آغا خان
ایجوکیشن سروس پاکستان
سبقی منصوبہ
بندی برائے فاصلاتی تدریس دوران ( COVID- 19)
تاریخ :۱۷
اپریل ۲۰۲۰ ء مضمون:
اُردو جماعت
:قبل از نہم(Pre-9)
عنوان: تفہیمی عبارت خوانی (۸) درکار کُل وقت: ۴۵ منٹ معلم:
بلبل ولی شاہ
حاصلات ِ تعلم: ۱۔ پیشہ ورانہ تحریروں
اور عبارتوں کو ان کے مفہوم کے حوالے سے پڑھ سکے۔
تدریسی مقاصد: اس سبق
کو پڑھنے کے بعد طلبا اس قابل ہوں گے کہ وہ:
۱۔دئیے گئے اقتباس کے تصورات کی تفہیم حاصل کر کے
اپنے الفاظ میں بیان کریں گے۔
۲۔ اقتباس سے متعلق پوچھے گئےکثیر الانتخابی سوالات
کے درست جوابات کی نشاندہی کریں گے۔
تدریسی معاونات: کاپیاں،
قلم، تفہیمی خواندگی کے اقتباس، تفہیمی
سوالات کی فہرست، اُردو لُغت،
سرگرمی نمبر |
مجوزہ تدریسی سرگرمیاں |
درکا ر وقت |
1 |
٭ عزیز طلبا آپ کو دو
اقتباسات دئیے جا رہے ہیں۔ آپ پہلے اقتباس نمبر 1 کو وقت مقررہ کا خاص
خیال رکھتے ہوئے دو بار غور سے پڑھیں اور اچھی طرح تفہیم حاصل کریں اور پھر
اقتباس کے آخر میں پوچھے گئے کثیر الانتخابی سوالات (MCQ) کے چار ممکنہ جوابات
میں سے درست جوابات کا انتخاب کریں۔
درست جوابات کے انتخاب کے بعد گھر کے کسی پڑھے لکھے فرد سے اصلاح لیں یا Footer میں دئیے گئے نمبرز پر
رابطہ کر کے کمک دہی حاصل کریں۔ |
۲۰ منٹ |
2 |
٭عزیز طلبا اب آپ اقتباس
نمبر 2 کو بھی وقت مقررہ کا خاص خیال رکھتے ہوئے دو بار غور سے پڑھیں اور اچھی طرح تفہیم حاصل کریں
اور پھر اقتباس کے آخر میں پوچھے گئے کثیر الانتخابی سوالات (MCQ) کے چار ممکنہ جوابات
میں سے درست جوابات کا انتخاب کریں۔
درست جوابات کے انتخاب کے بعد گھر کے کسی پڑھے لکھے فرد سے اصلاح لیں
یا Footer میں دئیے گئے نمبرز پر
رابطہ کر کے کمک دہی حاصل کریں۔ |
۲۰منٹ |
3 |
٭ جائزہ: عزیزطلبا اپنی آموزش (
تعلمLearning) کا جائزہ لینے کے لیے مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات کی دہرائی
کریں: ۱۔ پڑھی
گئی عبارت کے مطابق شہد کی مکھیوں کو رات دن کام کیوں کرنا پڑتا ہے؟
۲۔ پڑھی گئی عبارت سےہمیں
کیا پیغام ملتا ہے؟
۳ ۔ پڑھی گئی عبارت کے مطابق قدرت نےہمیں کیا سبق
دیاہے؟
۴۔ " قیس ہو، کون کن ہو یا حالیّ" اس مصرع کے پس منظر میں چھپے واقعات تلاش
کریں۔ |
۵ منٹ |
(براہ کرم صفحہ اُلٹیے)
تدریسی مواد کی تفصیلات
تفہیم عبارات خوانی:
پہلا اقتباس: (اس
حصے کو مکمل کرنے کے لیے آپ کے پاس 20 منٹ کا وقت ہے)
شہد کی تیاری ایک بے حد محنت طلب کام ہے۔ بہت سی مکھیاں
لگاتار رات دن کام کرتی ہیں تب وہ چیز وجود میں آتی ہے جس کو شہد کیا جاتا ہے۔ اس
کی وجہ یہ ہے کہ ایک پھول میں رس کی مقدار
بہت تھوڑی ہوتی ہے اس لیے بے شمار پھولوں کا رس جمع کیا جاتا ہے تاکہ قابلِ ذکر
مقدار میں شہد تیار ہو سکے۔
آدھا کلو شہد تیار کرنے کے لیے شہد کی مکھیوں کو تین لاکھ
میل سفر کرنا پڑتا ہے۔ ایک مکھی کی عمر چند ماہ سے زیادہ نہیں ہوتی ۔ کوئی مکھی
اپنی ساری عمر کا ہر لمحہ بھی پھولوں کا رس جمع کرنے میں لگا دے تو چند قطروں سے
زیادہ شہد نہیں بنا سکتی۔
اجتماعی کوشش کے ذریعے لاکھوں مکھیاں مل کر یہ کام کر لیتی
ہیں۔ یہ قدرت کا سبق ہے کہ جو اس نے ہم انسانوں کو دیا ہے۔ جس طرح اللہ تعالا نے
پانی اور پیٹرول کے ذخیرے زمین میں رکھ دیے ہیں، اسی طرح شہد کے ذخیرے بھی ہمیں مل
سکتے تھے۔ ایک پیچیدہ نظام کے تحت اس کی تیاری دراصل ہمارے سیکھنے کے لیے ایک مثال
کی حیثیت رکھتے ہیں۔
پہلے اقتباس سے متعلق سوالات:
1۔ شہد کی تیاری کیسا کام ہے؟ 2۔
پڑھی گئی عبارت کے مطابق شہد کی
مکھیوں کو رات دن کام کیوں کرنا پڑتا ہے؟
A۔ منافع بخش A۔ چونکہ پھول بہت دور دور ہوتے ہیں
B۔
دل چسپ B۔ پھولوں میں رس کی مقدار تھوڑی سی ہوتی
ہے
C۔ محنت طلب C۔ پھولوں کی کمی کی وجہ سے
D۔ مشکل D۔ میٹھے رس کی جستجو میں
3۔ شہد تیار کرنے کے لیے شہد کی مکھیوں کو
کتنا سفر
طےکرنا پڑتا ہے؟ 4۔ پڑھی گئی عبارت سےہمیں کیا پیغام ملتا ہے؟
A۔ تین لاکھ کلو میٹر A۔ محنت کا پھل میٹھا ہوتاہے
B۔ تیس لاکھ کلو میٹر B۔ محنت کبھی رائیگاں نہیں جاتی
C۔ تین میل C۔ اتحاد، تنظیم، یقین محکم
D۔ تین لاکھ میل D۔ اتفاق میں برکت ہے
(براہ کرم صفحہ
اُلٹیے)
5۔ پڑھی
گئی عبارت کے مطابق ، اللہ تعالیٰ نے کن ذخائر کو انسانوں کے لیے زمین میں
رکھے ہیں؟
A۔ بارش
اور جواہرات
B۔ لعل
و یاقوت
C۔ پانی
اور ڈیزل
D۔ پانی
اور پیٹرول
6۔ پڑھی گئی عبارت کے مطابق قدرت نےہمیں کیا سبق دیاہے؟
A۔ اجتماعی
کوشش کا
B۔ انفرادی
محنت کا
C۔ اتحاد،
تنظیم، یقین محکم کا
D۔ صبر
اور برداشت کا
7۔ کوئی مکھی اپنی ساری عمر کا ہر لمحہ بھی پھولوں کا رس جمع کرنے
میں لگا دے تو :
A۔ دو قطروں سے زیادہ شہد نہیں بنا سکتی
ہے
B۔ چار قطروں سے زیادہ شہد نہیں بنا سکتی
ہے
C۔ چند قطروں سے زیادہ شہد نہیں بنا سکتی
ہے
D۔ چودہ قطروں سے زیادہ شہد نہیں بنا سکتی
ہے
8۔ عبارت
کی روشنی میں شہد کی تیاری دراصل ہمارے سیکھنے کے لیے :
A۔ جُز
لاینفک ہے
B۔ پیچیدہ
نظام ہے
C۔ ایک
مثال ہے
D۔ عبرت
کا نشان ہے
(براہ کرم صفحہ
اُلٹیے)
دوسرا اقتباس :
نام دیو مقبرہ ٔ رابعہ ٔ
درانیاورنگ آباد (دکن) کے باغ میں مالی تھا۔
ذات کا ڈھیڑ جو بہت نیچ قوم خیال کی جاتی ہے۔قوموں کا امتیاز مصنوعی ہے اور
رفتہ رفتہ نسلی ہوگیا ہے۔سچائی، نیکی اور حُسن کسی کی میراث نہیں۔ یہ خوبیاں نیچی
ذات والوں میں بھی ایسی ہی ہوتی ہیں جیسی اُونچی ذات والوں میں۔
قیس ہو، کون کن ہو یا
حالیّ
عاشقی کچھ کسی کی ذات
نہیں
مقبرے کا باغ میری نگرانی میں تھا۔ میرے رہنے کا مکان بھی
باغ کے احاطے ہی میں تھا۔ میں نے اپنے بنگلے کے سامنےچمن بنانے کا کام نام دیو
مالی کے سپرد کیا تھا۔ میں اندر کمرے میں کام کرتا رہتا تھا۔میری میز کے سامنے بڑی سی کھڑکی تھی، اُس میں سے چمن
صاف نظر آتا تھا۔لکھتے لکھتے کبھی نظر اُٹھا کر دیکھتاتو نام دیو کو ہمہ تن اپنے کام میں مصروف پاتا۔ بعض دفعی اُس کی
حرکتیں دیکھ کر بہت تعجب ہوتا مثلاً کیا دیکھتا ہوں کہ نام دیو ایک پودے کے سامنے
بیٹھا اس کا تھانولا صاف کر رہا ہے۔ تھانولا صاف کر کے حوض سے پانی لیا اور آہستہ
آہستہ ڈالنا شروع کیا۔ پانی ڈال کر ڈول درست کیاور ہر رُخ سے پودے کو مُڑ مُڑ کر
دیکھا۔ پھر اُلٹے پاؤں پیچھے ہٹ کر اُسے دیکھنے لگا۔ دیکھتا جاتا تھا اور مُسکراتا
اور خوش ہوتا تھا۔ یہ دیکھ کر مجھے حیرت
بھی ہوئی اور خوشی بھی۔کام اُسی وقت ہوتا ہے جب اُس میں لذت آنے لگے۔ بے مزہ کام ،
کام نہیں بے گار ہے۔
اب مجھے اُس سے دلچسپی ہونے لگی۔ یہاں تک کہ بعض اوقات اپنا
کام چھوڑ کر اُسے دیکھا کرتا مگر اُسے کچھ خبر نہ ہوتی کہ اُسے کوئی دیکھ رہا ہے
یا اس کے آس پاس کیا ہو رہا ہے۔ وہ اپنے کام میں مگن رہتا۔ اس کے کوئی اولاد نہ تھی۔ وہ اپنے پودوں اور پیڑوں
ہی کو اپنی اولاد سمجھتا اور اولاد کی طرح اُن کی پرورش اور نگہداشت کرتاتھا۔ اُن کو سرسبز اور شاداب دیکھ کر ایسا خوش
رہتا جیسے ماں اپنے بچوں کو دیکھ کر خوش ہوتی ہے۔
دوسرے اقتباس سے متعلق سوالات:
9۔ پڑھی
گئی عبارت کے مطابق سچائی اور نیکی کسی کی
A۔ میراث نہیں ہے
B۔ جائیداد نہیں ہے
C۔ ذات نہیں ہے
D۔ عادت نہیں ہے
10۔
مصنف مقبرے کے کون سے حصے کی نگرانی کرتے تھے؟
A۔ صحن
B۔ احاطہ
C۔ باغ
D۔ کمرہ (براہ کرم صفحہ اُلٹیے)
11۔ مصنف کے مطابق
کام اُسی وقت ہوتا ہے جب اُس میں لذت آنے لگے۔ بے مزہ کام ،
کام نہیں بلکہ
A۔ بیماری ہے
B۔ ناکامی ہے
C۔ مصیبت ہے
D۔ بے گار ہے
12۔ " اُن کو سرسبز اور شاداب دیکھ کر ایسا خوش رہتا جیسے
ماں اپنے بچوں کو دیکھ کر خوش ہوتی ہے"۔ جملے میں علم بیان کی کون سی قسم کا
استعمال ہے؟
A۔
کنایہ
B۔
مجاز مرسل
C۔
استعارہ
D۔
تشبیہ
13۔
