن یونیورسٹی بنے تو ایک کالج خاص طور پر مسلمان عورتوں کے لیے تیار کیا جائے۔“
ترکی زبان کا اثر:۔
ہمارے مشرقی معاشرہ میں آج بھی محبت کرنا جرم سمجھا جاتا ہے جبکہ یلدرم نے آ ج سے تقریباً سو سال پہلے ان معاشرتی اور مذہبی پابندیوں کے خلاف آواز اٹھائی اور اتنی دلیری اور دھڑلے سے لکھا کہ آ ج کے آزاد خیال معاشرے میں اتنا کھل کر لکھنا شاید اتنا آسان نہ ہو۔اس سلسلے میں ان کی ترکی زبان اور ادب کے ساتھ شناسائی بڑی کارآمد ثابت ہوئی۔ ترجمے کی اوٹ میں یلدرم وہ کچھ کہہ گئے جس کا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا۔ ان کی ترکی دانی کا اثر تھا کہ انہیں ترکی میں سفیر لگا دیا گیا۔ وہاں انہوں نے ترکی ادبیات کا گہرا مطالعہ کیا۔ برصغیر کے ادیب اگرچہ انگریزی پڑھ لکھ رہے تھے مگر وہ مغربی اسالیب اور اظہار کو اپنے ادب کا جزو نہیں بنا سکے ۔ ترکی ادب نے یہ منزل طے کر لی تھی۔ یلدرم مغربی ادب کی باریکیوں سے آگاہ تھے اور ترکی دان ہونے کی وجہ سے ترکی پر مغربی ادب کے اثرات کے زیر اثر جو اثرات مرتب ہو رہے تھے اس سے بھی آگا ہ تھے ۔ اسی لیے انھوں نے ترکی ادب کو اردو میں منتقل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔
انشائے لطیف:۔
انشائے لطیف یا ادب لطیف ، رومانی انداز فکر کی سحر کاری کا دوسرا نام ہے ۔ افکار کی بلندی ، تخیل کی رنگینی اور جذباتی تاثر کی آمیزش سے جو ادب پارہ وجود میں آتا ہے وہ ادب لطیف ہے ۔ اسے سادہ الفاظ میں نثر میں نثری شاعری کا نام بھی دے سکتے ہیں۔انشائے لطیف کے اولین ادیب سجاد حیدر یلدرم ہی ہیں۔ کیونکہ یلدرم نے اس روایت کو باقاعدہ ایک دبستان کی حیثیت عطا کی ۔ان کے افسانوں میں اسی نثر ی شاعری کے نمونے جابجا نظر آتے ہیں۔
” خارا کو ایسی خوشی حاصل ہو رہی تھی جو اس نے تمام عمر میں اب تک محسوس نہیں کی تھی او راس نشے سے اُس کی آنکھوں کی پتلیاں پھیل رہی تھیں۔ آغوش کھلی ہوئی تھی ، سینہ سانس کی وجہ سے ابھر رہا تھا اور دل ایک ننھی سی چڑیا کی طرح پھڑپھڑا رہا تھا۔“
جذبے کی متانت:۔
سجاد حیدر یلدرم کی نثر میں ایک بات بہت ہی واضح ہے کہ وہ جذبات کی رو ،اور،روانی میں بھی اپنے ادبی وزن اور وقار کو بہنے نہیں دیتے ۔ یلدرم کے جذبات کچھ زیادہ تیز اور تند نہ تھے۔ یہ ایک قدرتی امر ہے کہ جس کے ہاں خیالات کی رعنائی ہو اس کے ہاں جذبات کا ہیجان اور شدت ویسے بھی کم ہو تی ہے۔ پھر بھی جہاں کہیں ایسی صورت حال پیدا ہوئی ، سجاد کی معمولی کوشش نے ان کو معتدل کر دیا۔ اس طرح مطلب بھی ادا ہو گیا اور شرم و حیا اور شرافت کا دامن نہ چھوٹا۔ یلدرم نے اپنی تحریروں کو خیال کی رنگینی و نزاکت کے ساتھ جذبے کی متانت و عفت کو جس طرح متوازن رکھا ہے کسی اور سے نہ ہو سکا۔
اسلوب:۔
یلدرم کومشرقی تہذیب اور تمدن سے گہرا لگائو ہے اور اس کا اظہار بھی ان کی تحریروں میں قدم قدم پر ملتا ہے۔ زبان دلکش اور لطیف ہے۔ اس کے باوجود ان کا وضع کردہ تراکیب غیر مانوس اور ناہموار ہیں۔مگر ان کا ذمہ دار یلدرم کو نہیں ٹھہرا سکتے کیونکہ انہیں جو اسلوب تحریر اختیار کیا وہ رومانی تھا اور رومانی انداز تحریر کی روایت ہمارے ادب میں موجود نہ تھی۔ لیکن اس کے باوجود یلدرم نے اردو نثر کو ایک نیا کیف دیا۔ نیا ترنم ، نیا آہنگ اور وزن بخشا جس نے خوابیدہ جملوں کو جگایا اور ایک مجہولی کیفیت جو مقصدیت کے زیر اثر چھائی ہوئی تھی ، دور ہو گئی ۔الفاظ کی دریافت ، مرکبات کی تعمیر میں یلدرم نے عربی، فارسی سے بھی استفادہ کیا۔ مرکبات بنانے کا شعور انہوں نے ترکی زبان سے حاصل کیا جو اردو کی طرح ایک امتزاج زبان ہے۔