نام دیو کس کو اپنی اولاد سمجھتا تھا؟ 14۔ نام دیو کا کام دیکھ کر مصنف کو نام دیو سے
کیا ہونے لگی تھی؟
A۔ پودوں اور پانی کو A۔ دل چسپی
B۔ پودوں اور پیڑوں کو B۔ بد مزگی
C۔ پودوں اور پتھروں کو C۔ نفرت
D۔ پودوں اور زمین کو D۔ محبت
15۔
" اُس میں سے چمن صاف نظر آتا تھا"۔
16۔
" قیس ہو، کون کن ہو یا حالیّ"
اس مصرع میں کون سی صنعت کا استعمال ہے؟
درج
بالاجملے میں خط کشیدہ لفظ قواعد کی رو سے کیا ہے؟ A۔ صنعت تضاد
A۔ اسم صوت B۔ صنعت تکرار
B۔ اسم آلہ C۔ تلمیح
C۔ اسم ظرف زماں D۔ صنعت حسن تعلیل
D۔ اسم ظرف مکاں
(ختم شُد )
آغا خان
ایجوکیشن سروس پاکستان
سبقی منصوبہ
بندی برائے فاصلاتی تدریس
تاریخ : ۱۸
اپریل ۲۰۲۰ ء مضمون:
اُردو جماعت
:قبل از نہم(Pre-9)
عنوان: تفہیمی عبارت خوانی (۹) درکار کُل وقت: ۴۵ منٹ معلم:
بلبل ولی شاہ
حاصلات ِ تعلم: ۱۔ پیشہ ورانہ تحریروں
اور عبارتوں کو ان کے مفہوم کے حوالے سے پڑھ سکے۔
تدریسی مقاصد: اس سبق
کو پڑھنے کے بعد طلبا اس قابل ہوں گے کہ وہ:
۱۔دئیے گئے اقتباس کے تصورات کی تفہیم حاصل کر کے اپنے
الفاظ میں بیان کریں گے۔
۲۔ اقتباس سے متعلق پوچھے گئےکثیر الانتخابی سوالات
کے درست جوابات کی نشاندہی کریں گے۔
تدریسی معاونات: کاپیاں،
قلم، تفہیمی خواندگی کے اقتباس، تفہیمی
سوالات کی فہرست، اُردو لُغت،
سرگرمی نمبر |
مجوزہ تدریسی سرگرمیاں |
درکا ر وقت |
1 |
٭ عزیز طلبا آپ کو دو
اقتباسات دئیے جا رہے ہیں۔ آپ پہلے اقتباس نمبر 1 کو وقت مقررہ کا خاص
خیال رکھتے ہوئے دو بار غور سے پڑھیں اور اچھی طرح تفہیم حاصل کریں اور پھر
اقتباس کے آخر میں پوچھے گئے کثیر الانتخابی سوالات (MCQ) کے چار ممکنہ جوابات
میں سے درست جوابات کا انتخاب کریں۔
درست جوابات کے انتخاب کے بعد گھر کے کسی پڑھے لکھے فرد سے اصلاح لیں یا Footer میں دئیے گئے نمبرز پر
رابطہ کر کے کمک دہی حاصل کریں۔ |
۲۰ منٹ |
2 |
٭عزیز طلبا اب آپ اقتباس
نمبر 2 کو بھی وقت مقررہ کا خاص خیال رکھتے ہوئے دو بار غور سے پڑھیں اور اچھی طرح تفہیم حاصل کریں
اور پھر اقتباس کے آخر میں پوچھے گئے کثیر الانتخابی سوالات (MCQ) کے چار ممکنہ جوابات
میں سے درست جوابات کا انتخاب کریں۔
درست جوابات کے انتخاب کے بعد گھر کے کسی پڑھے لکھے فرد سے اصلاح لیں
یا Footer میں دئیے گئے نمبرز پر
رابطہ کر کے کمک دہی حاصل کریں۔ |
۲۰منٹ |
3 |
٭ جائزہ: عزیزطلبا اپنی آموزش (
تعلمLearning) کا جائزہ لینے کے لیے مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات کی دہرائی
کریں: ۱۔ سوار ہونے والا مسافر کہاں کا ملازم
تھا؟
۲۔ جہاز کا انجن کتنے گھنٹوں بعد ٹھیک ہو کر چلنے لگا؟ ۳ ۔ مصنف کو کس بات کا افسوس تھا؟
۴۔ منٹو صاحب خاموش کیوں ہو گئے؟ ۵۔ عبارت پڑھ کر منٹو صاحب کی شخصیت کا کون سا پہلو سامنے
آتا ہے؟ |
۵ منٹ |
(براہ کرم صفحہ اُلٹیے)
تدریسی مواد کی تفصیلات
تفہیم عبارات خوانی:
پہلا اقتباس: (اس
حصے کو مکمل کرنے کے لیے آپ کے پاس 20 منٹ کا وقت ہے)
عدن میں ایک جرمن
ہمارے جہاز پر سوار ہوا، جو جرمن کے ایک مشہور عجائب خانہ کا ملازم ہے اور مدت تک
ان اطراف میں رہ کر یورپ کو واپس جا رہا ہے۔ سیاحی و تجارت کی بدولت وہ متعدد
زبانوں میں بے تکلف بات چیت کر سکتا ہے۔ جب وہ جہاز کے افسروں سے اٹالین میں،
آرنلد سے انگریزی میں اور مجھ سے عربی میں گفتگو کرتا تھا تو مجھے سخت تعجب اور
رشک ہوتا تھا۔ کھانے کی میز پر جب ہم سب جمع ہوتے تو یہی ایک شخص تھا جو ہم سب کا
ترجمان بنتا تھا۔ اس نے افریقا و عرب کی جنگلوں سے عجیب و غریب جانور بہم پہنچائے
تھے۔ ایک بڑے پنجرے میں افریقا کے بندر تھے، جن کی ہیت معمولی بندروں سے الگ تھلگ
تھی۔ ان میں زیادہ تعجب انگیز بات یہ تھی کہ جب وہ کسی کو اپنی طرف آتا دیکھ کر غل
مچاتے تو ان کی آواز سے کچھ حروف مفہوم ہوتے۔ میں نے اولاًخیال کیا کہ ہم لوگ جس
طرح مثلاً بلی کی آواز کو میاؤں سے تعبیر کرتے ہیں یہ بھی اسی قسم کے فرضی الفاظ
ہیں، لیکن چند بار میں نے غور سے سنا تو صاف صاف "دل " اور "یایا
" کی آواز محسوس ہوتی تھی۔ یہاں تک کہ کوئی شخص پردے سے سنتا تو ہر گز خیال
نہ کر سکتا کہ بندر کی آواز ہے۔ میں نے مسٹر آرنلڈ سے ذکر کیا تو اس نے بھی تصدیق
کی۔ غالباً اسی قسم کی آوازوں سے یورپ کے بعض لوگوں کو خیال پیدا ہوا ہے کہ بندر
بھی بول سکتے ہیں۔
عدن سے چونکہ دلچسپی
کے نئے سامان پیدا ہوگئے تھے اس لیے ہم بڑے لطف سے سفر کر رہے تھے۔ لیکن دوسرے ہی
دن ایک پُر خطر واقعہ پیش آیا، جس نے تھوڑی دیر تک مجھ کو پریشان کر رکھا۔ 10 مئی
کی صبح کو میں سوتے سے اٹھا تو ایک ہم سفر نے بتایا کہ جہاز کا انجن ٹوٹ گیا ۔ میں
دیکھا تو واقعی جہاز کا کپتان اور ملازم گھبرائے پھر رہے تھے اور اس کی درستی کی
تدبیریں کر رہے تھے۔ انجن بالکل ناکارہ ہو گیا تھا اور جہاز نہایت آہستہ آہستہ ہوا کے سہارے چل رہا
تھا ۔ میں سخت گھبرایا اور نہایت ناگوار خیالات دل میں آنے لگے۔ اس اضطراب میں اور
کیا کر سکتا تھا۔ دوڑا ہوا مسٹر آرنلڈ کے پاس گیا، وہ نہایت اطمینان کے ساتھ اس
وقت کتاب کا مطالعہ کر رہے تھے۔ میں نے
اُن سے پوچھا " آپ کو کچھ خبر بھی ہے؟"
بولے " ہاں! انجن ٹوٹ گیا ہے"
میں نے کہا ، " آپ کو کچھ اضطراب نہیں؟ بھلا یہ بھی کوئی کتاب پڑھنے
کا وقت ہے؟" فرمایا ' جہاز کو اگر
برباد یہ ہوناہی ہے تو یہ تھوڑا سا وقت اور بھی قدر کے قابل ہے اورایسے قابل قدر
وقت کو رائیگاں کرنا بے عقلی ہے"۔ ان کے استقلال اور جرات سے مجھ کو بھی
اطمینان ہوا۔ آٹھ گھنٹے کے بعد انجن درست ہوا اور دوبارہ چلنے لگا۔
پہلے اقتباس سے متعلق
سوالات:
1۔ جہاز پر سوار ہونے والے مسافر کا تعلق کس
ملک سے تھا؟ 2 ۔
سوار ہونے والا مسافر کہاں کا ملازم تھا؟
A۔ پاکستان A۔ ہوٹل کے
B۔ چین B۔ مہمان خانے کے
C۔ جاپان C۔ عجائب خانے کے
D۔ جرمنی D۔ سرکاری دفتر کے
(براہ کرم صفحہ
اُلٹیے)
3۔ سوار ہونے والا
مسافر جہاز کے افسروں سے کس زبان میں بات کرتا تھا؟
A۔ جرمن
B۔ چینی
C۔ عربی
D۔ اٹالین
4۔ اس نے عرب و افریقا کے جنگلوں میں سے کونسے
عجیب و غریب جانور بہم پہنچائے تھے؟
A۔ ہاتھی
B۔ گھوڑے
C۔ بندر
D۔ اونٹ
5۔ بڑے پنجرے میں بند بندروں کا تعلق کس ملک
سے تھا؟ 6۔
مصنف ایک دن سوتے سے اٹھے تو ایک ہم سفر نے بتایا کہ جہاز کا :
A۔ افریقا A۔ سامان گر گیا ہے
B۔ انڈیا B۔ انجن ٹوٹ گیا ہے
C۔ اٹلی C۔ کپتان ڈوب گیا ہے
D۔ ترکی D۔ انجن بند ہو گیا ہے
7۔ جہاز کا انجن کتنے گھنٹوں بعد ٹھیک ہو کر
چلنے لگا؟ 8۔ درج بالا تحریر ادب کی کون سی قسم سے تعلق
رکھتی ہے؟
A۔ چار
گھنٹے A۔ داستان نگاری
B۔ چھے
گھنٹے B۔ ناول نگاری
C۔ آٹھ
گھنٹے C۔ سوانح نگاری
D۔ دس
گھنٹے D۔ سفر نامہ نگاری
(براہ کرم صفحہ
اُلٹیے)
دوسرا اقتباس :
میں
منٹو صاحب سے شاید ہی کبھی ناراض ہوا ہوں۔ میں نے تو منٹو صاحب کی ہر بات برداشت
کی ہے۔ ایک دفعہ ضرور میں نے ان کی شکایت احمد ندیم قاسمی سے کی تھی اور آج مجھے
ان کے مرنے کے بعداحساس ہوتا ہے کاش میں اس بار بھی حرف شکایت زبان پر نہ لایا
ہوتا ،اور وہ زیادتی بھی برداشت کر لیتا۔ قصّہ یہ تھا کہ میرا ٹانسلز کا اپریشن
ڈاکٹر ولایت ملک نے کیا تھا، جس میں ایک مہینہ چھے دن ہسپتال میں زیر علاج رہا۔
جون کا مہینہ ، لاحول کی گرمی اور اُس پر بیماری کے بعد چڑچڑے پن کا شکار تھا اور
یہی نہیں اُس دن میری قیمتی گھڑی بھی کھو گئی تھی چونکہ ایک مہینہ چھے دن سے منٹو صاحب سے ملاقات نہیں ہوئی تھی اس لیے
ہسپتال سے میں سیدھا منٹو صاحب کے گھر گیا ، منٹو صاحب پہلے تو بگڑے کہ اتنے دن
خبر کیوں نہیں لی ؟ میں نے ہسپتال کی روداد سُنا کر کہا کہ خبر تو آپ کو لینی تھی،
یہ سُن کر خاموش ہوگئے، کچھ دیر بیٹھے
باتیں کرتے رہے پھر آہستہ سے بولے کچھ پیسے چاہیے ہیں۔ میں نے کہا میرے پاس جملہ
بیس (۲۰) روپے ہیں وہ بھی بڑی مشکل سے ہسپتال میں بچائے ہیں اور آج ہی مجھے
راولپنڈی بھائی کے پاس جانا ہے ۔ کہنے لگے یار ! پھر بھی دے دو۔ میں نے کہا میری
مجبوری دیکھئے ۔ یار کیا بک بک کرتے ہو
نکالو، میں نے کہا مجھے پنڈی جانا ہے، یار پھر بھی دے دو، میں نے غصے میں بیس روپے جیب سے نکال کر ان کے
سامنے پھینک دئیے۔ میں نے روپے تو دے دئیے لیکن میرے پاس اب ایک پیسہ بھی نہ تھا۔
ایک گھنٹے تک مال روڑ اور حال روڑ کے چوراہے پر کھڑا میں یہ
سوچتا رہا کہ اب بیس روپے کہاں سے حاصل کیے جائیں؟ بڑی سوچ بچار کے بعد ندیم صاحب
کے پاس پہنچا۔ میں نے سارا واقعہ انھیں سنا دیا اور کہا کہ پہلے بھی کئی بار ایسا
ہو چکا ہے۔ انھوں نے کچھ نہ کہا ۔کاغذ قلم اُٹھا کر ایک خط نظیر چودھری کے نام
لکھا کہ برادرم اسد اللہ کو بیس روپوں کی ضرورت ہے، آپ میرا افسانہ لے لیجیے اور
انھیں اسی وقت بیس روپے دے دیجیے۔ نظیر چودھری مجھے نہیں ملے تو میں نے مکتبہ
اُردو سے ندیم صاحب کو ٹیلی فون کیا ، انھوں نے جواب دیا کہ آپ "امروز"
کے دفتر چلے آئیں۔ میں امروز کے دفتر
پہنچا ، وہ میرے نام ایک رقعہ چھوڑ گئے تھے کہ انتظار کیجیے میں ابھی آتا ہوں ۔
مجھے ایک اور جگہ کام تھا ، میں وہاں سے واپس آیا تو ندیم صاحب اپنے ایک دوست سے ـجن کی چشموں کی
دکان ہےـ سخت گرمی کی دوپہر میں جا کر بیس روپے ادھار
لے آئے تھے۔ انھوں نے مجھے بیس روپے دئیے اور کہا یہ لو اور پنڈی چلے جاؤ۔
دوسرے اقتباس سے
متعلق سوالات:
9۔ " کاش میں اس بار بھی حرف شکایت زبان
پر نہ لایا ہوتا" درجہ بالا
جملے میں فعل ماضی کی کون سی قسم پائی جاتی ہے؟
A۔ ماضی مطلق B۔ ماضی استمراری
C۔ ماضی تمنائی D۔ ماضی شکیہ
10۔ "چونکہ ایک مہینہ چھے دن
سے منٹو صاحب سے ملاقات نہیں ہوئی
تھی" دئیے گئے جملے میں حرف کی
کون سی قسم استعمال کی گئی ہے؟
A۔ حرف اضافت B۔ حرف تحسین
C۔ حرف علت D۔ حرف عطف
(براہ کرم صفحہ
اُلٹیے)
11۔ عبارت پڑھ کر منٹو صاحب کی شخصیت کا کون
سا پہلو سامنے آتا ہے؟
A۔ بے تکلفی
B۔ بارعب ہونا
C۔ مزاج کی برہمی
D۔ مطلب
پرست ہونا
12۔ پڑھی گئی عبارت کی روشنی میں احمد ندیم قاسمی
کی شخصیت کیسی معلوم ہوتی ہے؟
A۔ مطلبی
B۔ پُر تکلف
C۔ مددگار
D۔ دوسروں کو نظر انداز کرنے والی
13۔ منٹو
صاحب خاموش کیوں ہو گئے؟ 14۔ لفظ " رقعہ " کا مطلب کیا ہے؟
A۔ ناراضی کی وجہ سے A۔ خط
B۔ بے موقع گلہ کرنے کی وجہ سے B۔
دفتر
C۔ بیماری کا سُن کر C۔
کاپی
D۔ پریشانی
کا سُن کر D۔ پیسے
15۔ عبارت پڑھ
کر آپ کو مصنف کی شخصیت کیسی لگی؟ 16۔ مصنف کو افسوس تھا:
A۔ حلیم
الطبع A۔ پیسے ختم ہو جانے کا
B۔ حریص B۔ اسپتال میں زیر علاج رہنے کا
C۔ بزدل C۔ احمد ندیم قاسمی سے شکایت کا
D۔ حاذق D۔ منٹو صاحب کے زبردستی پیسے لینے کا
(ختم شُد )
آغا خان
ایجوکیشن سروس پاکستان
سبقی منصوبہ
بندی برائے فاصلاتی تدریس
تاریخ : ۱۹ اپریل
۲۰۲۰ ء مضمون: اُردو جماعت :قبل از نہم(Pre-9)
عنوان: تفہیمی عبارت خوانی (۱۰) درکار کُل وقت: ۴۵ منٹ معلم:
بلبل ولی شاہ
حاصلات ِ تعلم: ۱۔ پیشہ ورانہ تحریروں
اور عبارتوں کو ان کے مفہوم کے حوالے سے پڑھ سکے۔
تدریسی مقاصد: اس سبق
کو پڑھنے کے بعد طلبا اس قابل ہوں گے کہ وہ:
۱۔دئیے گئے اقتباس کے تصورات کی تفہیم حاصل کر کے
اپنے الفاظ میں بیان کریں گے۔
۲۔ اقتباس سے متعلق پوچھے گئےکثیر الانتخابی سوالات
کے درست جوابات کی نشاندہی کریں گے۔
تدریسی معاونات: کاپیاں،
قلم، تفہیمی خواندگی کے اقتباس، تفہیمی
سوالات کی فہرست، اُردو لُغت،
سرگرمی نمبر |
مجوزہ تدریسی سرگرمیاں |
درکا ر وقت |
1 |
٭ عزیز طلبا آپ کو دو
اقتباسات دئیے جا رہے ہیں۔ آپ پہلے اقتباس نمبر 1 کو وقت مقررہ کا خاص
خیال رکھتے ہوئے دو بار غور سے پڑھیں اور اچھی طرح تفہیم حاصل کریں اور پھر
اقتباس کے آخر میں پوچھے گئے کثیر الانتخابی سوالات (MCQ) کے چار ممکنہ جوابات
میں سے درست جوابات کا انتخاب کریں۔
درست جوابات کے انتخاب کے بعد گھر کے کسی پڑھے لکھے فرد سے اصلاح لیں یا Footer میں دئیے گئے نمبرز پر
رابطہ کر کے کمک دہی حاصل کریں۔ |
۲۰ منٹ |
2 |
٭عزیز طلبا اب آپ اقتباس
نمبر 2 کو بھی وقت مقررہ کا خاص خیال رکھتے ہوئے دو بار غور سے پڑھیں اور اچھی طرح تفہیم حاصل کریں
اور پھر اقتباس کے آخر میں پوچھے گئے کثیر الانتخابی سوالات (MCQ) کے چار ممکنہ جوابات
میں سے درست جوابات کا انتخاب کریں۔
درست جوابات کے انتخاب کے بعد گھر کے کسی پڑھے لکھے فرد سے اصلاح لیں
یا Footer میں دئیے گئے نمبرز پر
رابطہ کر کے کمک دہی حاصل کریں۔ |
۲۰منٹ |
3 |
٭ جائزہ: عزیزطلبا اپنی آموزش (
تعلمLearning) کا جائزہ لینے کے لیے مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات کی دہرائی
کریں: ۱۔ عبارت کے مطابق شیخ صاحب کو کس چیز کا کا
شوق تھا؟
۲۔ شیخ صاحب کے مطابق دنیا کی ہر چیز کس لیے پیدا کی گئی ہے؟ ۳ ۔ چچی
کو تصویر کے بارے میں کیا فکر تھی؟ ؟
۴۔ چچا چھکن نے تصویر ٹانکنے کے لیے کیا منگوایا
تھا؟ ۵۔ عبارت کے مطابق جب چچا چھکن گھر میں کام کرتے
ہیں تو گھر کا کیا ماحول ہوتا ہے؟ |
۵ منٹ |
(براہ کرم صفحہ اُلٹیے)
تدریسی مواد کی تفصیلات
تفہیم عبارات خوانی:
پہلا اقتباس: (اس
حصے کو مکمل کرنے کے لیے آپ کے پاس 20 منٹ کا وقت ہے)
مصنف رشید احمد صدیقی کہتے ہیں کہ کچھ دن ہوئے
میری ملاقات جناب شیخ نیازی سے ہوئی۔ ایسی حالت میں کہ اُن کی آنکھیں تھیں لیکن
کسی کو پہچان نہیں سکتے تھے۔ ناک تھی لیکن خوش بو میں اور بد بو میں فرق نہیں
کر پاتے تھے۔ ہاتھ پاؤں تھے لیکن چل پھر نہیں سکتے تھے۔ ان تمام باتوں کے ہوتے
ہوئے بھی اُن سے دوستی ایسی ہوئی کہ اُن
کے بغیر مجھے چین نہیں۔ گو اب تک یہ نہ معلوم ہو سکا نہ یہ بات کبھی ذہن میں آئی
کہ خود شیخ صاحب کا میرے بارے میں کیا خیال تھا۔
شیخ صاحب کو کھانے پینے کا بڑا شوق تھا۔ اگر روک
تھام نہ کی جائے تو یہ کھانے پر کبھی ترس نہ کھائے۔ اس لیے اُن کو بے تُک اور بے
تکان کھانے پینے سے باز رکھا جاتا ہے۔
کوئی اور ہو تو اس سلوک سے اس درجہ ناراض ہو کہ تمام عمر میرا منہ نہ
دیکھے۔ لیکن شیخ صاحب ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں کی پروا نہ کرتے۔ اُن کا خیال ہے کہ
دنیا میں ہر چیز کھانے پینے کے لیے بنائی گئی ہے۔ چاہے وہ مار پیٹ ہی کیوں نہ ہو۔
شیخ صاحب کی شکل و صورت بھی دیکھنے کے لائق ہے۔
تربوز جیسا سر، ہونٹ موٹے موٹے،جیسے تنوری روٹی کے کنارے، ناک چھوٹی، گاجر کی
مانند، دہانہ ایسا کہ مسکرائیں بھی تو باچھیں گالوں تک پہنچ جائیں، اور رونے میں
اسے کھول دیں تو خاصا بڑا ٹماٹر منہ میں آجائے۔ آواز ایسی پاٹ دار کہ ایک ہی نعرے
میں چرند پرند تک چونک پڑیں اور ادھر ادھر دُبکنے لگیں۔ شیخ صاحب کو اچھا پہننے
اوڑھنے کا بالکل بھی شوق نہیں۔ اکثر دوسرے بھائیوں کا کپڑا اُلٹا سیدھا پہنا دیا
جاتا ہے تو اسی میں مگن رہتے ہیں۔ لوگ چڑاتے یا طعنہ دیتے ہیں کہ فلاں بھائی یا
بہن کی اُترن ہے تو اُن کی سمجھ میں نہیں آتا۔ کہتے ہیں "اُترن کیا ہے؟ یہ تو
صدری ہے۔ خود اماں بی نے پہنائی ہے"۔
ابھی یہ اتنا لکھ پڑھ نہیں پائے ہیں کہ اُن کے
بارے میں جو کچھ لکھا جاتا ہے اسے پڑھ سکیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ میں نے ان کی جو
باتیں ادھر ادھر لکھیں اُس کو اُن کے بہن بھائی کچھ اس طرح نمک مرچ لگا کر سناتے
ہیں کہ یہ جامے سے باہر ہو جاتے ہیں۔
پہلے اقتباس سے متعلق سوالات:
1۔ عبارت کے مطابق مصنف کی ملاقات کس سے ہوئی؟ 2۔ عبارت کے مطابق شیخ صاحب کو کس چیز کا کا
شوق تھا؟
A۔ شیخ سعدی سے A۔ پہننے اوڑھنے کا
B۔ شیخ نیازی سے B۔ لکھنے پڑھنے کا
C ۔ شیخ منظور سے C ۔ کھانے پینے کا