یلدرم کے ہاں ہلکا مزاح اور دھیما اور خوشگوار طنز ہے۔ اس کے علاوہ تنقید بھی ہے اور اصلاح بھی ۔ تنقید خوشگوار لہجے میں ہوتی ہے اور اصلاح بار نہیں ہوتی ۔”مجھے میرے دوستوں سے بچائو“ اور ”صحبت ناجنس“ جیسے افسانوں میں ان کے اسلوب بیان کی داد دینی پڑتی ہے ۔
اسلوب کی انفرادیت:۔
سجاد کی ادبیات میں ان کا مخصوص انداز نگارش بہت نمایاں ہے ۔ ترجموں میں بھی اور ان کے طبع زاد افسانوں میں بھی ۔ غالب کی طرح انہوں نے بھی الفاظ کی نئی نئی تراکیبیں ایجاد کیں اور ایک نیااسلوب بیان ایجاد کیا اور دو دو چار چار لفظوں کے طبعزادمرکبات میں قوت بیان کی تما م شدت کو مرکوز کر دینے کا ایک نیا انداز اختیار کیا۔ ان کے اس ایجاد پسندی کو ترکی ادب سے خاصی مدد ملی ۔مگر اردو زبان میں بیان پر عبور ہونے کی وجہ سے بظاہر مشکل مرکبات کو اس طرح گھپایا کہ وہ موسیقی سے ہم آہنگ ہو گئے ۔ گویا ان سے ترنم کا کام لیا گیا ۔ یہی ان کامخصوص انفرادیت تھی۔مثال کے طور پر
”میں نے اپنی زندگی ، اپنی عصمت ،اپنی تمام دنیائے امید ، تمہارے قدموں پر نثار کر دی، تم نے انہیں کیا کیا ؟ ان میں سے ہر ایک ایک بڑی مکافات ، ایک بڑی بڑی قیمتوں کی ارزش رکھتی تھی۔ کہاں ہے ان کی مکافات؟“
مجموعی جائزہ:۔
یلدرم کا شمار ارد و کے ابتدائی افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے اُن کے انداز تحریر اور رومانوی انداز نے اپنی آنے والے ادبیوں کی کئی نسلوں کو متاثر کیا ۔ اور دبستان یلدرم کا سلسلہ آج بھی کسی نہ کسی حوالے سے ہمارے افسانے کے اندر موجود ہے ۔اُن کے بارے میں ایک نقاد کا قو ل ہے کہ:
” یلدرم کا یہ کمال دنیائے افسانہ میں ہمیشہ یادگار رہے گا کہ وہ جو بات جس ڈھنگ سے کرتے ہیں وہ اتنی پر تاثیر ہوتی ہے کہ اس سے ماسوا ، خیال جاتا ہی نہیں ۔ ان کا رومان اپنے اندر انجذابی کیفیت رکھتا ہے کہ حقیقت فراموش ہو جاتی ہے اور یہی یلدرم کے فن کی معراج ہے۔“


شامل نصاب افسانہ اور کوئی طلب ابنائے زمانہ سے نہیںمجھ پہ احساں جو نہ کرتے تو یہ احساں ہوتاایک دن میں دلی کے چاندنی چوک میں سے گزر رہا تھا کہ میری نظر ایک فقیر پر پڑی جو بڑے موثر طریقے سے اپنی حالت زار لوگوں سے بیان کرتا جا رہا تھا ۔ دو تین منٹ کے وقفے کے بعد یہ درد سے بھری اسپیچ انہیں الفاظ اور اسی پیرائے میں دہرا دی جاتی تھی۔ یہ طرز کچھ مجھے ایسا خاص معلوم ہوا کہ اس شخص کو دیکھنے اور اس کے الفاظ سننے کے لئے ٹھہر گیا۔ اس فقیر کا قد لمبا اور جسم خوب موٹا تازہ تھا اور چہرہ ایک حد تک خوبصورت تھا۔ مگر بدمعاشی اور بے حیائی نے صورت مسخ کر دی تھی ۔ یہ تو اس کی شکل تھی، رہی اس کی صدا، تو میں ایسا قسی القلب نہیں ہوں کہ صرف اس کا مختصر سا خلاصہ لکھ دوں ۔ وہ اس قابل ہے کہ لفظ بہ لفظ لکھی جائے ۔ چنانچہ وہ اسپیچ یا صدا جو کچھ کہیے، یہ تھی:"اے بھائی مسلمانو! خدا کے لئے مجھ بدنصیب کا حال سنو۔ میں آفت کا مارا سات بچوں کا باپ ہوں۔ اب روٹیوں کا محتاج ہوں اور اپنی مصیبت ایک ایک سے کہتا ہوں ۔ میں بھیک نہیں مانگتا ہوں ، میں یہ چاہتا ہوں کہ اپنے وطن چلا جاؤں۔ مگر کوئی خدا کا پیارا مجھے گھر بھی نہیں پہنچاتا ۔ بھائی مسلمانو! میں غریب الوطن ہوں ۔ میرا کوئی دوست نہیں، اے خدا کے بندو! میری سنو، میں غریب الوطن ہوں۔"فقیر تو یہ کہتا ہوا اور جن پر ان کے قصے کا اثر ہوا ان سے خیرات لیتا ہوا آگے بڑھ گیا۔ لیکن میرے دل میں چند خیالات پیدا ہوئے اور میں نے اپنی حالت کا مقابلہ اس سے کیا اور مجھے خود تعجب ہوا کہ اکثر امور میں میں نے اس کو اپنے سے اچھا پایا۔ یہ صحیح ہے کہ میں کام کرتا ہوں ہوں اور وہ مفت خور ی سے دن گزارتا ہے ۔ نیز یہ کہ میں نے تعلیم پائی ہے، وہ جاہل ہے ۔ میں اچھے لباس میں رہتا ہوں، وہ پھٹے کپڑے پہنتا ہے ۔بس یہاں تک میں اس سے بہتر ہوں آگے بڑھ کر اس کی حالت مجھ سے بدرجہا اچھی ہے۔ اس کی صحت پر مجھے رشک کرنا چاہئے ، میں رات دن اسی فکر میں گزار تا ہوں اور وہ ایسے اطمینان سے بسر کرتا ہے کہ باوجود بسورنے اور رونے کی صورت بنانے کے اس کے چہرے سے بشاشت نمایاں تھی۔ بڑی دیر تک میں غور کرتا رہا کہ اس کی یہ قابل رشک حالت کس وجہ سے ہے اور آخر کار میں بظاہر اس عجیب نتیجے پر پہنچا کہ جسے وہ مصیبت خیال کرتا ہے وہی اس کے حق میں نعمت ہے ۔ وہ حسرت سے کہتا ہے کہ میرا کوئی دوست نہیں، میں حسرت سے کہتا ہوں"میرے اتنے دوست ہیں ، اس کا کوئی دوست نہیں۔" اگر یہ سچ ہے تو اسے مبارکباد دینی چاہئے۔میں اپنے دل میں یہ باتیں کرتا ہوا اپنے مکان پر آیا۔ کیسا خوش قسمت آدمی ہے ۔ کہتا ہے میرا کوئی دوست نہیں ۔ اے خوش نصیب شخص! یہیں تو تو مجھ سے بڑھ گیا ۔ لیکن کیا اس کا یہ قول صحیح بھی ہے؟ یعنی کیا اصل میں اس کا کوئی دوست نہیں جو میرے دوستوں کی طرح اسے دن بھر میں پانچ منٹ کی بھی فرصت نہ دے؟ میں اپنے مکان پر ایک مضمون لکھنے جا رہا ہوں۔ مگر خبر نہیں کہ مجھے ذرا سا بھی وقت ایسا ملے گا کہ میں تخلیے میں اپنے خیالات جمع کر سکوں اور انہیں اطمینان سے قلمبند کر سکوں یا جو اسپیچ مجھے کل دینی ہے اسے سوچ سکوں۔ کیا یہ فقیر دن دہاڑے اپنا روپیہ لے جا سکتا ہے ؟ اور اس کا کوئی دوست راستے میں نہ ملے گا اور یہ نہ کہے گا:"بھائی جان دیکھو، پرانی دوستی کا واسطہ دیتا ہوں ۔ مجھے اس وقت ضرورت ہے۔ تھوڑا سا روپیہ قرض دو۔"کیا اس کے احباب وقت بے وقت اسے دعوتوں اور جلسوں میں کھینچ کر نہیں لے جاتے؟َ کیا کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ اسے نیند کے جھونکے آ رہے ہیں۔ مگر یار دوستوں کا مجمع ہے، جو قصے پر قصہ اور لطیفے پر لطیفہ کہہ رہے ہیں اور اٹھنے کا نام نہیں لیتے ، کیا اسے دوستوں کے خطوں کا جواب دینا پڑتا ہے ؟ کیا اس کے پیارے دوست کی تصنیف کی ہوئی کوئی کتاب نہیں جو اسے خواہ مخواہ پڑھنی پڑے اور ریویو لکھنا پڑے ۔ کیا اسے احباب کی وجہ سے شور مچانا اور ہو حق کرنا نہیں پڑتا؟ کیا دوستوں کے ہاں ملاقات کو اسے جانا نہیں پڑتا اور اگر نہ جائے تو کوئی شکایت نہیں کرتا؟ ان سب باتوں سے وہ آزاد ہے تو کوئی تعجب نہیں کہ وہ ہٹا کٹا ہے اور میں نحیف و نزارہوں ۔ یا اللہ کیا اس بات پر بھی شکریہ ادا نہیں کرتا؟ خدا جانے وہ اور کون سی نعمت چاہتا ہے ۔ لوگ کہیں گے کہ اس شخص کے کیسے بیہودہ خیالات ہیں۔ بغیر دوستوں کے زندگی دوبھر ہوتی ہے اور یہ ان سے بھاگتا ہے ۔ مگر میں دوستوں کو برا نہیں کہتا۔ میں جانتا ہوں کہ وہ مجھے خوش کرنے کے لئے میرے پاس آتے ہیں۔ اور میرے خیر طلب ہیں۔ مگر عملی نتیجہ یہ ہے کہ احباب کا ارادہ ہوتا ہے مجھے فائدہ پہنچانے کا۔ اور ہوجاتا ہے مجھے نقصان۔ چاہے مجھ پر نفریں کی جائے ۔ مگر میں یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ آج تک میرے سامنے کوئی یہ نہیں ثابت کرسکا کہ احباب کا ایک جم غیر رکھنے اور شناسائی کے دائرے کو وسیع کرنے سے کیا فائدہ ہے ؟ میں تو یہاں تک کہتا ہوں کہ اگر دنیا میں کچھ کام کرنا ہے اور باتوں ہی باتوں میں عمر نہیں گزارنی ہے تو بعض نہایت عزیز دوستوں کو چھوڑنا پڑے گا ۔ چاہے اس سے میرے دل پر کتنا ہی صدمہ ہو۔"مثلاً میرے ایک دوست احمد مرزا ہیں جنہیں میں بھڑ بھڑیا دوست کہتا ہوں۔یہ نہایت معقول آدمی ہیں اور میری ان کی دوستی نہایت پرانی اور بے تکلفی کی ہے ۔ مگر حضرت کی خلقت میں یہ داخل ہے کہ دو منٹ نچلا نہیں بیٹھا جاتا ۔ جب آئیں گے شور مچاتے ہوئے چیزوں کو الٹ پلٹ کرتے ہوئے۔ غرض کہ ان کا آنا بھونچال سے کم نہیں ہے۔ جب وہ آتے ہیں تو میں کہتا ہوں" کوئی آرہا ہے قیامت نہیں ہے۔" ان کے آنے کی مجھے دور سے خبر ہوجاتی ہے۔باوجودیکہ میرے لکھنے پڑھنے کاکمرہ چھت پر ہے۔ اگر میرا نوکر کہتا ہے کہ"میاں اس وقت کام میں مشغول ہیں" تووہ فوراً چیخنا شروع کردیتے ہیں کہ کم بخت کو اپنی صحت کا بھی تو کچھ خیال نہیں۔ نوکر کی طرف مخاطب ہوکر )خیراتی! کب سے کام کررہے ہیں؟ بڑی دیر سے! توبہ توبہ!! اچھا بس ایک منٹ ان کے پاس بیٹھوں گا ۔ مجھے خود جانا ہے ، چھت پر ہوں گے نا؟ میں پہلے ہی سمجھتاتھا۔"یہ کہتے ہوئے اوپر آتے ہیں اور دروازے کو اس زور سے کھولتے ہیں کہ گویا کوئی گولہ آکے لگا۔(آج تک انہوں نے دروازہ کھٹکھٹایا نہیں) اور آندھی کی طرح داخل ہوتے ہیں۔"ہا ہا ہا ! آخر تمہیں میں نے پکڑ لیا مگر دیکھو دیکھو میری وجہ سے اپنا لکھنا بند مت کرو ۔ میں ہرج کرنے نہیں آیا۔ خدا کی پناہ! کس قدر لکھ ڈالا ہے ، کہو طبیعت تو اچھی ہے ، میں تو صرف یہ پوچھنے آیا تھا ۔ واللہ مجھے کس قدر خوشی ہوتی ہے کہ میرے دوستوں میں ایک شخص ایسا ہے جو مضمون نگار کے لقب سے پکاراجاسکتا ہے ۔ لو اب جاتا ہوں میں بیٹھو ں گا نہیں۔ ایک منٹ نہیں ٹھہرنے کا۔ تمہاری خیریت دریافت کرنی تھی۔ خدا حافظ" یہ کہہ کر وہ نہایت محبت سے مصافحہ کرتے ہیں اور اپنے جوش میں میرے ہاتھ کو اس قدر دبادیتے ہیں کہ انگلیوں میں درد ہونے لگتا ہے اور میں قلم نہیں پکڑ سکتا ۔ یہ تو علیحدہ رہا، اپنے ساتھ میرے کل خیالات کو بھی لے جاتے ہیں۔ خیالات کو جمع کرنے کی کوشش کرتا ہوں ، مگر اب وہ کہاں!! اور دیکھاجائے تو میرے کمرے میں ایک منٹ سے زیادہ نہیں رہے۔ تاہم اگر وہ گھنٹوں رہتے تو اس سے زیادہ نقصان نہ کرتے ۔ کیا میں انہیں چھوڑ سکتا ہوں؟میں اس سے انکار نہیں کرتا کہ میری اور ان کی دوستی بہت پرانی ہے اور وہ مجھ سے بھائیوں کی طرح محبت کرتے ہیں۔ تاہم انہیں چھوڑ دوں گا تو اگرچہ کلیجے پر پتھر رکھنا پڑے۔اور لیجئے ! دوسرے دوست محمد تحسین ہیں ، یہ بال بچوں والے صاحب ہیں اور رات دن انہی کی فکر میں رہتے ہیں ۔ جب کبھی ملنے آتے ہیں تو تیسرے پہر کے قریب آٹے ہیں۔ جب میں کام سے فارغ ہوچکتا ہوں لیکن اس قدر تھکا ہواہوتا ہوں کہ دل یہی چاہتا ہے کہ ایک آرام کرسی پر خاموش پڑا رہوں۔ مگر تحسین آئے ہیں اور ان سے ملنا ضروری ہے ۔ ان کے پاس باتیں کرنے کے لئے سوائے اپنی بیوی بچوں کی بیماری کے اور کوئی مضمون ہی نہیں۔ میں کتنی ہی کوشش کروں مگر وہ اس مضمون سے باہر نہیں نکلتے۔ اگر میں موسم کا ذکر کرتا ہوں تو وہ کہتے ہیں ہاں بڑا خراب موسم ہے۔ میرے چھوٹے لڑکے کو بخار آگیا۔ منجھلی لڑکی کھ انسی میں مبتلا ہے۔"اگر پالٹکس یا لٹریچر کے متعلق گفتگو کرتا ہوں تو تحسین صاحب فوراً معذرت پیش کرتے ہیں کہ"بھائی آج کل گھر بھر بیمار ہے۔ مجھے اتنی فرصت کہاں کہ اخبار پڑھوں۔" اگر کسی عام جلسے میں آتے ہیں تو اپنے لڑکوں کو ضرور ساتھ لیے ہوتے ہیں اور ہر ایک سے بار بار پوچھتے رہتے ہیں کہ"طبیعت تو نہیں گھبراتی؟ پیاس تو نہیں لگتی؟ کبھی نبض دیکھ لیتے ہیں اور وہاں بھی کسی سے ملتے ہیں تو گھر کی بیماری کا ہی ذکر کرتے ہیں۔اسی طرح میرے مقدمہ باز دوست ہیں جنہیں سوائے اپنی ریاست کے جھگڑوں، اپنے فریق مخالف کی برائیوں اور جج صاحب کی تعریف یا مذمت کے(تعریف اس حالت میں جب کہ انہوں نے مقدمہ جیتا ہو) اور کوئی مضمون نہیں ۔ منجملہ اور بہت سے مختلف قسموں کے دوستوں کے میں شاکر صاحب کا ذکر خصوصیت سے کروں گا کیونکہ وہ مجھ پر خاص عنایت فرماتے ہیں۔ شاکر صاحب موضع سلیم پور کے رئیس اور ضلع بھر میں نہایت معزز آدمی ہیں۔ انہیں اپنی لیاقت کے مطابق لٹریچر کا بہت شوق ہے ۔ لٹریچر پڑھنے کا اتنا نہیں جتنا لٹریچر سی آدمیوں سے ملنے اور تعارف پیدا کرنے کا۔ ان کا خیال ہے کہ اہل علم کی تھوڑی سی قدر کرنا امراء کے شایان شان ہے ، ایک مرتبہ میرے ہاں تشریف لائے اور بہت اصرار سے مجھے سلیم پور لے گئے ۔ یہ کہہ کے" شہر میں رات دن شور وشغب رہتا ہے۔ دیہات میں کچھ عرصے رہنے سے تبدیل آب و ہوا بھی ہوگی اور وہاں مضمون نگاری بھی زیادہ اطمینان سے کرسکو گے ۔ میں نے ایک کمرہ خاص تمہارے واسطے آراستہ کرایا ہے جس میں پڑھنے لکھنے کا سب سامان مہیا ہے۔ تھوڑے دن رہ کر چلے آنا دیکھو، میری خوشی کرو۔"میں ایسے محبت آمیز اصرار پر انکار کیسے کرسکتا تھا۔ مختصر سا سامان پڑھنے لکھنے کا لے کر ان کے ساتھ ہولیا۔ ایڈیٹر" معارف" سے وعدہ کرچکا تھا کہ ایک خاص عرصے میں ان کی خدمت میں ایک مضمون بھیجوں گا ۔ شاکر خاں صاحب کی کوٹھیھ پر پہنچ کر میں نے وہ کمرہ دیکھا جو میرے لئے تیار کیا گیا تھا ۔ یہ کمرہ کوٹھی کی دوسری منزل پر تھا۔ اور نہایت خوبی سے آراستہ تھا اس کی ایک کھڑکی پائیں باغ کی طرف کھلتی تھی ۔ اور ایک نہایت ہی دلفریب نیچرل منظر میری آنکھوں کے سامنے ہوتا تھا۔ صبح کو میں نیچے ناشتے کی غرض سے بلایا گیا۔ جب دوسرا پیالہ چائے کا پی چکا تو اپنے کمرے میں جانے کے لئے اٹھا ہی تھا کہ چاروں طرف سے اصرا ر ہونے لگا کہ"ہیں ہیں! کہیں ایسا غضب نہ کرنا کہ آج ہی کام شروع کردو ۔ اپنے دماغ کو کچھ تو آرام دو۔اورآج کا دن تو خاص کر اس قابل ہے کہ سینری کا لطف اٹھانے میں گزارا جائے۔ چلیے گاڑی تیار کراتے ہیں۔ دریا پر مچھلی کا شکار کھلیں گے ۔ پھر وہاں سے دومیل پر احمد نگرہے ۔ آپ کو وہاں کے رئیس راجہ طالب علی صاحب سے ملائیں گے ۔"میرا ماتھا وہیں ٹھنکا کہ اگر یہی حال رہا تو یہاں بھی فرصت معلوم! خیر سینکڑوں حیلے حوالوں سے اس وقت تو میں بچ گیا اور میرے میزبان بھی میری وجہ سے نہ گئے۔ مگر مجھے بہت جلد معلوم ہوگیا ۔ جس عنقا یعنی یکسوئی کی تلاش میں سر گرداں تھا وہ مجھے یہاں بھی نہ ملے گی۔"میں جلدی سے اٹھ کر کمرے میں آیا اور اس وقت ذرا غور سے اس میز کے سامان کو دیکھا جو میرے لکھنے پڑھنے کے لئے تیار کی گئی تھی۔ میز پر نہایت قیمتی کا مدار کپڑا پڑا ہوا تھا جس پر سیاہی کا ایک قطرہ گرانا گناہ کبیرہ سے کم نہ ہوگا۔ چاندی کی دوات مگر سیاہی دیکھتا ہوں تو سوکھی ہوئی۔ انگریزی قلم نہایت قیمتی اور نایاب۔ مگر اکثر میں نب ندارد، جاذب کاغذ ایک مخمل جلد کی کتاب میں۔ مگر لکھنے کے کاغذ کا پتہ نہیں ۔ اسی طرح بہت سا اعلیٰ درجے کا بیش قیمت سامان میز پر تھا ۔ مگر اکثر اس میں سے میرے کام کا نہیں اور جو چیزیں کہ ضروریات کی تھیں وہ موجود نہیں۔ آخر کار میں نے اپنا وہی پرانا استعمالی مگر مفید بکس اور اپنی معمولی دوات اور قلم(جس نے اب تک نہایت ایمانداری سے میری مدد کی تھی۔ میرے پراں خیالات کو تیزی کے ساتھ قفس کاغذ میں بند کیا تھا)نکالا اور لکھنا شروع کیا۔ یہ ضرور ہے کہ جن مرغاں خوش نوا کی تعریف میں شعراء اس قدر رطب اللسان ہیں، ان کی اس عنایت سے میں خوش نہیں ہوں کہ سب کے سب میرے کمرے کے نیچے درخت پر جمع ہوگئے اور شور مچانا شروع کردیا۔ تاہم میں نے کوشش کرکے ان کی طرف سے کان بند کرلئے اور کام میں ہمہ تن مشغول ہوگیا۔تن، ٹن ٹن ٹنٹنا۔چھن ۔ تان، ٹن ٹن ٹن ۔ میں ایسا مصروف تھا کہ دنیا وما فیھا کی خبر نہ تھی ۔ یکایک اس تن تن نے چونکا دیا ۔ ہیں! یہ کیا ہے؟ افوہ! اب میں سمجھا میرے کمرے کے قریب شاکر خاں صاحب کے چھوٹے بھائی کا کمرہ ہے۔ انہیں موسیقی میں بہت دخل ہے۔ اس وقت ستار سے شوق فرمارہے ہیں۔ بہت خوب بجارہے ہیں۔"اس کی گلی سے آئے کیوں؟"نکہت زلف لائے کیوں؟ مجھ کو صبا سے ہے امید۔ آہا مجھ کو صبا سے ہے امید)مجھ سے صبا کو کیا غرض؟"واہ واہ!! سبحان اللہ! کیا غزل چھڑی ہے، اے ترک سوار نواح عرب یثرب نگری میں پہنچا دینا۔ کس رنگ میں ہے ۔ وہ حبیب مرا مجھے وا کی کھبر یا لادینا۔" بہت ہی خوب! کمال کرتے ہیں۔کوئی آدھ گھنٹہ انہوںنے موسیقی کی مشق فرما کر مجھے میری خواہش کے خلاف محظوظ فرمایا۔ پھر کسی وجہ سے وہ اپنے کمرے سے چلے گئے اور خاموشی طاری ہوگئی ، تو مجھے پھر اپنے کام کا خیال آیا۔"اے میرے خیالات! تمہیں میرا گنجینہ میرا خزانہ ہو ۔ خدا کے لئے رحم کرو۔ میرے دماغ میں پھر آؤ۔" یہ کہہ کے میں کاغذ کی طرف متوجہ ہوا کہ دیکھوں کہاں چھوڑا ہے ۔ میں اس فقرے تک پہنچا تھا" ہم اس وسیع اور دقیق مضمون پر جتنا غوروفکرکرتے ہیں ، اتنا ہی اس کی مشکلات کا مثل۔۔۔۔"مثل کے آگے میں کیا لکھنے والا تھا۔"۔۔۔ ریگ دریا کے اندازہ نہیں کرسکتے؟"ہرگز نہیں، ایسا معمولی تو نہ تھا۔ مجھے یقین ہے کہ کچھ اور تھا۔ کوئی اعلی درجے کی تشبیہ تھی۔ اور فقرے کو نہایت شاندار الفاظ میں ختم کرنے والا تھا ۔ خدا ہی جانتا ہے کہ کیا تھا کیا نہ تھا۔ اب تو دماغ میں اس کا پتہ بھی نہیں۔ گانے والے صاحب تو شکایت کررہے تھے کہ:" اس گلی سے آئے کیوں؟ نکہت زلف لائے کیوں؟ مجھ کو صبا سے ہے امید۔ مجھ سے صبا کو کیا غرض؟"مگر میرا تو صبا کے نام نے دماغ ہی خالی کردیا ۔ اگر وہ آتی اور نکہت زلف بھی لاتی تو نہ معلوم کیا ہوتا۔ بہر حال مجھے وہ فقرہ از سر نو درست کرنا چاہئے ۔ مشکلات کے بجائے کچھ اور ہونا چاہئے ۔ہم اس وسیع مضمون پر جتنا غوروفکر کرتے ہیں اتنا ہی ان بیش بہا علمی جواہر کو جو ہمارے ملک اور قوم کے علمی خزانے کے پر کرنے کے لئے کافی ہیں اور جن کی قدر آپ کہاں بھول پڑے۔ اتنے دنوں کہاں رہے۔" یہ کیا؟جن کی قدر آپ کہاں بھول پڑے۔ اتنے دنوں کہاں رہے؟ یہ کیا مہمل فقرہ ہوا۔ لاحول والا قوۃ۔ میں بھی کیا گڑ بڑ کررہا ہوں ۔آپ کہاں بھول پڑے اتنے دنوں کہاں رہے ؟ یہ فقرے تو شاکر خاں صاحب نے کسی دوست سے کہے ہیں جو ابھی ان سے ملنے آیا ہے ۔ میں مصروفیت میں انہیں ہی لکھ گیا۔