D ۔ شیخ چلی سے D ۔ گھومنے پھرنے کا
(براہ کرم صفحہ
اُلٹیے)
3۔ مصنف کے ذہن میں یہ بات کبھی نہ آئی کہ شیخ
صاحب کا کیا خیال ہے: 4۔
شیخ صاحب کے مطابق دنیا کی ہر چیز کس لیے پیدا کی گئی ہے؟
A۔ دنیا کے بارے میں A۔ استعمال کے لیے
B۔ ادب کے بارے میں B۔ خراب کرنے کے لیے
C۔ مصنف کے بارے میں C۔ کھانے کے لیے
D۔ اپنے بارے میں D۔ سجانے کے لیے
5۔ مصنف نے شیخ صاحب کے سر کو کس چیز سے تشبیہ دی ہے؟ 6۔ شیخ صاحب کی آواز کیسی تھی؟
A۔ آم سے A۔ بہت دھیمی تھی
B۔ سیب سے B۔ بہت پاٹ دار تھی
C۔ خربوزے سے C۔ بہت تیز تھی
D۔ تربوزے سے D۔ بہت باریک تھی
7۔ شیخ صاحب کو لوگ کس بات پر چڑاتے اور طعنہ دیتے
تھے؟ 8۔ شیخ صاحب کی شکل و صورت کیسی تھی؟
A۔ بہن بھائی کی اُترن پر A۔ معصوم سی
B۔ بہن بھائی کی قربت پر B۔ ڈراونی سی
C۔ بہن بھائی کی صورت پر C۔ متنفر سی
D۔ بہن بھائی کی دولت پر D۔ دیکھنے کے لائق
(براہ کرم صفحہ
اُلٹیے)
دوسرا اقتباس : (اس حصے کو مکمل کرنے کے لیے آپ کے پاس 20 منٹ کا وقت ہے)
چچا چھکن کبھی کبھار
کوئی کام اپنے ذمے کیا لے لیتے ہیں، گھر بار کو تگنی کا ناچ نچا دیتے ہیں۔ "
آبے لونڈے ، جا بے لونڈے، یہ کیجیو، وہ کیجیو"۔ گھر بازار ایک ہو جاتا ہے۔
دُور کیوں لے جاؤ، پرسوں پرلے دن کا ذکر ہے ، دکان سے تصویر کا چوکھٹا لگ کے آیا۔
اُس وقت تو دیوان خانے میں رکھ دی گئی، کل شام چچی کی نظر کہیں اس پر پڑی ، بولی
" چھٹن کے ابا تصویر کب سے رکھی ہوئی ہے ، خیر سے بچوں کا گھر ٹھہرا، لہں ٹوٹ
پھوٹ گئی تو بیٹھے بٹھائے روپے دو روپے کا دھکا لگ جائے گا۔ کون ٹانگے گا اس کو
؟"
" ٹانگتا اور
کون ، میں خود ٹانگوں گا ۔ کون سی ایسی جوئے شیر لانی ہے۔ رہنے دو، میں ابھی سب کچھ خود ہی کیے لیتا ہوں"۔
کہنے کے ساتھ ہی چچا شیروانی اُتار تصویر ٹانکنے کے درپے ہوگئے۔ امامی سے کہا،
"بیوی سے دو آنے پیسے لے کر میخیں لے " ادھر وہ دروازے سے نکلا، ادھر
نودھے سے کہا، " مودے مودے! جانا
امامی کے پیچھے " کہیو تین تین انچ کی ہوں میخیں۔"
چھٹن بیٹے ! چائے پی
لی تم نے؟ ذرا جانا تو اپنے ان ہمسائے میر باقر علی کے گھر کہنا کہ وہ جو آپ کے
پاس آلہ ہے نا جس سے سیدھ معلوم ہوتی ہے وہ ذرا دے دیجیے، تصویر ٹانکنی ہے۔ جائیو
میرے بیٹے ، پر دیکھنا سلام ضرور کرنا اور ٹانگ کا پوچھنا نہ بھول جانا۔ اچھا؟
۔۔۔۔۔۔۔ یہ تم کہاں چل دئیے للو؟ کہا جو ہے ذرا یہیں ٹھہرے رہو۔ سیڑھی پر روشنی کون دکھائے گا ہم کو ؟
آگیا امامی؟ لے آیا
میخیں؟ مودا مل گیا تھا؟ تین تین انچ کی ہی ہیں نا؟ بس بہت ٹھیک ہیں۔ اے لو سُتلی
منگوانے کا خیال ہی نہ رہا۔ اب کیا کروں؟ جانا میرا بھائی جلدی جا، ہوا کی طرح جا
اور بس دیکھیو گز سوا گز ہو سُتلی ۔ نہ بہٹ موٹی ہو سُتلی اور نہ پتلی، کہہ دینا
تصویر ٹانکنے کو چاہئیے۔
دوسرے اقتباس سے متعلق سوالات:
9۔ چچا چھکن کے نوکر کا کیا نام تھا؟ 10۔ چچی کو تصویر کے بارے میں کیا فکر تھی؟
A۔ چھٹن A۔ ٹوٹ جائے گی
B۔ امامی B۔ میلی ہو جائے گی
C۔ منگو C۔ ٹانک دی جائے گی
D۔ باقر
علی D۔ کھو جائے گی
11۔ چچا چھکن کے بیٹے کا کیا نام ہے؟ 12۔ سبق چچا چھکن میں چچا چھکن کیا پہنے ہوئے
تھے؟
A۔ چھکن A۔ سویٹر
B۔ چھٹن B۔ گھڑی
C۔ باقر C۔ واسکٹ
D۔ امامی D۔ شیروانی
(براہ کرم صفحہ اُلٹیے)
13۔ عبارت کے مطابق جب چچا چھکن گھر میں کام
کرتے ہیں تو گھر کا کیا ماحول ہوتا ہے؟
A۔ سناٹا
چھا جاتا ہے
B۔ گھر بھر کو تگنی کا ناچ نچاتے
C۔ سب خوشی کا اظہار کرتے تھے
D۔ سب کی پریشانی بڑھ جاتی تھی
14۔ چچا چھکن گھر کا کام کب کیا کرتے تھے؟
A۔ روزانہ
B۔ صبح کے وقت
C۔ شام کے وقت
D۔ کبھی کبھار
15۔ چچا چھکن نے تصویر ٹانکنے کے لیے کیا
منگوایا تھا؟
A۔ سیڑھی
B۔ دھاگا
C۔ میخیں
D۔ کرسی
(ختم
شُد )
آغا خان
ایجوکیشن سروس پاکستان
سبقی منصوبہ
بندی برائے فاصلاتی تدریس
تاریخ :۲۰ اپریل
۲۰۲۰ ء مضمون: اُردو جماعت :قبل از نہم(Pre-9)
عنوان: تفہیمی عبارت خوانی (۱۱) درکار کُل وقت: ۴۵ منٹ معلم:
بلبل ولی شاہ
حاصلات ِ تعلم: ۱۔ پیشہ ورانہ تحریروں
اور عبارتوں کو ان کے مفہوم کے حوالے سے پڑھ سکے۔
تدریسی مقاصد: اس سبق
کو پڑھنے کے بعد طلبا اس قابل ہوں گے کہ وہ:
۱۔دئیے گئے اقتباس کے تصورات کی تفہیم حاصل کر کے
اپنے الفاظ میں بیان کریں گے۔
۲۔ اقتباس سے متعلق پوچھے گئےکثیر الانتخابی سوالات
کے درست جوابات کی نشاندہی کریں گے۔
تدریسی معاونات: کاپیاں،
قلم، تفہیمی خواندگی کے اقتباس، تفہیمی
سوالات کی فہرست، اُردو لُغت،
سرگرمی نمبر |
مجوزہ تدریسی سرگرمیاں |
درکا ر وقت |
1 |
٭ عزیز طلبا آپ کو دو
اقتباسات دئیے جا رہے ہیں۔ آپ پہلے اقتباس نمبر 1 کو وقت مقررہ کا خاص
خیال رکھتے ہوئے دو بار غور سے پڑھیں اور اچھی طرح تفہیم حاصل کریں اور پھر
اقتباس کے آخر میں پوچھے گئے کثیر الانتخابی سوالات (MCQ) کے چار ممکنہ جوابات
میں سے درست جوابات کا انتخاب کریں۔
درست جوابات کے انتخاب کے بعد گھر کے کسی پڑھے لکھے فرد سے اصلاح لیں یا Footer میں دئیے گئے نمبرز پر
رابطہ کر کے کمک دہی حاصل کریں۔ |
۲۰ منٹ |
2 |
٭عزیز طلبا اب آپ اقتباس
نمبر 2 کو بھی وقت مقررہ کا خاص خیال رکھتے ہوئے دو بار غور سے پڑھیں اور اچھی طرح تفہیم حاصل کریں
اور پھر اقتباس کے آخر میں پوچھے گئے کثیر الانتخابی سوالات (MCQ) کے چار ممکنہ جوابات
میں سے درست جوابات کا انتخاب کریں۔
درست جوابات کے انتخاب کے بعد گھر کے کسی پڑھے لکھے فرد سے اصلاح لیں
یا Footer میں دئیے گئے نمبرز پر
رابطہ کر کے کمک دہی حاصل کریں۔ |
۲۰منٹ |
3 |
٭ جائزہ: عزیزطلبا اپنی آموزش (
تعلمLearning) کا جائزہ لینے کے لیے مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات کی دہرائی
کریں: ۱۔ زہریلی باتوں سے مصنف کیا مراد لیتے
ہیں؟
۲۔ مکرو فریب انسانی طبیعت
پر غالب آنے سے کیا نتیجہ نکلتا ہے؟ ۳ ۔ خوشامد کے مریض کی اولین پہچان کیا
ہے؟
۴۔ والدین کا اولین فرض اور خواہش کیا ہے؟ ۵۔ عبارت میں بے
اولاد گھر کو کس چیز سے تشبیہ دی گئی ہے؟ |
۵ منٹ |
(براہ کرم صفحہ اُلٹیے)
تدریسی مواد کی تفصیلات
تفہیم عبارات خوانی:
پہلا اقتباس: (اس
حصے کو مکمل کرنے کے لیے آپ کے پاس 20 منٹ کا وقت ہے)
دل کی جس قدر
بیماریاں ہیں ، اُن میں سب سے زیادہ مہلک خوشامد کا اچھا لگنا ہے۔ جس وقت انسان کے
بدن میں ایسا مادہ پیدا ہو جاتا ہے جو وبائی ہوا کے اثر کو جلد قبول کر لیتا ہےتو
اُس وقت انسان مرض ِ مہلک میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ اسی طرح جب کہ خوشامد کے اچھا
لگنے کی بیماری انسان کو لگ جاتی ہے تو اُس کے دل میں ایک ایسا مادہ پیدا ہو جاتا
ہے جو ہمیشہ زہریلی باتوں کے زہر کو چوس لینے کی خواہش رکھتا ہے۔ جس طرح کہ خوش
گلو گانے والے کا راگ اور خوش آئند باجے کی آواز انسان کے دل کو نرم کر دیتی ہے
اسی طرح خوشامد بھی انسانی دل کو ایسا پگھلا دیتی ہے کہ ہر ایک کانٹے کے چبھنے کی
جگہ اُس میں ہو جاتی ہے۔
اوًل یہ ہوتا ہے کہ ہم اپنی آپ خوشامد کرتے ہیں اور اپنی ہر
ایک چیز کو اچھا سمجھتے ہیں اور آپ ہی اپنی خوشامد کر کے اپنے دل کو خوش کرتے ہیں۔
پھر رفتہ رفتہ اوروں کی خوشامد ہم میں اثر کرنے لگتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے
کہ اوًل تو خود ہم کو اپنی محبت پیدا ہوتی ہےپھر یہی محبت ہم سے باغی ہو جاتی ہے۔
اور ہمارے بیرونی دشمنوں سے جا ملتی ہے اور جو محبت اور مہربانی ہم خود اپنے ساتھ
کرتے تھے وہ خوشامدیوں کے ساتھ کرنے لگتے ہیں اور وہی ہماری محبت کو یہ بتلاتی ہے
کہ اُن خوشامدیوں پر مہر بانی کرنا نہایت حق اور انصاف ہے جو ہماری باتوں کو ایسا
سمجھتے ہیں اور اُن کی اس قدر قدر کرتے ہیں۔ جب کہ ہمارا دل نرم ہو جاتا ہے اور اس
قسم کے پھسلاوے اور فریب میں آجاتا ہے اور مکرو فریب ہماری بیمار طبیعت پر با لکل
غالب آجاتا ہے۔ لیکن اگر ہر شخص کو یہ بات معلوم ہو جاوے کہ خوشامد کا شوق کیسے
نالائق سینوں سے پیدا ہاجاتا ہے تو یقیناً خوشامد کی خواہش کرنے والا شخص بھی ایسا
ہی نالائق متصوّر ہونے لگے گا۔ جب کہ ہم کو کسی ایسے وصف کا شوق پیدا ہوتا ہےجو ہم
میں نہیں ہےیا ہم ایسے بننا چاہتے ہیں جیسے کہ در حقیقت ہم نہیں ہیں تب ہم اپنے
تئیں خوشامدیوں کے حوالے کرتے ہیں جو اوروں کے اوصاف اور اوروں کی خوبیاں ہم میں لگاتے ہیں۔ گو بہ
سبب اس شوق کے اس خوشامدی کی باتیں ہم کو اچھی لگتی ہوں مگر در حقیقت وہ ہم کو
ایسی بد زیب ہیں جیسے کہ دوسروں کے کپڑے جو ہمارے بدن پر کسی طرح ٹھیک نہیں۔ اس
بات سے کہ ہم اپنی حقیقت کو چھوڑ کر دوسرے کے اوصاف اپنے میں سمجھنے لگیں ، یہ بات
نہایت عمدہ ہے کہ ہم خود اپنی حقیقت کو درست کریں اور سچ مچ وہ اوصاف اپنے میں
پیدا کریں۔ جو بجائے جھوٹی نقل بننے کے خود ایک اچھی اصل ہو جاویں، کیونکہ ہر قسم
کی طبیعتیں جو انسان رکھتے ہیں ، اپنے اپنے موقعے پر درست ہو سکتی ہیں۔ ایک تیز
مزاج اور چست چالاک آدمی اپنے موقعے پر ایسا ہی مفید ہو تا ہے جیسے کہ روحانی صورت
کا چُپ چاپ آدمی اپنے موقعے پر۔
پہلے اقتباس سے متعلق
سوالات:
1۔ خوشامد کا تعلق کس انسانی عضو سے بتایا
گیا ہے؟ 2۔ وبائی امراض کے قبول کرنے کا سبب کیا ہے؟
A۔ آنکھ سے A۔ بدن میں پیدا شدہ مادہ
B۔ ذہن
سے B۔ جراثیم کا بڑی تعداد میں پیدا ہونا
C۔ قلب
سے C۔ مہلک امراض کا حملہ
D۔ گلے
سے D۔ جسم میں مخصوص مادہ پیدا ہونا
(براہ کرم صفحہ
اُلٹیے)
3۔ زہریلی باتوں سے مصنف کی کیا مراد ہے؟ 4۔ خوشامد کے مرض کی اوّلین پہچان کیا ہے؟
A۔ خوش آئند گفتگو A۔ دوسروں کی تعریف پر خوش ہونا
B۔ مستقبل کی منصوبہ بندی B۔ اپنی ہر ایک چیز کو اچھا سمجھنا
C۔ مکرو فریب C۔ دوسرے کی کہے پر عمل کرنا
D۔ دشمن سے بولی جانے والی زبان D۔ دوسرے کا ہر فعل بہتر سمجھنا
5۔ مکرو فریب انسان کی طبیعت پر کب غالب آتا
ہے؟ 6۔ عبارت میں خوشا مد کے اثر کو کس چیز سے
تشبیہ دی گئی ہے؟
A۔ جب انسان مست ملنگ ہو جاتا ہے A۔ زہریلی باتوں
B۔ جب انسان اپنی خوشامد آپ کرنے لگتا ہے B۔ بیمار طبیعت
C۔ جب انسان خوشامد کرنے کا فن جان جاتا
ہے C۔ خوش گلو گانے
D۔ جب انسان خوشامد کے جال میں پھنس جاتا
ہے D۔ مرض ِ مہلک
7۔ عبارت کے مطابق انسان مرض ِ مہلک میں
مبتلا ہو جاتا ہے، جب: 8۔ خوشامد کے نتیجے میں جب انسان کا دل نرم
ہو تا ہے تو:
A۔ غذا کی صفائی کا خیال نہ رکھے A۔ انسانی خدمت کی طرف مائل ہوتا ہے
B۔ ضرورت سے زیادہ غذا کھا لے B۔ ہر ایک پر رحم کھانے لگتا ہے
C۔ بدن میں پیدا شُدہ مادہ وبائی ہوا کے
اثر قبول کرے C۔ مکرو فریب بیمار طبیعت پر غالب آتا ہے
D۔ مضر صحت غذا کھا جائے D۔ زندگی کی حقیقت جاننے لگتا ہے
(براہ کرم صفحہ
اُلٹیے)
دوسرا اقتباس : (اس حصے کو مکمل کرنے کے لیے آپ کے پاس 20 منٹ کا وقت ہے)
بچے گھر کی رونق اور
آنگن میں مہکتے پھولوں کی مانند ہوتے ہیں، جس گھر کے آنگن میں یہ پھول نہیں کھلتے
وہ گھر ایسے باغ کی مثل ہے جس میں کبھی بہارنہ آئی ہو۔بچوں کے بغیرگھربے رونق اور
خوشیوں سے خالی رہتاہے۔اولاد اللہ سبحان تعالیٰ کی بے شمار نعمتوں میں ایسی
خوبصورت نعمت ہے جس کیلئے اللہ تعالیٰ نے والدین کے دلوں میں بے لوث محبت کے خزانے
رکھ دیئے ہیں۔کائنات کی تمام نعمتیں ایک طرف اور اولاد ایک طرف۔ انسانی فطرت ہے کہ
بچوں کے بغیردیگرتمام نعمتیں بے معنی لگنے لگتی ہیں۔جب اللہ رب العزت اولاد کی
نعمت عطافرمادیتاہے توپھرپرورش اورتعلیم وتربیت کی ذمہ داری نبھاتے انسان کی زندگی
گزرجاتی ہے۔ بچہ جب اس دنیا میں آنکھیں کھولتاہے تو بالکل معصوم اورکورے کاغذ کی
مانندہوتا ہے جس پر والدین اوراساتذہ کی تعلیم وتربیت کے بعد معاشرہ تحریریں رقم
کرتاہے۔ جہاں بچے کی پہلی درس گاہ ماں کی گود ہوتی ہے وہیں بچہ اپنے باپ کی شخصیت
سے بھی بہت کچھ سیکھتا ہے۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ’’ ایک باپ
اپنی اولاد کو جو کچھ دیتا ہے اس میں سب سے بہتر اس کی تعلیم وتربیت ہے۔بچے اخلاقی
و معاشرتی قدریں نہ صرف اپنے خاندان بلکہ اپنے اطراف سے بھی سیکھتے ہیں۔ اولاد کی
صحیح تربیت والدین کا اوّلین فرض اورخواہش ہوتی ہے۔ اولاد کی نیک تربیت کے بے شمار
فوائد ہیں۔باشعور،تعلیم یافتہ اولاد والدین کی نیک نامی اور ملک وقوم کی ترقی
اورخوشحالی کا سبب بنتی ہے۔والدین کے بڑھاپے کا سہارا اوران کے مرنے کے بعد ان کے
لیے صدقہ جاریہ بن جاتی ہے۔ یہ شائد دنیاکی سب سے بڑی حقیقت ہے کہ بچے والدین سے
وقت مانگتے ہیں جو والدین کے لیے دینا آج کے جدید دور میں مشکل ترین کام ہے ،خاص
کر والد کے لیے ہمارے ہاں مرد حضرات کام کے سلسلہ میں صبح سویرے ہی گھر سے نکل
جاتے ہیں اور رات کو دیر سے گھرلوٹتے ہیں ،والد کی کئی کئی دن بچوں کے ساتھ جاگتے
میں ملاقات ہی نہیں ہوپاتی صبح سویرے بچے سورہے ہوتے ہیں اور رات واپسی پر بھی
سوچکے ہوتے ہیں ۔فکر روزگار نے ہمیں اپنے بچوں سے اس قدر دور کردیا ہے کہ ہم ان کی
پرورش کے لیے انہیں اتنا وقت نہیں دے پاتے جتنی کہ ان کو ضرورت ہوتی ہے۔
دوسرے اقتباس سے
متعلق سوالات:
9۔ “بچے گھر کی رونق اور آنگن
میں مہکتے پھولوں کی مانند ہوتے ہیں"۔ درج بالا
جملے میں علم بیان کی کون سی صنعت کا استعمال ہے؟ 10۔ عبارت میں "بے اولاد گھر" کو کس چیز سے تشبیہ دی گئی ہے؟
A۔ تشبیہ A۔ دولت
B۔ استعارہ B۔
عزت
C ۔ مجاز مرسل C۔ ویران باغ
D ۔ کنایہ D ۔ پُر بہار باغ
11۔ بچوں کے بغیر دیگر تمام نعمتیں
لگتی ہیں: 12۔ اللہ تعالیٰ نے والدین کے دلوں میں اولاد کے
لیے رکھ دئیے ہیں:
A۔
با معنی A۔ عداوت کے خزانے
B- بے معنی B۔ ہدایت کے خزانے
C ۔ پُر لطف C ۔ نفرت کے خزانے
D ۔ پُر تکلف D ۔ محبت کے خزانے (براہ کرم صفحہ
اُلٹیے)
13۔ عبارت کی روشنی میں والدین کا اولین فرض اور
خواہش ہے: 14۔ " وہ گھر ایسے باغ
کی مثل ہے جس میں کبھی بہارنہ آئی ہو۔"
A۔ اولاد کی نوکری در
ج بالا جملے میں خط کشیدہ لفظ قواعد کی رو سے کہلاتا ہے:
B۔ اولاد کا آرام و سکون A۔ حرف جار
C ۔
اولاد کی صحیح تربیت B۔ حرف عطف
D ۔ اولاد کی نیک نامی C۔ حرف تاکید
15۔ "بچے کی پہلی درس گاہ ماں کی گود ہوتی ہے۔" D۔ حرف تشبیہ درج بالا جملے
میں خط کشیدہ لفظ اسم کی کونسی قسم سے تعلق رکھتا ہے؟
A۔ اسم معرفہ
B۔ اسم موصول
C۔ اسم آلہ
D۔ اسم ظرف
16۔ والد کی کئی کئی دن بچوں کے ساتھ جاگتے میں
ملاقات ہی نہیں ہوپاتی، کیونکہ:
A۔ بچے دن رات سوتے رہتے ہیں
B۔ والد دن رات سوتا رہتا ہے
C۔ فکر ِ روزگار ملنے نہیں دیتی
D۔ بچے والد کے سامنے نہیں آتے ہیں
( ختم شُد)
آغا خان
ایجوکیشن سروس پاکستان
سبقی منصوبہ
بندی برائے فاصلاتی تدریس
تاریخ: ۲۱اپریل ۲۰۲۰ ء مضمون: اُردو جماعت :قبل از نہم(Pre-9)
عنوان: تفہیمی عبارت خوانی (۱۲) درکار کُل وقت: ۴۵ منٹ معلم:
بلبل ولی شاہ
حاصلات ِ تعلم: ۱۔ پیشہ ورانہ تحریروں
اور عبارتوں کو ان کے مفہوم کے حوالے سے پڑھ سکے۔
تدریسی مقاصد: اس سبق
کو پڑھنے کے بعد طلبا اس قابل ہوں گے کہ وہ:
۱۔دئیے گئے اقتباس کے تصورات کی تفہیم حاصل کر کے
اپنے الفاظ میں بیان کریں گے۔
۲۔ اقتباس سے متعلق پوچھے گئےکثیر الانتخابی سوالات
کے درست جوابات کی نشاندہی کریں گے۔
تدریسی معاونات: کاپیاں،
قلم، تفہیمی خواندگی کے اقتباس، تفہیمی
سوالات کی فہرست، اُردو لُغت،
سرگرمی نمبر |
مجوزہ تدریسی سرگرمیاں |
درکا ر وقت |
1 |
٭ عزیز طلبا آپ کو دو
اقتباسات دئیے جا رہے ہیں۔ آپ پہلے اقتباس نمبر 1 کو وقت مقررہ کا خاص
خیال رکھتے ہوئے دو بار غور سے پڑھیں اور اچھی طرح تفہیم حاصل کریں اور پھر