ہاں تو کاٹ کے فقرہ درست کرنا چاہئے ۔ اور جن کی قدر ابھی تک ملک و قوم کو معلوم نہیں ہوتی ہے اور بظاہر۔۔۔"کوئی دروازہ کھٹکھٹاتا ہے۔کون ہے؟"میں ہوںِ شبن۔ سرکار نے کہا ہے کہ اگر آپ کوتکلیف نہ ہو تو نیچے ذرا سی دیر کے لئے تشریف لائیے، کوئی صاحب آئے ہوئے ہیں اور سرکار انہیں آپ سے ملانا چاہتے ہیں۔"بادل نخواستہ میں اٹھا اور نیچے گیا۔ شاکر خاں صاحب کے دوست راجہ طالب علی صاحب تشریف لائے تھے۔ ان سے میرا تعارف کرایا گیا ۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ تشریف لے گئے اور مجھے بھی فرصت ملی اور میں نے یکسو ہوکر لکھنا شروع کیا۔ تھوڑی دیر ہوئی تھی کہ شبن صاحب نے پھر دروازہ کھٹکھٹایا ۔ معلوم ہوا کہ میری پھر یاد آئی۔ ہمارے میزبان کے کوئی اور دوست آئے ہوئے ہیں اور میں انہیں دکھایاجاؤں گاگویا میں بھی مثل اس عربی گھوڑے کے تھا جسے میزبان نے حال ہی میں خریدا تھا اور جو ہر دوست کو اصطبل سے منگا کر دکھایاجاتا تھا۔ ان دوست سے نجات پاکر اور بھاگ کر میں پھر اپنے کمرے میں آیا۔ خیالات غائب ہوگئے تھے۔ فقرہ از سر نو پھر بنانا پڑا ۔ طبیعت اچاٹ ہوگئی۔ بہزار دقت پھر بیٹھا اور لکھنا شروع کیا۔ اب کی مرتبہ خوش قسمتی سے کوئی آدھ گھنٹہ ایسا ملا جس میں کوئی آیا گیا نہیں۔ اب میرا قلم تیزی سے چل رہا تھااور میں لکھ رہا تھا۔" ہم کو کامل یقین ہے کہ ہمارے ملک کے قابل نوجوان جنہیں تفتیش اور تحقیقات کا شوق ہے اور جوکولمبس کی طرح۔ نئی معلومات اور نئی دنیا(گو وہ علمی دنیا ہی کیوں نہ ہو) کے دریافت کرنے کے لئے اپنے تئیں۔۔۔"دروازے پر پھر دستک"کیا ہے؟ اچھا۔"دریافت کرنے کے لئے اپنے تئیں خطرے میں ڈالنے سے بھی خوف نہیں کھاتے ، ضرور اس طرف متوجہ ہوں گے اور اپنی کاوشوں اور کوششوں سے موجود۔۔۔"دروازہ پھر کھٹکھٹایاگیا۔"ہاں""حضور! سرکار آپ کا انتظار کر رہے ہیں، کھانا ٹھنڈا ہواجاتا ہے ۔""افوہ! مجھے خیال نہیں رہا۔ سرکار سے عرض کرنا میرا انتظار نہ کریں، میں پھر کھالوں گا ۔ اس وقت مجھے کچھ ایسی بھوک نہیں۔""اور آئندہ نسلوں کو زیر بار احسان کریں گے ۔ یہی وہ نوجوان ہیں جو قوم کی کشتی کو خدا کی مدد پر بھروسا کر کے خطرات سے بچاتے اور ساحل مراد تک پہنچاتے ہیں۔ زندگی اور موت کا لاینحل مسئلہ۔دستک۔۔ کیا ہے؟سرکا رکہتے ہیں۔ اگر آپ تھوڑی دیر میں کھائیں گے تو ہم بھی اسی وقت کھائیں گے ۔ مگر کھانا ٹھنڈا ہوکے بالکل خراب ہوجائے گا۔"اچھا بھئی، لو ابھی آیا۔"یہ کہہ کر میں کھانے کے لئے جاتا ہوں۔ سب سے معذرت کرتا ہوں۔ میزبان نہایت اخلاق سے فرماتے ہیں۔" چہرے پر تھکن محسوس ہوتی ہے ، کیا بہت لکھ ڈالا؟ دیکھو میں تم سے کہتا تھا نا کہ شہر میں ایسی فرصت اور خاموشی کہاں؟"سوائے اس کے کہ آمنا و صدقنا کہوں اور کیا کہہ سکتا تھا ۔ اب کھانے پر اصرار ہوتا ہے جس چیز سے مجھے رغبت نہیں وہی کھلائی جاتی ہے ۔ بعد کھانے کے میزبان صاحب فرماتے ہیں" سہ پہر کو تمہیں گاڑی میں چلنا ہوگا ۔ میں تمہیں اس واسطے یہاں نہیں لایا کہ سخت دماغی کام کرکے اپنی صحت خراب کرلو۔"واپس کمرے میں آکر تھوڑی دیر اس غرض سے لیٹتا ہوں کہ خیالات جمع کرلوں اور پھر لکھنا شروع کردوں ۔ مگر اب خیالات کہاں؟ مضمون اٹھا کر دیکھتا ہوں۔" زندگی اور موت کا لا ینحل مسئلہ۔"اس کے متعلق کیا لکھنے والا تھا؟ ان الفاظ کے بعد کون سے الفاظ دماغ میں تھے ؟ اب کچھ خیال نہیں کہ اس کو پہلے فقروں سے کیونکر ربط پیدا کرنا تھا۔ یوں ہی پڑے پڑے نیند آجاتی ہے۔ تیسرے پہر اٹھتا ہوں تو دماغ نہایت صحیح پاتا ہوں۔ "زندگی اور موت کا لاینحل مسئلہ" بالکل حل ہوجاتا ہے ۔ پورا فقرہ آئینے کی طرح نظر آتا ہے ۔ میں خوشی خوشی اٹھ کر میز پر گیا اور لکھنا چاہتاتھا کہ پھر وہی دستک۔نوکر اطلاع دیتا ہے کہ گاڑی تیار ہے ۔ سرکار کپڑے پہنے آپ کا انتظار کررہے ہیں۔ میں فوراً نیچے جاتا ہوں تو پہلا فقرہ جو میزبان صاحب فرماتے ہیں یہ ہوتا ہے" آج تو دستے کے دستے لکھ ڈالے۔" میں سچی بات کہوں گاکہ کچھ بھی نہیں لکھا۔" تو وہ ہنس کے جواب دیتے ہیں کہ آخر اس قدرکسر نفسی کی کیا ضرورت ہے؟خدا کے واسطے جھوٹی نہ کھائیے قسمیںمجھے یقین ہوا مجھ کو اعتبار آیامل ملا کر شام کو واپس آئے۔ کھانے کے بعد باتیں ہوتی رہیں۔ سونے کے وقت اپنا دن بھر کا کام اٹھا کر دیکھتا ہوں تو ایک صفحے سے زیادہ نہیں۔ وہ بھی بے ربط و بے سلسلہ۔ غصے اور رنج میں آکر اسے پھاڑ کر پھینک دیتا ہوں۔ اور دوسرے روز اپنے میزبان کو ناراض کرکے واپس چلا آتا ہوں ۔ ناشکر اور احسان فراموش کہا جاؤں گا۔ مگر میں مجبور ہوں ۔ اس عزیز اور مہربان دوست کوبھی چھوڑدوں گا۔میں نے ذرا تفصیل سے ان کا حال بیان کیا ہے ۔ مگر یہ خیال نہ کرنا کہ میں ان احباب کی فہرست ختم ہوگئی جن سے میں رخصت طلب کرسکتا ہوں ۔ نہیں ابھی بہت سے باقی ہیں۔ مثلاً ایک صاحب ہیں جو مجھ سے کبھی نہیں ملتے۔ مگر جب آتے ہیں میں ان کا مطلب سمجھ جاتا ہوں ۔ یہ حضرت ہمیشہ قرض مانگنے کے لئے آتے ہیں۔ ایک صاحب جو ہمیشہ ایسے وقت آتے ہیں جب میں باہر جانے والا ہوتا ہوں۔ ایک صاحب ہیں جو مجھ سے ملتے ہی کہتے ہیں"میاں عرصے سے میرا دل چاہتا ہے تمہارے دعوت کروں۔" مگر کبھی اپنی خواہش کو پورا نہیں کرتے۔ ایک دوست آتے ہیں۔ وہ آتے ہی سوالات کی بوچھار شروع کردیتے ہیں۔ جب میں جواب دیتا ہوں تو متوجہ ہوکر نہیں سنتے، یا اخبار اٹھا کر پڑھنے لگتے ہیں یا گانے لگتے ہیں۔ ایک صاحب ہیں وہ جب آتے ہیں اپنی ہی کہے جاتے ہیں میری نہیں سنتے۔یہ سب میرے عنایت فرما اور خیر طلب ہیں ، مگر اپنی طبیعت کو کیا کروں ۔صاف صاف کہتا ہوں کہ ان میں سے ہر ایک سے کہہ سکتا ہوں"مجھ پہ احسان جو نہ کرتے تو یہ احساں ہوتااب چونکہ میں نے یہ حال لکھنا شروع کردیا ہے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ چند اور احباب کے متعلق اپنے دلی خیالات ظاہر کردوں۔ دروازے پر ایک گاڑی آکے رکی ہے ۔ میں سمجھ گیا کہ کون صاحب تشریف لارہے ہیں ۔ میں ان کی شکایت نہیں کرنے لگا کیونکہ کیا یہ تعجب کی بات نہیں ہے کہ تین گھنٹے سے میں یہ مضمون لکھ رہا تھا کہ کسی کرم فرما نے کرم نہیں فرمایا۔ اس لئے اس کے شکریے میں میں اس مضمون کو اسی ناتمام حالت میں چھوڑتا ہوں اور اپنے دوست کا خیر مقدم کرتا ہوں۔ یہ دوست میری صحت کا بہت خیال رکھتے ہیں۔ جب آتے ہیں مجھ پر اس وجہ سے ناراض ہوتے ہیں کہ تم اپنی صحت کا خیال نہیں رکھتے۔" میں جانتا ہوں کہ اس وقت بھی یہی کسی نئے حکیم یا ڈاکٹر کا حال سنائیں گے جو حاذق ہے یا کوئی مجرب نسخہ میرے لئے کسی سے مانگ کر لائے ہوں گے۔"آئیے ۔ آئیے۔ مزاج عالی بہت دن بعد تشریف لائے۔"ماخوذ:
مجلہ "نقوش" (طنز و مزاح نمبر)
شمارہ 71-72 (جنوری-فروری 1959)
ناشر: ادارہ فروغ اردو ، لاہور (پاکستان)








جماعت نہم تا جماعت دوازدہم

 یہ سوال  اے کے یو ای بی کے سالانہ امتحان  ۲۰۱۱ جماعت نہم  کے اپردو کے پرچے میں ٓآیا تھا