اقتباس کے آخر میں پوچھے گئے کثیر الانتخابی سوالات (MCQ) کے چار ممکنہ جوابات
میں سے درست جوابات کا انتخاب کریں۔
درست جوابات کے انتخاب کے بعد گھر کے کسی پڑھے لکھے فرد سے اصلاح لیں یا Footer میں دئیے گئے نمبرز پر
رابطہ کر کے کمک دہی حاصل کریں۔ |
۲۰ منٹ |
2 |
٭عزیز طلبا اب آپ اقتباس
نمبر 2 کو بھی وقت مقررہ کا خاص خیال رکھتے ہوئے دو بار غور سے پڑھیں اور اچھی طرح تفہیم حاصل کریں
اور پھر اقتباس کے آخر میں پوچھے گئے کثیر الانتخابی سوالات (MCQ) کے چار ممکنہ جوابات
میں سے درست جوابات کا انتخاب کریں۔
درست جوابات کے انتخاب کے بعد گھر کے کسی پڑھے لکھے فرد سے اصلاح لیں
یا Footer میں دئیے گئے نمبرز پر
رابطہ کر کے کمک دہی حاصل کریں۔ |
۲۰منٹ |
3 |
٭ جائزہ: عزیزطلبا اپنی آموزش (
تعلمLearning) کا جائزہ لینے کے لیے مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات کی دہرائی
کریں: ۱۔ مصنف
کو دیکھ کر گھر میں موجود بچے کیوں دبک گئے؟
۲۔ میزبان کے بچے کس چیز سے محروم تھے؟ ۳ ۔ مصنف
نے میزبان کے بچوں کو کن چیزوں سے تشبیہ دی ہے؟
۴۔ مکتوب نگار نے مکتوب الیہ کو
کیا نصیحت کی ہے؟ ۵۔ خط کا خلاصہ بیان کریں۔ |
۵ منٹ |
(براہ کرم صفحہ اُلٹیے)
تدریسی مواد کی تفصیلات
تفہیم عبارات خوانی:
پہلا اقتباس: (حصے
کو مکمل کرنے کے لیے آپ کے پاس 20 منٹ کا وقت ہے)
میں
نے عظیم عمارتوں کی طرف دیکھتے ہوئے میزبان سے پوچھا: " آپ کہاں رہتے ہیں؟"
"یہیں،
مین ہٹن میں۔۔۔۔۔ وہ دیکھو دائیں جانب ایک سو دس منزلہ عمارت، اُس کے ساتھ ۹۷
منزلہ بلڈنگ ، اُن دونوں کے درمیان میں اُس ۸۴ منزلہ عمارت کی ۵۶ ویں منزل پر رہتا
ہوں، ادھر سے دیکھو تو دائیں ہاتھ سے ۳۸ ویں کھڑکی میرے فلیٹ کی ہے جو یہاں سے صاف نظر آ رہی
ہے۔"
ہم
چند منٹوں میں فلیٹ والی عمارت کے قدموں میں پہنچ گئے۔ میزبان نے ۵۶ ویں منزل پر
پہنچ کر جیب سے چابی نکالی اور فلیٹ نمبر ۱۱۳۶ کا دروازہ کھول دیا۔
میں
اندر پہنچا تو وہاں دنیا کی ہر نعمت بند تھی۔۔۔۔اشیائے خورد و نوش ، اعلیٰ فرنیچر،
تازہ پھل، حسین بیوی اور دو پھولوں سے ننھے بچے۔ بیگم نے روایتی مسکراہٹ اور
بنارسی ساڑھی سمیت آداب کہا، لیکن بچے ایک اجنبی چہرہ دیکھ کر دبک گئے۔ اُن کی
عمریں پانچ اور سات سال کے لگ بھگ ہوں گی۔
وہ منی پلانٹ کی طرح ہر وقت اندر ہی رہتے تھے، اُن کے چہرے صاف بتا رہے تھے
کہ وہ سورج کی دھوپ، چاند کی چاندنی ، دادی کی گود اور نانی کی کہانیوں سے محروم
ہیں۔ والدین نے اُنھیں انگریزی میں ہدایت دی کہ ٹی وی کے چینل ٹو پر چلڈرن پروگرام
دیکھو، ریموٹ کنٹرول والی گاڑی اور جہاز سے کھیلو، جگ سا پزل ( Jigsaw Puzzle ) بناؤ اور اگر بور ہونے لگو تو اسٹوری بُکس پڑھتے رہو۔
مجھے
اپنا بچپن یاد آگیا، جس میں شہتوت کا درخت تھا، بیری کا بور تھا، چڑیوں اور چوزوں
کی چہچہاہٹ تھی، نواڑ کا پلنگ تھا، کورے گھڑے کا ٹھنڈا پانی تھا، منی پلانٹ کی جگہ
جنگلی بیلیں تھیں جو دیکھتے دیکھتے منڈیر
تک پہنچ جاتی تھیں، اُن میں فاختائیں گھونسلے بناتی تھیں اور ہم اُن کے انڈے چوری
کرتے تھے۔ چچا چچی تھے، تایا تائی تھے، تائی تقریباً ہر روز دوپہر کے وقت ایک روٹی
خاص طور پر دیر تک تنور میں رہنے دیتی تھیں جو وہیں پک کر سرخ اور خستہ ہو جاتی
تھی۔ ہم اس گرم گرم روٹی کے ٹکڑے لے کر مزے سے چباتے تھے اور خوش ہوتے تھے۔ اور
کسی شرارت پر پٹائی ہونے لگتی تو لمبی گلیوں اور کھُلے کھیتوں میں بھاگ جاتے تھے، ہمیں کھلونے دے کرکوئی قید نہیں کرتا
تھا۔
( صدیق سالک کی کتاب
" تا دم ِ تحریر" سے ایک اقتباس )
پہلے اقتباس سے متعلق سوالات:
1۔ مصنف نے اپنے میزبان سے کیا دریافت کیا؟ 2۔ مصنف
کا میزبان عمارت کی کون سی منزل پر رہتا تھا؟
A۔ بچوں کی عمریں A۔ ۱۱۰ ویں منزل
B۔ بیگم کی صحت B۔ ۹۷ ویں منزل
C۔ فلیٹ کا پتا C۔ ۸۴ ویں منزل
D۔ افراد خانہ کی تعداد D۔ ۵۶ ویں منزل
(براہ کرم صفحہ
اُلٹیے)
3۔ مصنف کو دیکھ کر گھر میں موجود بچے کیوں دبک گئے؟ 4۔ میزبان کے گھر کا ماحول دیکھ کر مصنف کو:
A۔ مصنف
سے شرما کر A۔ اپنا گھر یا د آیا
B۔ مصنف کو اجنبی سمجھ کے B۔ میزبان پر رشک آیا
C۔ مصنف کا عجیب حلیہ دیکھ کر C۔ اپنےبچپن کا زمانہ یاد آیا
D۔ مصنف کے ڈرانے پر D۔ اپنے بیوی بچے ستانے لگے
5۔ شہری زندگی کے مقابلے میں گاؤں کی زندگی میں زیادہ ہوتی ہے/ہیں: 6۔ میزبان
کے بچے کس چیز سے محروم نہیں تھے؟
A۔ آسائشیں A۔ سورج کی دھوپ
B۔ آزادی B۔ نانی کی کہانیوں
C۔ آبادی C۔ کھلی فضا
D۔ عمارتیں D۔ کھیلوں کے سامان
7۔ درج بالا اقتباس کا ادب کی کس صنف سے تعلق ہے؟ 8۔ مصنف نے میزبان کے بچوں کو کن چیزوں سے
تشبیہ دی ہے؟
A۔ ڈراما
نگاری A۔ دھوپ اور چاندنی
B۔ انشائیہ نگاری B۔ منی پلانٹ
C۔ سوانح نگاری C۔ پھول
D۔ سفر نامہ نگاری D۔ پھول اور منی پلانٹ
(براہ کرم صفحہ
اُلٹیے)
دوسرا اقتباس : (حصے کو مکمل کرنے کے لیے آپ کے پاس 20 منٹ کا وقت ہے)
میں
تم کو بنگلور سے چلتے چلتے خط لکھ رہا ہوں ، اس لیے کہ تم نے انٹرنس کلاس میں ترقی
کی، مجھ کو نہایت خوشی ہوئی ہے۔ بشیر! نوکری اور رزق تو مقدر ہے مگر لیاقت عجب چیز
ہے۔ ساری عمر آدمی کو مسرت دینے والی چیز۔ عسر اور یسر دونوں میں لیاقت ہے۔ میرا
اعتداد لائقوں میں نہیں اور مجھ کو زمانے نے لیاقت حاصل کرنے کی مہلت نہیں دی اور
جو وقت کسبِ کمال کا تھا وہ اسی بےسرو
سامانی اور مصیبت میں گزرا کہ اتنا لکھ پڑھ لینا بھی تعجب معلوم ہوتا ہے۔ مگر اس اضطراری میں جو دو چار حرف پڑھ لیے تھے،
میں نہیں کہتا کہ نوکری اُن کی وجہ سے ہے، کیونکہ مجھ سے زیادہ لائق جوتیاں چٹخاتے
پھرتے ہیں اور نان شبینہ کو محتاج ہیں۔ اور نہ میں ان کا معتقد ہوں کہ غدر میں
مسٹرلیسن کی حفاظت بہ وسائط میری نوکری کا سبب
ہوئی، اس لیے کہ خود لیسن کی حقیقت معلوم ہے۔ مگر اتنا ضرور میں کہوں گا کہ
اب تک جہاں گیا اور جس جگہ رہا ، کسی سے میری آنکھ نیچی نہیں ہوئی اور مجھ کو اس
بات کے جاننے سے ضرور خوشی ہوئی کہ لوگ مجھ کو نالائق نہیں جانتے۔
اگر تمھاری طرح مجھ کو ایک امیر باپ ملا ہوتا اور تمھاری
طرح آسودگی اور عافیت مجھ کو حاصل رہی
ہوتی ، جب کہ میری عمر حاصل کرنے کی تھی تو بشیر! یقین جانو کہ آج میں یکتائے
روزگار ہوتا کیوں کہ شکر ہے کہ میرے سر میں اچھا بھیجا رکھا گیا ہے۔ لیکن مرد ِ
خدا ! جو مجھ سے نہیں ہو سکا ، تم کرو
ع اگر پدر نہ تواند پسر تمام کند
رہی نوکری ، تھوڑی بہت جو تقدیر میں ہے، سو تو کرو ہی گے
مگر اقتضائے ہمت یہ کہ آدمی اقران و امثال میں ممتاز ہو۔ جدھر نکل جائے اُنگلیاں
اُٹھیں کہ وہ چلے، جس مجمع میں بیٹھے صدر ِ انجمن ہو۔ بی اور اے دو حرف عجیب مقبول
حرف ہیں کہ جس کو مل جاتے ہیں ساری عمر سرمایۂ فخر ہوتے ہیں۔ خیر وہ مرحلہ تو آگے
ہےمگر انٹرنس کا پاس کر لینا تو کچھ بڑی بات نہیں۔ ادنیٰ ادنیٰ کوڑھ مغز انٹرنس
پاس کر لیتے ہیں۔ ابھی سے غور کرو کہ کس چیز میں خامی ہے اور ابھی سے اُسی چیز پر
توجہ کرو۔ عجب کیا ہے کہ وہ خامی پختگی سے مبدل نہ ہو جائے، محنت شرط ہے۔ مسلسل
اور متصل محنت میں عجب برکت ہے۔ ابھی سے وہ تیاری کرو جو غافل اور کاہل لڑکے
امتحان کے قریب کرتے ہیں۔ میں شکر کرتا ہوں کہ تم اچھے بیٹے ہو لیکن نام و نمود
حاصل کرکے مجھ کو چند روز کے لیے خوش ہو لینے دو اور نام و نمود کے جو فائدے مترتب
ہوں گے ، وہ تمھارے ذاتی ہیں۔ اُن کا میں متمنی نہیں۔
نذیر احمد
۲۴ مئی ۱۸۷۸ ء بنگلور
دوسرے اقتباس سے متعلق سوالات:
9۔ مصنف نے کس چیز کو قابل فخر سرمایہ قرار دیا ہے؟ 10۔ مصنف کے نزدیک لیاقت:
A۔ نوکری A۔ قسمت سے ملتی ہے
B۔ رزق B۔ ہر ایک کو حاصل ہے
C۔ لیاقت C۔ اکتسابی شے ہے
D۔ کامیابی D۔ کو ڑھ مغز بھی حاصل کرتے ہیں
(براہ کرم صفحہ
اُلٹیے)
11۔ مصنف کو اپنی زندگی کے حوالے سے کس بات کا قلق ہے؟ 12۔ مصنف کس چیز کے متمنی نہیں ؟
A۔ نا
لائقوں میں شمار ہونے کا A۔ مال و دولت کے
B۔ اچھی نوکری نہ ملنے کا B۔ اچھی نوکری کے
C۔ گھریلو تنگ دستی کا C۔ صالح اولاد کے
D۔ شہرت نہ پانے کا D۔ نام و نمود کے
13۔ مکتوب نگار کے مقابلے میں مکتوب الیہ کو حاصل ہیں: 14۔ مکتوب نگار نے مکتوب الیہ کو کیا نصیحت کی
ہے؟
A۔ آسودگی
اور عافیت A۔ اچھے نمبروں سے انٹرنس پاس کرنے کی
B۔ بے سرو سامانی اور مصیبت B۔
اچھی نوکری حاصل کرنے کی
C۔ نوکری اور رزق C۔ اپنی خامیوں کو دور کرنے کی
D۔ عُسر اور یُسر D۔ نالائقوں سے دور رہنے کی
15۔ درج بالا خط ، مکتوب نگاری کی کون سی قسم سے تعلق رکھتا ہے؟ 16۔ مکتوب نگار رشتے میں
مکتوب الیہ کے لگتے ہیں:
A۔ رسمی
خط A۔ باپ
B۔ غیر رسمی خط B۔ بیٹا
C۔ سرکاری خط C۔ استاد
D۔ کاروباری خط D۔ شاگرد
17۔ مکتوب نگار نے اپنی کس شے پر فخر اور شکر کا اظہار کیا ہے؟
A۔ مال و دولت
B۔ اچھی نوکری
C۔ اچھی ذہنیت
D۔ معاشرتی مقام
( ختم شُد)
آغا خان
ایجوکیشن سروس پاکستان
سبقی منصوبہ
بندی برائے فاصلاتی تدریس
تاریخ: ۲۲اپریل ۲۰۲۰ ء مضمون: اُردو جماعت :قبل از نہم(Pre-9)
عنوان: تفہیمی عبارت خوانی (۱۳) درکار کُل وقت: ۴۵ منٹ معلم:
بلبل ولی شاہ
حاصلات ِ تعلم: ۱۔ پیشہ ورانہ تحریروں
اور عبارتوں کو ان کے مفہوم کے حوالے سے پڑھ سکے۔
تدریسی مقاصد: اس سبق
کو پڑھنے کے بعد طلبا اس قابل ہوں گے کہ وہ:
۱۔دئیے گئے اقتباس کے تصورات کی تفہیم حاصل کر کے
اپنے الفاظ میں بیان کریں گے۔
۲۔ اقتباس سے متعلق پوچھے گئےکثیر الانتخابی سوالات
کے درست جوابات کی نشاندہی کریں گے۔
تدریسی معاونات: کاپیاں،
قلم، تفہیمی خواندگی کے اقتباس، تفہیمی
سوالات کی فہرست، اُردو لُغت،
سرگرمی نمبر |
مجوزہ تدریسی سرگرمیاں |
درکا ر وقت |
1 |
٭ عزیز طلبا آپ کو دو
اقتباسات دئیے جا رہے ہیں۔ آپ پہلے اقتباس نمبر 1 کو وقت مقررہ کا خاص
خیال رکھتے ہوئے دو بار غور سے پڑھیں اور اچھی طرح تفہیم حاصل کریں اور پھر
اقتباس کے آخر میں پوچھے گئے کثیر الانتخابی سوالات (MCQ) کے چار ممکنہ جوابات
میں سے درست جوابات کا انتخاب کریں۔
درست جوابات کے انتخاب کے بعد گھر کے کسی پڑھے لکھے فرد سے اصلاح لیں یا Footer میں دئیے گئے نمبرز پر
رابطہ کر کے کمک دہی حاصل کریں۔ |
۲۰ منٹ |
2 |
٭عزیز طلبا اب آپ اقتباس
نمبر 2 کو بھی وقت مقررہ کا خاص خیال رکھتے ہوئے دو بار غور سے پڑھیں اور اچھی طرح تفہیم حاصل کریں
اور پھر اقتباس کے آخر میں پوچھے گئے کثیر الانتخابی سوالات (MCQ) کے چار ممکنہ جوابات
میں سے درست جوابات کا انتخاب کریں۔
درست جوابات کے انتخاب کے بعد گھر کے کسی پڑھے لکھے فرد سے اصلاح لیں
یا Footer میں دئیے گئے نمبرز پر
رابطہ کر کے کمک دہی حاصل کریں۔ |
۲۰منٹ |
3 |
٭ جائزہ: عزیزطلبا اپنی آموزش (
تعلمLearning) کا جائزہ لینے کے لیے مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات کی دہرائی
کریں: ۱۔ زمین کے موسم پر چاند کس طرح اثر انداز ہوتا ہے؟
۲۔ چاند پر موسم تبدیل کیوں نہیں ہوتا ؟ ۳ ۔
مرزا غالبؔ کس آفت میں گرفتار تھے؟
۴۔ غالبؔ نے حفظِ صحت کے لیے مسہل کیوں لیا تھا؟ ۵۔ چاند کی سطح پر موجود نشانات کے بارے میں زمانۂ قدیم
سے کون سی بات مشہور ہے؟ |
۵ منٹ |
(براہ کرم صفحہ اُلٹیے)
تدریسی مواد کی تفصیلات
تفہیم عبارات خوانی: پہلا اقتباس: (حصے کو مکمل کرنے کے
لیے آپ کے پاس 20 منٹ کا وقت ہے)
شروع شروع میں جب لوگ چاند کی طرف دیکھتے تو اس کے اندر بنے
ہوئے آدمی کی تصویر سمندر کی موجودگی کا
احساس دلاتی تھی مگر اب تو سب کا اس بات پر اتفاق ہے کہ چاند کی مٹی پاؤڈر کی طرح
بھر بھری اور سفید ہے اور اس کے پورے وجود پر شہاب ثاقب گرنے سے اتنے زیادہ نشانات
پڑ چکے ہیں کہ چاند کی سطح پوری طرح زخمی اور قابل ِ رحم ہے۔ اگر ایک طرف پہاڑی
چوٹیوں پر ہوا کے چلنے سے زمین کو اپنے خط و خال تراشنے میں مدد دی ہے تو دوسری
طرف پانی نے جم کر برف کی شکل اختیار کرتے ہوئے پتھروں میں دراڑیں ڈال دیں اور سطح
زمین کو توڑ پھوڑ کے رکھ دیا ہےلیکن چاند پر اس قسم کا کوئی عمل کار فرما نہیں ہوا
ہے۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ چاند کے ارد گرد نہ تو کوئی موسم ہے نہ گیسوں کا مرکب اور
نہ فضا، جس کی مدد سے وہ اپنے جسم کی بناوٹ میں تغیر و تبدل کار فرما کروا سکے۔
دراصل بہت کم کششِ ثقل کی وجہ سے چاند پر ہوا نہیں ٹھہر سکی اور اسی طرح آج چاند
کی سطح کسی موسم کی موجودگی کے بغیر ہے۔
چاند کی سطح پر بڑے بڑے دہانے بنے ہوئے ہیں جیسے کسی آتش
فشاں پہاڑ کے ہوتے ہیں۔ ایسی ایسی چوٹیاں بھی ہیں جو کوہ ہمالیہ سے بڑی ہیں۔ ۱۹۰۸ء
میں سائیبریا کے علاقے میں کئی سو فٹ کا ایک شہاب ثاقب گرا تھا۔ جب شہاب ثاقب
بلندیوں سے زمین کا رُخ کرتے ہیں تو زمین کی سطح تک کا فاصلہ طے کرکے ہوائی ماحول
کو چیرتے ہوئے گزرتے ہیں ، ان کی رگڑ سے شہاب ثاقب ریزہ ریزہ ہو جاتے ہیں ، یہ
گویا قدرت کا انسان پر احسان ہے۔امریکا اور آسٹریلیا کے سائنسدانوں نے علاحدہ
علاحدہ اس بات کا انکشاف کیا ہے کہ جوں جوں چاند " نیا، پُرانا اور پورا چاند
" بنتا ہے توں توں زمیں پر موسم میں بارش میں کمی بیشی کے امکانات بڑھتے
گھٹتے رہتے ہیں۔
پہلے اقتباس سے متعلق سوالات:
1۔ چاند کی سطح زمین جیسی نہیں بن سکتی،
چونکہ: 2۔ چاند پر موسم تبدیل کیوں نہیں ہوتا ؟
A۔ چاند
کی مٹی بھر بھری ہے A۔ کم کشش ثقل اور ہوا کی عدم موجودگی کے
باعث
B ۔ چاند
پر کشش ثقل بہت کم ہے B۔ بڑے بڑے سمندروں کے باعث
C۔ چاند
پر خط و خال تراشنے والے عناصر موجود نہیں C۔ بڑے بڑے آتش فشاں پہاڑی میدانوں کے
باعث
D۔ چاند
پر ہوا نہیں ٹھہر سکتی D۔ شہاب ثاقب کے گرنے کے باعث
3۔ اللہ تعالیٰ نے زمیں کو شہاب ثاقب سے
بچانے کا کیا انتظام کر رکھا ہے؟ 4۔ زمین کے موسم پر چاند کس طرح اثر انداز
ہوتا ہے؟
A۔ زمین
پر شہاب ثاقب گرتے ہی نہیں ہیں A۔ چاند سے شہاب ثاقب زمیں پر گرتے ہیں
B۔ ہوائی
ماحول کے رگڑ سے ٹکڑے ٹکڑے ہوتے ہیں B۔ پانی جم کر برف کی شکل اختیار کرتا ہے
C۔ سمندر
وں یا ویرانوں میں آ گرتے ہیں C۔ زمین کو اپنے خط و خال تراشنے میں مدد
ملتی ہے
D۔ گرنے
کے بعد ہوا میں تحلیل ہوتے ہیں D۔ بارش میں کمی بیشی واقع ہوتی ہے
(براہ کرم صفحہ
اُلٹیے)
5۔ چاند کی سطح پر موجود نشانات کے بارے میں زمانۂ قدیم سے کون سی
بات مشہور ہے؟
A۔ چاند کی سطح قابل رحم اور زخمی ہے
B۔ چاند پر بڑے بڑے آتش فشاں پہاڑ پائے
جاتے ہیں
C۔ چاند پر بڑے بڑے سمندر پائے جاتے ہیں
D۔ چاند کی مٹی سفید اور بھر بھری ہے
6۔ "چاند کی سطح پر بڑے بڑے دہانے بنے ہوئے ہیں جیسے کسی آتش
فشاں پہاڑ کے ہوتے ہیں۔"
درج
بالا جملے میں علم بیان کی کون سی قسم کا استعمال کیا گیا ہے؟
A۔ استعارہ
B۔ تشبیہ
C۔ مجاز مرسل
D۔ کنایہ
7۔ "ایک طرف پہاڑی چوٹیوں پر ہوا کے چلنے سے زمین کو اپنے خط و خال تراشنے میں مدد دی ہے"۔
درج
بالا جملے میں خط کشیدہ الفاظ قواعد کی رو سے مرکب کی کون سی قسم سے تعلق
رکھتے ہیں؟
A۔ مرکب جاری B۔ مرکب امتزاجی
C۔
مرکب اضافی D۔ مرکب عطفی
(براہ کرم صفحہ
اُلٹیے)
دوسرے اقتباس سے متعلق سوالات:
8۔ غالب ؔ نے اپنے شاگرد کو کہاں پہنچ کر خط لکھنے کے لیے کہا؟ 9۔ غالبؔ کو کس بات پر بہت رنج ہوا تھا؟
A۔ بیمار کے پاس پہنچ کر A۔ خط میں بُرا بھلا لکھا تھا
B۔ چھوٹے لڑکوں کے پاس پہنچ کر B۔ دوست کی بیوی کی موت کی خبر پر
C۔ منشی نبی بخش کے پاس پہنچ کر C۔ دوست کے بچوں کے مرنے کی خبر پر
D۔ کول پہنچ کر D۔ دوست کے نہ آنے کی خبر پر
10۔ غالب ؔ کے دوست کے لیے کیا دشوار تھا؟ 11۔ درج بالا پڑھی گئی تحریر
ادب کی کس صنف سے تعلق رکھتی ہے؟
A۔ خط لکھنا A۔ افسانہ نگاری
B۔ لڑکوں کا پالنا B۔ انشائیہ نگاری
C۔ خط کا سمجھنا C۔ مکتوب نگاری
D۔ اپنا سارا حال لکھنا D۔ ڈراما نگاری
12۔ غالبؔ نے حفظِ صحت کے لیے مسہل کیوں لیا تھا؟ 13۔ مرزا غالبؔ کس آفت میں گرفتار تھے؟
A۔ بیمار
ہونا چاہتے تھے A۔ انھیں بچوں کی پرورش کرنا پڑ رہی تھی
B۔ آرام کرنا چاہتے تھے B۔ اُن کی بیوی وفات پا گئی تھیں
C۔ دوستوں سے چھپنا چاہتے تھے C۔ وہ بہت بیمار تھے
D۔ صحت مند رہنا چاہتے تھے D۔ انھیں دشمن پریشان کرتے تھے
14۔ غالبؔ کے شاگرد نے انھیں جس مقصد کے لیے خط بھیجا، وہ تھا:
A۔ بیوی
کی موت کی اطلاع دینا B۔ بچوں کی شرارت کی اطلاع دینا
C۔ اشعار پر اصلاح لینا D۔ غالب ؔ کی خیریت معلوم کرنا
( ختم شُد )
آغا خان
ایجوکیشن سروس پاکستان
سبقی منصوبہ
بندی برائے فاصلاتی تدریس
تاریخ: ۲۳اپریل ۲۰۲۰ ء مضمون: اُردو جماعت :قبل از نہم(Pre-9)
عنوان: تفہیمی عبارت خوانی(۱۴) درکار
کُل وقت: ۴۵ منٹ معلم: بلبل ولی شاہ
حاصلات ِ تعلم: ۱۔ ادبی اور علمی
تحریروں میں مجازی اور اصطلاحی امتیاز کو ملحوظ رکھ کر حسن بیان اور تصورات کے
بیان کو سمجھ کر پڑھ سکے۔
تدریسی مقاصد: اس
سبق کو پڑھنے کے بعد طلبا اس قابل ہوں گے کہ وہ:
۱۔دئیے گئے اقتباس کے تصورات کی تفہیم حاصل کر کے
اپنے الفاظ میں بیان کریں گے۔
۲۔ اقتباس سے متعلق پوچھے گئےکثیر الانتخابی سوالات
کے درست جوابات کی نشاندہی کریں گے۔
تدریسی معاونات: کاپیاں،
قلم، تفہیمی خواندگی کے اقتباس، تفہیمی
سوالات کی فہرست، اُردو لُغت،
سرگرمی نمبر |
مجوزہ تدریسی سرگرمیاں |
درکا ر وقت |
1 |
٭ عزیز طلبا آپ کو دو
اقتباسات دئیے جا رہے ہیں۔ آپ پہلے اقتباس نمبر 1 کو وقت مقررہ کا خاص
خیال رکھتے ہوئے دو بار غور سے پڑھیں اور اچھی طرح تفہیم حاصل کریں اور پھر
اقتباس کے آخر میں پوچھے گئے کثیر الانتخابی سوالات (MCQ) کے چار ممکنہ جوابات
میں سے درست جوابات کا انتخاب کریں۔
درست جوابات کے انتخاب کے بعد گھر کے کسی پڑھے لکھے فرد سے اصلاح لیں یا Footer میں دئیے گئے نمبرز پر
رابطہ کر کے کمک دہی حاصل کریں۔ |
۲۰ منٹ |
2 |
٭عزیز طلبا اب آپ اقتباس
نمبر 2 کو بھی وقت مقررہ کا خاص خیال رکھتے ہوئے دو بار غور سے پڑھیں اور اچھی طرح تفہیم حاصل کریں
اور پھر اقتباس کے آخر میں پوچھے گئے کثیر الانتخابی سوالات (MCQ) کے چار ممکنہ جوابات
میں سے درست جوابات کا انتخاب کریں۔
درست جوابات کے انتخاب کے بعد گھر کے کسی پڑھے لکھے فرد سے اصلاح لیں
یا Footer میں دئیے گئے نمبرز پر
رابطہ کر کے کمک دہی حاصل کریں۔ |
۲۰منٹ |
3 |
٭ جائزہ: عزیزطلبا اپنی آموزش (
تعلمLearning) کا جائزہ لینے کے لیے مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات کی دہرائی
کریں: ۱۔ کسی
شاعر نے بلبل کے بارے میںکس قسم کی
افواہ اڑائی ہے؟
۲۔ مصنف
کے نزدیک بلبل کے موسیقاروں سے بہتر ہونے کی
وجہ کیا ہے؟ ۳۔ ہاتھی
کی شکل و صورت کے بارے میں اختلاف کی وجہ کیا
تھی؟ ۴۔ ہاتھی کی پُشت کو تخت کی مانند قرار دینے کی وجہ بیان کریں۔ |
۵ منٹ |
(براہ کرم صفحہ اُلٹیے)
تدریسی مواد کی تفصیلات
تفہیم عبارات خوانی: پہلا اقتباس: (اس حصے کو مکمل کرنے
کے لیے آپ کے پاس 20 منٹ کا وقت ہے)
پیاری منیزہ
کافی
عرصہ ہوا، تمھارا ۲۶ اگست کا خط ملا تھا۔ تم میری طویل خاموشی کے باعث جواب سے
مایوس ہو گئی ہو تو حق بجانب ہوگی۔ سچی بات یہ ہے کہ ان دنوں میری صحت اچھی نہیں
رہی۔ اس کے باوجود مجھے کام بھی کرنا پڑتا تھا۔ اس لیے خط و کتابت کا سلسلہ بند
رہا۔اب میں تندرست ہوں اور تمھارا خط سامنے رکھ کر جواب لکھنے بیٹھ گیا ہوں۔
میں
تمھیں خط اپنے دفتر سے لکھ رہا ہوں جو اقوام متحدہ کے سیکرٹریٹ کی عمارت میں دسویں
منزل پر واقع ہے۔ اس عمارت کی اڑتیس منزلیں ہیں۔ ایک مستطیل سا مینار ہی سمجھو۔
دور سے دیکھو تو ایسی لگتی ہے جیسے ماچس کی ڈبیا اپنے کناروں پر کھڑی ہو۔مطلع آج
اتفاقاً نہایت صاف ہے۔ سورج کی روشنی کھڑکیوں میں سے اندر آرہی ہے۔ یہ کھڑکیاں
دریا کی جانب کھلتی ہیں۔ وہ دریائے ہڈسن کی ایک شاخ ہے جو یہاں سے کچھ فاصلے پر
بحرِ اوقیانوس میں گرتا ہے۔ یہاں دریائے ایسٹ کہتے ہیں۔ اس وقت جب میں لکھ رہا ہوں
تو بڑی بڑی کشتیاں اور تیل کے بیڑے دریا میں تیرتے پھرتے ہیں۔ پانی دھوپ میں چمک
رہا ہے اور وہ نیچے کی طرف مجھے پُلوں میں سے ایک پُل نظر آ رہا ہےجو دریائے ایسٹ
پر باندھے گئے ہیں۔اس پل کا نام ولیمز برگ ہے۔ ویسے ان سب میں مشہور پُل برک ہاٹن
ہے۔ یہ اتنا ہی مشہور ہے جتنا ہڈسن کی مغربی شاخ پر جارج واشنگٹن پُل ہے ۔
موسم
سرما کی آمد آمد ہے۔ اگرچہ سردی ابھی بہت ہلکی ہے۔ نیو یارک شہر میں ابھی برف نہیں
پڑی۔ کہیں دسمبر کے آخر اور جنوری فروری میں پڑے گی۔ یہاں خزاں کا موسم سب سے دل
کش ہوتا ہے۔ یہ ستمبر میں شروع ہوتا ہے۔ اس موسم میں درختوں کے پتے پہلے زرد اور
پھر تانبے کی طرح سرخ ہو جاتے ہیں۔ جنگلوں میں جیسی آگ سی لگ گئی ہو۔ جہاں کہیں
درخت اُگے ہوتے ہیں وہ جگہ رنگریز کا کارخانہ معلوم ہوتی ہے، جیسے اُس نے پیارے
پیارے رنگوں میں کپڑے رنگ کر سوکھنے کے لیے پھیلا دیے ہوں۔
جب
تم نے مجھے خط لکھا تو تمھاری امی ولایت سے واپس آچکی تھیں اور ابا ابھی وہیں تھے۔
اب تک تو وہ بھی لوٹ آئے ہوں گے۔ انھیں میرا سلام کہنا اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تمھارا پیارا
اے ایس بخاری
پہلے اقتباس سے متعلق سوالات:
۱۔ مکتوب نگار نے درج
بالا خط کس شہر سے لکھا ہے؟ ۲۔ مصنف نے خط کا جواب لکھنے میں تاخیر کی
وجہ بیان کی ہے:
A ۔ واشنگٹن A۔ بیرون ملک سفر
B۔ نیو یارک B۔ دفتری مصروفیات
C۔ ہڈسن C۔ صحت کی خرابی
D۔ برک ہاٹن D۔ خط موصول ہونے میں تاخیر
(براہ کرم صفحہ
اُلٹیے)
۳۔ درج بالا خط میں مکتوب نگار نے تحریر کا کون سا انداز اپنایا
ہے؟ ۴۔ مصنف کو کھڑکی سے کون سا پُل دکھائی دے
رہا ہے؟
A۔ انشائیے کا A۔ جارج واشنگٹن پُل
B۔ کہانی کا B۔ برک ہاٹن پُل
C۔ روداد کا C۔ ولیمز برگ
D۔ مزاح کا D۔ ہڈسن پُل
۵۔ مکتوب نگار نے درج بالا خط کس موسم میں لکھا ہے؟ ۶۔ مصنف نے موسم خزاں میں درختوں والی جگہوں کوکس چیز
A۔ موسم بہار سے
تشبیہ دی ہے؟
B۔ موسم خزاں A۔ آگ لگی جنگل
C۔ موسم سرما B۔ دھوپ میں چمکتے پانی
D۔ موسم گرما C۔ رنگ ریز کارخانہ
۷۔ پڑھے گئے خط کا تعلق خطوط کی کس قسم سے ہے؟ D۔ مستطیل مینار
A۔ عدالتی B۔ کاروباری
C۔ غیر رسمی D۔ رسمی
(براہ کرم صفحہ
اُلٹیے)
دوسرے اقتباس سے متعلق سوالات:
۸۔ پڑھے گئے اقتباس کا تعلق نثری ادب کے کس صنف سے ہے؟ ۹۔ پڑھی گئی عبارت کے مطابق "بے چراغ نہ دیکھنا "سے
مراد ہے:
A۔ افسانہ A۔ تاریک کمرے میں دیکھنا
B۔ حکایت B۔ رات میں دیکھنا
C۔ خاکا C۔ روشنی میں دیکھنا
D۔ روداد D۔ مقررہ وقت میں ہی دیکھنا
۱۰۔ " بہ خدا دیکھ کر ٹلیں گے" عبارت کے مطابق اس جملے کا مطلب ہے: ۱۱۔ اُس شخص کو ہاتھی ستون کی طرح لگا تھا جس
نے ہاتھ رکھا تھا
A۔ بغیر دیکھے نہ جانا A۔ پُشت پر
B۔ چراغ کے بغیر نہ دیکھنا B۔ پنڈلی پر
C۔ دیکھے بغیر چلے جانا C۔ سونڈ پر
D۔ رات ڈھلنے کا انتظار کرنا D۔ کان پر
۱۲۔ ہاتھی کی شکل و صورت کے بارے میں اختلاف کی وجہ تھی: ۱۳۔ "ہاتھی نلکے کی طرح گول، مخروطی اور لمبا ہے"
A۔ اُن سب کے ہاتھ میں شمع کا نہ ہونا درج
بالا جملے میں "علم بیان" کی کون سی صنعت استعمال ہوئی ہے؟
B۔ بے چراغ دیکھنے کا حکم ملنا A۔ استعارہ
C۔ چاروں کا ایک ساتھ ہاتھی کا مشاہدہ
کرنا B۔ تشبیہ
D۔ سب کا اَن پڑھ اور جاہل ہونا C۔ تلمیح
D۔ محاورہ
۱۴۔ ہاتھی کی پُشت کو تخت کی مانند
قرار دینے کی وجہ اُس کا
A۔ چوڑا اور نرم ہونا ہے B۔ گول اور لمبا ہونا ہے
C۔ مخروط اور لمبا ہونا ہے D۔ مضبوط اور چوڑا ہونا ہے
(ختم شُد)